ایوان صدر کے اخراجات کیلئے پہلے بھی ہر سال خطیر رقوم رکھی جاتی ہیں مگر اس بار ان اخراجات کیلئے آٹھ فیصد اضافے کے ساتھ آٹھ سو تریسٹھ ملین روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔سوال یہ نہیں کہ ٹیکس دہندگان کے پیسے سے اتنی بڑی رقم سربراہ ریاست کے ادارے کے اخراجات کیلئے کیوں رکھی جاتی ہے۔سوال یہ بھی نہیں کہ اس رقم میں ہر سال اضافے کا مسلسل رحجان کیوں ہے۔سوال صرف یہ ہے کہ اگر عوام پر یہ بھاری بوجھ ڈالنا ہی ہے تو ملک کے سب سے بڑے منصب پر فائز شخص کی صلاحیتوں اور خدمات سے استفادہ حاصل کرنے کی بجائے اسے اختیارات سے یکسر فارغ رکھ کر محض دستخط ثبت کرنے تک محدود رکھنے میں کیا مصلحت پوشیدہ ہے؟ آئین کے آرٹیکل اڑتالیس کے تحت صدر وزیر اعظم اور کابینہ کی ایڈوائس کا پابند ہے۔ چیک اینڈ بیلنس رکھنا تو دور کی بات ہے وہ حکومت کو سمت درست کرنے کی ایڈوائس کرنے کا بھی مجاز نہیں۔ جمہوریت اگر تقسیم اختیارات کا نام ہے تو یہ ارتکاز اختیارات کیوں؟ ارتکاز اختیارات تو آمریت کا خاصا ہوا کرتا ہے۔وزیر اعظم کا انتخاب عوام کے براہ راست ووٹ سے منتخب نمائندے کرتے ہیں تو صدر کا انتخاب کرنے والے لوگ بھی عوام کے ہی منتخب نمائندے ہوتے ہیں۔ دونوں بالواسطہ انتخاب سے آتے ہیں۔ پھر ہر دو کے اختیارات میں اس قدر عدم توازن کیوں۔ کیا حکومت کوئی غلطی نہیں کر سکتی ۔یقینا غلطیاں ہو سکتی ہیں بلکہ ہوتی ہیں۔اور جہاں غلطی کے امکان کو رد نہ کیا جا سکتا ہو وہاں چیک اینڈ بیلنس کا نظام ضروری ہوتا ہے۔مگر یہاں کیا چیک اینڈ بیلنس ہے یہاں تو صدر کے پاس حکومت کووارننگ تک دینے کا اختیار نہیں۔ اگر چیک اینڈ بیلنس کیلئے صدر کو مناسب حد تک با اختیار بنا کر عوام کو جمہوری نظام میں اپنے بالواسطہ منتخب صدر کی صلاحیتوں سے بھی مستفید ہونے کا موقع دیا جائے تو یقینا جمہوری نظام پر کوئی قیامت برپا نہیں ہوگی۔مگر بد قسمتی سے ہمارے پولیٹیکل سیٹ اپ میں صدر کے پاس کچھ اختیارات کا مطلب آمریت لیاجاتا ہے۔ حالانکہ صدر کے پاس اگر حکومت کو واچ کرنے اوربے راہ روی کی صورت میں سمت درست کرنے کیلئے وارننگ یا ایڈوائس دینے کا اختیار حاصل ہو تو حکومت زیادہ بہتر طور پر عوام کی خدمت کرسکتی ہے۔سمجھ سے باہر ہے کہ صرف دستخط کرنے کیلئے اتنا بوجھ عوام پر ڈالنے کی کیا ضرورت ہے ۔یہ کام بھی اگر سربراہ حکومت خود ہی کر لیں تواخراجات میں کچھ کمی واقع ہو سکتی ہے ۔ جس سے لاکھوں غریب لوگوں کی حالت کو بہتر کیا جاسکتا ہے۔ غریب کیلئے تو بجلی کا بل ہی کسی آفت سے کم نہیں ہوتا۔ ایک اندازے کے مطابق اتنی رقم سے سو یونٹ تک کے بجلی کے بارہ لاکھ کنزیومرز کا پورے سال کا بجلی کا بل ادا کیا جاسکتا ہے۔ صدر اگر وفاق کی علامت ہے تو اسے کچھ اختیارات دینے سے وفاق کو کچھ فائدہ کیوں نہیں ہو سکتا ۔اب اگر برطانیہ اور بھارت کی مثال دی جائے تو یہ بالکل بے سود اس لئے ہے کہ پاکستان کے حالات ان سے مطابقت نہیں رکھتے ۔ ہمارے اپنے حالات ہیں ہم نے اپنی ضروریات اور اپنے ملی تقاضوں کے مطابق نظام وضع کرنا ہے اور کر سکتے ہیںہم لکیر کے فقیر رہنے کے پابند نہیں ۔حالات ہمارے سامنے ہیں کتنے لوگ لوٹ کھسوٹ کر کے مکھن سے بال کی مانند بیرون ممالک میں براجمان ہیں اور وہاں سے تار ہلا تے ہیں مگر ہمارا نظام ان کا بال بیکا نہیں کر سکا۔اگر چیک اینڈ بیلنس ہوتا تو اتنی اندھیر نگری نہ ہوتی۔ دکھ تو یہ ہے کہ ہم نظام کو عوامی تقاضوں سے ہمکنار کرنا تو دور ایسا سوچنے سے بھی ڈرتے ہیں۔اور یہی سوچ ہمیں آگے بڑھنے سے روکتی ہے۔اقبال ؒ نے کیا خوب کہا ہے…؎
آئین نو سے ڈرنا طرز کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
موروثی سیاست نے نظام میں اس حد تک مضبوط پنجے گاڑھ رکھے ہیں کہ کوئی غیر وارث سیاست کا نام بھی نہیں لے سکتا۔ سیاسی گٹھ جوڑ کی بنا پر چیزوں کا کنٹرول فرد واحد کے ہاتھ میں رکھنے کے لئے یہ تاثر بھی دیا جاتا ہے کہ موجودہ نظام ہی قرارداد مقاصد کے مطابق ہے، حالانکہ قرار داد مقاصد میں وفاقی نظام کی بات کی گئی ہے ۔قرارداد مقاصد کے مطالعے سے کسی صورت بھی بے اختیار صدر کا تاثر نہیں ملتا۔ اب تو قرارداد مقاصد آئین کا حصہ ہے۔
اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ جمہوریت کبھی فرد واحد کے اختیار کے ساتھ نہیں چل سکتی۔یہ بات بھی طے ہے کہ چیک اینڈ بیلنس کے بغیر کوئی بھی نظام جمہور کے منصفانہ اور مساوی حقوق کا ضامن نہیں ہو سکتا۔ سچ تو یہی ہے کہ صدر کو عوامی مفاد میں مناسب اختیارات دینے میں کوئی مضائقہ نہیں۔ پھر صدر اس قدر بے اختیار کیوں؟