انسان کا اپنا گھر چاہیے وہ دو کمروں کی کْٹیا اور کنبہ چاہیے چند افراد پر مبنی ہو اسکا وجود اسے ایک ریاست کے مالک ہونے کا احساس دلاتا ہے جس کیلئے اسکی کوشش اور تمنا ہوتی ہے کہ دنیا بھر کی خوشیاں اسکی اْس ریاست کا مقدر بنیں لیکن اسکے ساتھ ساتھ اسکی ایک اور بڑی شدید خواہش ہوتی ہے کہ اس ریاست کے مکینوں سے کوئی نہ کوئی ایک ایسی ہستی ضرور ہو ہو جو اسکی legacy کو carry کر سکے۔ اس ضمن میں میری ریاست کا ایک مکین زاوِآر خان ہے جسکے ساتھ میری کچھ اس قسم کی توقعات وابستہ ہیں۔ کل میری خوشیوں کی انتہاء اس وقت آسمانوں کو چھونے لگی جب سات سال کی عمر میں اسکے بنائے sketch کو London Borough of Newham نے اپنے ماھنامہ میں جگہ دی۔ اس خبر کو سوشل میڈیا پر دوستو احباب سے share کرنے کیلئے ابھی سوشل میڈیا پر log in ہوا ہی تھا کہ وائرل ہونی والی اس ایک پوسٹ نے میری فکری سوچوں کو کچھ اسطرح جھنجوڑا کہ لمحوں پہلے حاصل ہونیوالی خوشی کا نشہ پلک جھپکتے ہی کافور ہو گیا اور میں یہ سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ نجی ریاست کا سوچنے والے یہ تو سوچ کہ جس اصل ریاست مملکت خداداد پاکستان جسکے ساتھ تیری پہچان جڑی ہوئی ہے وہ ریاست کس کرب سے گزر رہی ہے۔ ذرا ملاحظہ کیجئے وہ تفکرات جنکا اظہار پوسٹ کا راقم اپنی نثری نظم میں کر رہا ہے اور پھر سوچ کر بتائے کہ ان سوالات کا آپکے پاس بھی کوئی جواب ہے یا پھر حالات کے جبر نے آپکی زبان پر چپ کی مہر رسید کر دی ہے…؎
سوالنامہ کچھ اسطرح ہے کہ
او دیس سے آنے والے بتا ،؟
کیا اب بھی وہاں بجلی جاتی ہے،؟
اور ساری رات جگاتی ہے،،،؟
کیا اب بھی کلمہ پڑھتے ہیں،؟
جب لوگ گھروں سے نکلتے ہیں،؟
کیا اب بھی جب مسجد جاتے ہیں
تو ننگے پاؤں واپس آتے ہیں،،،؟
کیا اب بھی جب بارش ہوتی ہے،؟
تو پھر بعد میں خارش ہوتی ہے،؟
کیا اب بھی جب دام نہیں ہوتے،؟
تو ہرگز لوگوں کے کام نہیں ہوتے،،؟
کیا اب بھی جب پولیس میں پرچہ ہوتا ہے ،،؟
تو کورٹ کچہری کافی خرچہ ہوتا ہے۔۔۔۔
عوام نے کیا کھویا ہے کیا پایا ہے،؟
اتنی لاشیں اْٹھانے کے بعد
کیا قوم کا ہر فرد اب بھی سویا ہے۔
او دیس سے آنے والے بتا،؟
کس حال میں ہیں یارانِ وطن،؟
اس سلسلے میں میری عرض صرف اتنی ہے کہ زیادہ دور کی بات نہیں جس پاکستان کو میں نے دیکھا تھا وہاں جب کبھی سرخ آندھی چلتی تھی تو لوگ ایک دوسرے سے حیرانگی کے عالم میں اس بات کا اظہار کرتے تھے کہ اللہ خیر کرے کہیں نہ کہیں کسی ناحق کا خون بہا ہے جو آسمان پر چڑھ کر بول رہا ہے۔ میں نے جو پاکستان دیکھا تھا اسکے ہر محلے ہر گاوں کے لوگ اس محلے اس گاوں کی بہن بیٹی کو اپنی بہن بیٹی سمجھتے تھے۔
میں جس پاکستان کو جانتا ہوں وہاں لوگوں کے باہمی جھگڑوں کے فیصلے تھانوں یا کورٹ کچہریوں میں نہیں مقامی پنچائتوں میں ہوا کرتے تھے جس پاکستان کو میں جانتا ہوں وہاں بجلی کسی آندھی طوفان کی وجہ سے چلی جائے تو چلی جائے ورنہ لوڈ شیڈنگ کا کوئی تصور نہیں تھا۔ جس پاکستان میں میں رہتا تھا وہاں ایک بندہ کماتا تھا اور دس کھاتے تھے میں نے وہ پاکستان دیکھا ہے جہاں علماء اور اساتذہ اپنے کردار کی وجہ سے ہر جگہ عزت و احترام کا درجہ پاتے تھے۔ یہ ابھی کل کی بات ہے جب یہ قوم ان تمام نعمتوں سے محروم ہو گئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ دیکھتے دیکھتے اس قحط الرجال کا ظہور کیوں ممکن ہوا۔ اس سلسلے میں قارئین کی توجہ برصغیر پاک و ہند کے ادبی حلقوں میں اپنی نظم " اج آکھاں وارث شاہ نوں ، کتھوں قبراں وچوں بول " سے شہرت پانے والی مصنفہ امرتا پریتم کے ایک اقتباس کی طرف مبذول کروانا چاہوں گا۔ مصنفہ لکھتی ہے کہ لوگوں کو صرف سننے کا قاعدہ سکھایا جائے، سوچنے کا قاعدہ کبھی نہ سکھایا جائے۔ کہتے ہیں ، سوچنے سے لوگ فرمانبردار نہیں رہتے۔ بغیر کسی تعصب کے میں یہ کہنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرونگا کہ شعوری بیداری کے نام پر ان دنوں الیکٹرانک میڈیا کا رول کچھ ایسے عذر پیش کرنے لگا ہے کہ جس اظہارِ خیال کو شعوری بیداری کے نام سے تعبیر کیا جا رہا ہے دراصل وہ شعوری بیداری نہیں ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت پوری قوم کو ایک نفسیاتی بیماری میں مبتلا کرنے کی سازش ہے۔ حقیقت میں ملک کی صورتحال اتنی ابتر نہیں جتنی بڑھ چڑھ کر مصالحہ لگا کر ہمارے بعض نشریاتی ادارے پیش کر رہے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم سے بدتر حالات میں رہنے والی اور بھی بہت سی اقوام ہیں لیکن وہاں کے ادارے اپنی محرومیوں اور ناکامیوں کے اشتہار نہیں لگاتے۔ انیسویں صدی میں امریکہ میں ایک مشہور مزاح نگار اور مصنف مارک ٹوین گزرا ہے جسکا اصل نام سموئیل کلیمن تھا وہ لکھتا ہے کہ لوگوں کو بیوقوف بنانا آسان ہے بہ نسبت یہ سمجھانے کہ وہ بیوقوف بنائے جا رہے ہیں۔ یقین جانئیے جس خوبصورتی کے ساتھ ہمارے معاشرے کی اکثریت کے ساتھ یہ گھناؤنا کھیل جاری ہے اس پر دل خون کے آنسو روتا ہے لیکن کیا کیا جائے بقول ایک دانشور "ان بیوقوفوں کو آزاد کرانا مشکل ہے جو اپنی زنجیروں کی عزت کرتے ہیں "۔ مجھ غریب کی تدبیریں کیا رنگ لائیں گی۔