کبھی کبھی صدمہ لفظوں سے بہت بڑا ہوتا ہے۔ زخم اور درد رگوں میں دوڑتے خون میں فشار پیدا کرتا ہے اور سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جیسے شل ہو جاتی ہیں۔ اذیت ناک تکلیف، احساس و کرب کے اظہار کے لیے تہی داماں ہو جاتی ہے۔ کیا کیجئے کہ جنت نظیر مسکراتے چہکتے دیس کو آہوں، سسکیوں اور نالوں کی آماجگاہ بنا دیا گیا ہے۔ جہاں کبھی دھیمے سُروں میں گنگناتی آوازیں دلوں کو سرور اور اونچے راگوں کے آلاپ وجود کو وجدانی کیفیات سے روشناس کراتے تھے آج وہاں فن و ثقافت کو بے ثمر پودا قرار دیتے ہوئے اس کی بے دریغ کٹائی کی جا رہی ہے۔ شہد سے میٹھے، زمین کے اندر تک جڑیں رکھنے والے فن کو کیکر کا درخت باور کروانے کے لیے خون کی ہولی کھیلی جا رہی ہے۔ اس سے بڑی کیا قیامت ہو گی کہ حمد باری تعالیٰ اور عشق رسول ﷺ میں ڈوبی تصوف و وجد کی آواز قتل کر دی جائے۔ رب العزت سے نگاہ کرم مانگنے والا معصوم قبر میں اتار دیا جائے۔ تاجدار حرم سے کرم مانگنے والا، عطا مانگنے والا، دعا مانگنے والا، آج اپنے بچوں پر یتیمی کی چادر ڈال کر منوں مٹی تلے سو چکا ہے۔ امن کے پیامبر، دنیابھر میں پاکستان کے سافٹ امیج کے سفیر امجد صابری کے آخری الفاظ پوری پاکستانی قوم اور انسانیت کے لیے نہ ختم ہونے والی کسک چھوڑ گئے کہ ”مجھے مت مارو، میرے بچے ابھی بہت چھوٹے ہیں“۔ ہمارے ہاں تحفظ فراہم کرنے والے اداروں کو اچھی طرح احساس ہے کہ جس خاندان کا سربراہ نہ رہے اس نسل پر کیا گزرتی ہے۔ اس خوف و ہراس کی فضا میں کون کس کے ساتھ ہے، کون اپنا ہے کون پرایا، کچھ پتہ ہی نہیں چلتا۔ اپنے ہی سائے سے ڈر لگتا ہے۔ آخر ارباب اختیار کو تو معلوم ہی ہے کہ ہر فرد کا اپنا اسلام اور اپنے عقیدے ہی کو درست قرار دینے کی جڑیں کیسے کاٹتی ہیں!! رمضان المبارک میں برداشت، درگزر بھائی چارے کے برعکس کسی راہ چلتے نہتے معصوم پر گولیوں کی بوچھاڑ پر تو انسانیت بھی شرمندہ ہے۔ انتہا درجہ پھیلتی شدت آمیز تنگ نظری نے ہمارے معاشرے کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔
اس کڑواہٹ بھر سے حسد اور بے وجہ رقابت نے پھولوں کے رنگ ماند کردیئے ہیں، تتلیوں کے پر جلا دیئے ہیں اور ان کی فاختاﺅں کے پر نوچ ڈالے ہیں۔ اس کشت و خون ہر گدھ اور کوئے عید منا رہے ہیں۔ کھوجنا اتنا محال نہیں کہ آخر وہ کون لوگ ہیں جو اس مبارک مہینے میں کسی مسلمان کا خون بہا کر فخر سے اس کی ذمہ داری قبول کررہے ہیں۔ فقط اپنی سوچ اور نظریئے کو ہی دین قرار دینے والوں کے نزدیک میڈیا پر رمضان نشریات کے ذریعے دین کی پر تضوع تشریح کی جو شروعات ہوئی ہیں اُن کے خلاف طاقتور نفرت کی وجہ شاید ان نشریات کا ” سیل اینڈ پرچیز“ کھڈی پر بُنے جانا ہے۔ ایسے میں کسی کمزور ایمان کے مالک کو میٹھے چشموں اور بڑی آنکھوں کے سحر میں مبتلا کرکے اپنی نفرتوں، عداوتوں اور سازشوں کی چال میں پھانس لین ایک غیر منصفانہ، انسان دشمن گمراہ معاشرہ میں کوئی بعید نہیں، خدا جانے روز محشر ایسے لوگ اور اُن کے امیر اللہ کے سامنے کیا منہ لے کر جائیں گے۔ دُکھ اذیت اور کرب کے لمحوں میں جذباتیت سے ہٹ کر معاشرتی تنزلی و پراگندگی کی حقیقی وجوہات پر کبھی کبھی اہل دانش بھی نظر نہیں ڈالتے اور ناقابل تلافی جانی نقصان ایک جذباتی انسانی احساس کا اُبال بن کر دھیرے دھیرے ہماری بے حسی اور وقت کی تہہ تلے دب جاتا ہے۔ امجد صابری جیسے حمدوثنا کرنے والے انسان دوست بے ضرر انسان کے قتل کو صرف فرقہ وارانہ تعصب کی چادر اوڑھا کر مجرموں کے سراغ کو سطحی بنیادیں فراہم کرنا دراصل تحقیقات کا رخ موڑنے کے مترادف بھی ہوسکتا ہے۔ سوچنا یہ بھی ہے کہ آخر یہ کس کا ایجنڈا ہے کہ ساری دنیا کو باور کروایا جائے پاکستان میں کوئی بھی محفوظ نہیں نہ سوچ رکھنے والے نہ سوچ کے بغیر صرف رزق روٹی کے پیچھے بھاگنے والے نہ ڈاکٹر نہ انجینئر نہ تخلیق کار نہ فنکار نہ عبادت گاہیں نہ عبادت گزار!!!
صرف ذاتی مسلک اور اپنی ہی تہذیب و ثقافت کو قبلہ و کعبہ سمجھنے والے کیا یہاں خیبرپختونخوا کا رہن سہن لاگو کریں گے یا سندھ کا، پنجاب کا یا بلوچستان کا، یا پھر اُن کے لئے ضروری ہے یہاں سعودی عرب کا کلچر اور شاہی سوچ کو پروان چڑھایا جائے، جس میں غلاموں کی منڈیا سجائی جائیں، لونڈیوں کو بیچا خریدا جائے اور باپ کے بعد بیٹے اور پھر اُس کے بیٹے کو فرمانروا بنادیا جائے۔
امجد صابری کا خون ناحق ملک میں دہشت و بربریت کی فضا کی موجودگی ہی نہیں بلکہ روز افزوں پروان چڑھنے والی شدت پسند ذہنیت کا پیغام ایسی طاقتوں تک پہنچانا ہے جو دوسروں کے گھروں میں درآتی ہیں۔ آج زندگی کے درخت سے جھڑنے والے جس پتے پر امجد صابری کا نام لکھوایا گیا ہے کل ایسے ہی کسی پتے پر کوئی اور معصوم و بے گناہ لکھ دیا جائے گا۔ تب بھی حکمرانوں کے پاس تاسف کے لگے بند سے مذمتی فقروں کے سوا کچھ نہ ہوگا ” بدخبر سے“ حکمرانوں کو احساس ہی نہیں کہ اولاد تو ہم سب کی سانجھی پونجی ہے، گولی پر تو کسی کا نام نہیں لکھا ہوتا، کل کو کوئی گولی بلٹ پروف گاڑی اور فرلانگوں لمبی سکیورٹی پاٹ کر آپ تک بھی پہنچ سکتی ہے، تب سارے چھوٹو، موٹو گینگوں کے سرپرستوں کو شاید اپنا سر پکڑنے کا بھی موقع نہ ملے اور وہ سینہ پیٹ پیٹ کر شہیدوں میں شامل ہوجائیں۔ خدارا اب بھی قبلہ و کعبہ درست کرلیجئے، فوج سے لیکر بیوروکریسی تک کو اپنی صفوں کی صفائی کرنا ہوگی اور سیاست دانوں کے کیا کہنے یہ تو وقت آنے پر گدھے کو باپ بنالیتے ہیں، گھٹنے چھونے کو عقیدت اور ابتدائی تربیت کا نام دینا بھی کمال ہے، اب ” ہلکے“ ” بھاری“ تمام عوامی نمائندوں کو نوٹ بوریوں میں بھرنے سے ہاتھ کھینچ لینا چاہیے ہوسکتا ہے قدرت انہیں یہ خزانے استعمال کرنے کا موقع ہی نہ دے۔ اور یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ انہی کا لگایا ہوا نفرت و حسد کا کوئی کڑوا پودا ان ہی کے حلق میں زہر انڈیل دے۔
لیکن ان کو جھنجھوڑنے کے لیے یہ کافی نہیں اس لئے ان کی اولادوں کے عافیت خانے تو دوسرے ممالک میں ہیں لیکن معصوم فنکار جو کماتا ہے وہی کھاتا ہے اب اگر اُس سے جان کے بدلے روپوں کی بوریوں کے وعدے کر بھی لئے جائیں تو صاحبو! ہمارے ہاں تو اکثر سرکاری چیک ڈس آنر ہوجاتے ہیں۔
نگاہ ِ کرم
Jun 29, 2016