مودی، ٹرمپ اور اسلامی انتہا پسندی
گزشتہ روز بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور امریکی صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس سے جاری مشترکہ بیان میں اسلامی دہشت گردی کو جڑ سے مٹانے کا عزم کیا ہے۔ اس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سعودی عرب کے شہر ریاض میں دنیا کے 50ممالک کے سربراہوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلامی انتہا پسندی اور اس سے جن اسلامی دہشت گرد گروپوں کو حوصلہ ملتا ہے ان کا ایمانداری سے مقابلہ کیا جائے۔ امریکہ صدر کی اس سوچ سے گمان ہوتا ہے کہ دنیا میں صرف مسلمان ہی ظلم کر رہے ہیں۔
مسلم اقوام پر غیروں کے ہاتھوں کہیں کوئی ظلم نہیں ہو رہا ہے، دنیا میں ظلم کے لئے صرف اسلامی انتہا پسندی اور اسلامی دہشت گرد گروہ ذمہ دار ہیں۔ عیسائی اور یہودی سب مسلمانوں کے ہی ظلم و ستم کا نشانہ ہیں۔ یہ تاثر جو امریکہ و یورپ نے از خود پیدا کیا ہوا ہے دنیا کی درست تصویر پیش نہیں کرتا۔ مرض کی تشخیص اور اس کے اسباب کی نشاندہی درست نہیں ہو گی تو علاج بے سود رہے گا۔ صدر ٹرمپ کا بیان تاریخی حقائق کا بھی سفاکانہ انکار ہے۔
بھارت میں مودی کی پارٹی بی جے پی مذہبی طور پر لوگوں کو جزباتی بنا کر مسلمانوں اور دوسری مذاہب کے لوگوں کا قتلِ عام کروا رہی ہے۔ یورپی عیسائیوں کی مظلومیت محض فریب ہے، حقیقت یہ ہے کہ دنیا بھر میں سامراجیت کو قائم رکھنے اور قدرتی وسائل کو ہتھیانے کے لئے جتنے مظالم عیسائی اقوام نے کئے ہیں ان کی کوئی مثال نہیں ملتی، لیکن اس کے لئے عیسائیت کو الزام نہیں دیا جا سکتا۔ بیشک دنیا کے مختلف حصوں میں یہودیوں پر ظلم ہوا ہے مگر یہ ظلم مسلم اقوام نے نہیں کیا بلکہ عیسائیوں نے کیا۔ اسپین میں سات صدیوں تک مسلمانوں کی حکومت رہی جس میں یہودی بہت پھلے پھولے حالانکہ وہ مسلم حکمرانوں کے خلاف مہمات میں معاون رہے۔
دنیا بھر میں 37ممالک میں امریکہ کی فوجی مداخلت سے کم از کم دو کروڑ افراد مارے جا چکے ہیں۔ نیو یارک میں ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے دو فلک بوس ٹاورز کی 9نومبر 2001ء میں تباہی میں 2996افراد مارے گئے تھے۔ اس حملے کے چند منٹوں میں ہی بلا تحقیق اس وقت کے صدر بش نے افغانستان کے حکمران طالبان کو موردِ الزام ٹھرا دیا اور اس کو بہانہ بنا کر افغانستان پر حملہ کر دیا جس میں تاحال تقریباً ایک ملین افراد مارے جا چکے ہیں اور یہ سلسلہ بدستور جاری ہے۔ عراق پر وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا الزام لگا کر حملہ کر دیا جس میں 50لاکھ سے زیادہ غیر فوجی عراقی مارے جا چکے ہیں، عراق اور افغانستان دراصل امریکہ کی دو ایسی جنگیں ہیں جنہیں کسی قبضہ گروپ کے معرکے کہا جا سکتا ہے کہ فلاں جگہ خالی پڑی ہے چلو اس پر قبضہ کر لیتے ہیں۔
ویتنام اور دیگر ممالک میںبراہِ راست یا بالواسطہ امریکی فوجی کاروائی میں ہزاروں افراد مارے گئے۔ جبکہ نیو یارک ٹائمز کی رپورٹ 16جولائی 2016ء کے مطابق یورپی اور دیگر ممالک میں آئی ایس آئی ایس کے حملوں میں مرنے والوں کی تعداد صرف 1200ہے۔ ان ہلاکتوں کی مذمت کی جانی چاہئے لیکن سوال یہ ہے جو ملک گلے گلے مسلمانوں کے خون میں ڈوبا ہوا ہے اس کو یہ اخلاقی اور قانونی حق کیسے مل گیا کہ وہ دنیا کے 50مسلم اکثریتی ممالک کو نصیحت کرے، وہ بھی اسلام پر دہشت گردی کا بدنما داغ لگا کر۔
امریکہ نے ستمبر 2001ء میں دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ چھیڑ دی تھی۔ اسکا نتیجہ کیا نکلا؟ دہشت گردی میں کمی آئی یا اضافہ ہوا؟ کتنے عرب ممالک تباہ ہو گئے؟ کتنوں کے تیل کے ذخائر پر غیروں کا قبضہ ہو گیا؟ ٹرمپ کی قیادت میں کسی نئی مہم میں شریک ہونے سے پہلے اس کا تجزیہ کر لینا چاہئے۔ جیسے کہ امریکہ کو عراق میں بھی بخوبی اندازہ ہو چکا ہے کہ جنگ شروع کرنا آسان مگر جنگ سے چھٹکارا پانا آسان نہیں اور آج واشنگٹن خود بھی اس طرح افغانستان میں بے بس ہو کر رہ گیا ہے۔
امریکہ کا خیال تھا کہ وہ آئے گا اور چلا جائے گا لیکن اب ایسا محسوس ہوتا ہے گویا یہ خلائی قلعے کی تعمیر کا معاملہ ہے۔ یہ امریکہ کی محض خوش فہمی تھی کہ وہ پوری طاقت کے ساتھ افغانستان کو ملیا میٹ کر کے اپنے گھر خیر خیریت سے پہنچ جائے گا۔ اس پر اعتراض نہیں ہو سکتا کہ کسی ملک کے قومی تقاضے کیا ہیں اور وہ کس سے تعلقات استوار کرنا چاہتا ہے؟ لیکن صدر ٹرمپ کی شخصیت کے مسلم مخالف پہلو سے پوری دنیا آگاہ ہے، انتخابات سے قبل اسلام اور مسلمانوں سے اپنی ازلی دشمنی کو وہ بار بار دہراتے رہے ہیں۔
اس حقیقت کے باوجود کہ فی زمانہ دہشت گردی سے سب سے زیادہ جان و مال، عزت و وقار و معتبریت کو جو ناقابلِ تلافی نقصان ہوا ہے بدقسمتی سے وہ مسلمانوں کا ہی مقدر بنا ہے۔ ٹرمپ اسلام اور مسلمانوں کو ہی عالمی دہشت گردی کا منبع سمجھتے ہیں اور یہ سوچ بھی رکھتے ہیں اگر امریکہ میں مسلمانوں کا داخلہ ہی بند کر دیا جائے تو ان کا ملک مکمل طور پر محفوظ ہو جائے گا۔ یہ دوسری بات ہے کہ امریکی عدلیہ اور عوام نے اس کوشش کو کامیاب نہیں ہونے دیا۔
امریکہ اس وقت دنیا میں بہت بڑی طاقت کا حامل ملک ہے اس کے صدر کو امن پسند ہونا چاہئے لیکن یہاں صورتحال مختلف ہے کہ ٹرمپ جنگ و جدل کے دلدادہ ہیں۔ اسی سوچ کی بدولت انہوں نے صرف شام کی فضائیہ کے ایک اڈے پر میزائل داغ دئے بلکہ افغانستان میں بہت بڑا بم داغ دیا جس میں بے شمار ہلاکتیں ہوئی ہیں جن میں زیادہ تر نہتے عوام ہی تھے۔ امریکہ اور دنیا بھر کے حکمران اکثر اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ آنے والی نسلوں کے لئے دنیا کو ایک بہتر مقام بنانا چاہتے ہیں، پوری دنیا میں امن و امان قائم کرنا چاہتے ہیں، روزگار کے زیادہ سے زیادہ وسائل پیدا کرناچاہتے ہیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا صرف زبانی جمع خرچ سے ان کے یہ عزائم مکمل ہو جائیں گے؟ ہر گز نہیں۔ بلکہ اس کے برعکس وہ عملی طور پر پوری دنیا کو بہت تیزی کے ساتھ جنگ و جدل میں جھونکنے پر کمر بستہ نظر آتے ہیں۔ دہشت گردی کا خاتمہ ضروری ہے لیکن اس کی آڑ میں ایک خاص قوم کو، دنیا بھر کے مسلمانوں کو اور یکے بعد دیگرے مسلم ملکوں کو نشانہ بنانے کی منظم اور منصوبہ بند حکمتِ عملی سے ظاہر ہے کہ امن و امان قائم نہیں ہو سکتا اور دنیا ایک محفوظ تر مقام نہیں بن سکتی۔ اپنے عزم کے برعکس وہ آنے والی نسلوں کے لئے اللہ کی عنایت کردہ اس خوبصورت دنیا کو جہنم زار بنا رہے ہیں۔
دنیا میں آباد پونے دو ارب مسلمانوں کو صرف اس اندیشے کی بناء پر کہ آنے والی چند دہائیوں میں اسلام دنیا کا سب سے بڑا مذہب بن جائے گا اور دیگر قومیں اسلام کی زندگی کے تمام شعبوں کے لئے عملی اور واضح ہدایت سے ترغیب حاصل کر کے اسلام کے گوشۂ عافیت میں پناہ لے سکتی ہیں، اتنے بڑے عالمی مذہب اور اتنی بڑی مسلم آبادی سے عمومی طور پر پوری دنیا کا نفرت آمیز رویہ رکھنا اور اس کے ماننے والوں کو ختم کرنے کی منظم سازشین کرنا دنیا کو لازمی طور پر تباہی اور بربادی کی طرف لے جائے گا۔ اس طرح کے نفرت اورتشدد کا نظریہ رکھنے والی ذہنیت سے بڑا خطرہ لاحق ہے۔ دنیا کے طاقتور ممالک کو اس امر کا ادراک کرنا چاہئے کہ لاطینی امریکا، افریقہ، عراق، لیبیا، شام، افغانستان میں وہ اور ان کے اتحادی ممالک مقامی شہریوں کے سکولوں، ہسپتالوں، عبادتگاہوں کو کارپٹ بمبنگ کا نشانہ بنا کر انسانیت کو فنا کرنے کے درپے کیوں ہیں؟ جب باوقار اعلیٰ انسانی تہذیبی اقدار کو عالمی طاقتیں اپنے مخصوص مذموم سیاسی و معاشی عزائم کے پاؤں تلے روند کر رکھ دے تو اسے تہذیب کا عہدِ انحطاط ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔