ابھی تک ایک آصف زرداری ہیں جنہوں نے مغرور اور ظالم ایم پی اے بلوچستان عبدالمجید اچکزئی کے خلاف بیان دیا ہے اور اسے قرارواقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا ہے۔ زرداری صاحب نے مقتول اور مظلوم ایک عام پولیس اہلکار کے لیے متعلقہ گھرانے سے تعزیت کی اور مرحوم کے ایصال ثواب کے لیے دعا کی ہے۔
مجید اچکزئی محمود اچکزئی کا کزن ہے اور محمود اچکزئی نواز شریف وزیراعظم پاکستان کے جگری دوست وزیر اعلیٰ بلوچستان ثنااللہ زہری سے بھی قریبی تعلق ہے۔ ابھی انہوں نے مجید اچکزئی کی مذمت نہیں کی ہے۔ ایک مصنوعی قسم کی معمولی اور شرمناک کارروائی نظر آئی ہے۔ وہ تھانے میں بھی عیش کر رہا ہے۔ تھانے میں اس کے کمرے میں کولر لگا دیا گیا ہے۔ اسے ہتھکڑی نہیں لگائی گئی۔
میں نے ایسا مغرور آدمی نہیں دیکھا۔ ایک غریب آدمی کو سڑک پر موت کے گھاٹ اتار کے وہ اس طرح چل رہا تھا جیسے کوئی کارنامہ کر کے آ رہا ہو۔ اس نے صحافیوں سے بھی بدتمیزی کی جبکہ صحافی ایسے موقع پر اکٹھے ہوتے ہیں۔ انہیں مغرور اور ظالم اچکزئی نے کہا کہ بے شرم کہیں کے۔ ان میں کچھ شرم ہوتی تو وہ اسی وقت بائیکاٹ کر کے چلے جاتے۔ ایم پی اے مجید اچکزئی نے بے شرم وہاں پر موجود صحافیوں کو کہا مگر شرم مجھے آئی۔ یہ شرمندگی میرا فخر ہے۔ اسے بلوچستان کے بزدل صحافیوں کی طرف نہیں جانے دوں گا۔ جنہوں نے اس بے عزتی پر احتجاج بھی نہ کیا۔
مجید اچکزئی کیسا ایم پی اے ہے۔ ایسے مغرور اور متکبر آدمی کو کون ووٹ دیتا ہے۔ اس طرح پاکستان میں ووٹ کی حیثیت کا اندازہ بھی ہوتا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کچھ احساس کریں۔ وہ اچھے آدمی لگتے ہیں۔ ان سے انصاف کی توقع ہے۔ وہ ٹریفک حادثے میں ایک پولیس اہلکار کو مارنے اور متکبرانہ رویے کی وجہ سے قرارواقعی سزا کا بندوبست کریں۔ وہ خود بھی ایم پی اے ہیں ۔ مجرم اور مغرور مجید اچکزئی وزیراعلیٰ کا عزیز ہے تو کیا ہوا۔ یہی تو امتحان حکمرانوں کا ہوتا ہے۔ رسول کریم حضرت محمدﷺ نے فرمایا تھا کہ میری بیٹی فاطمہؓ بھی چوری کرے گی تو اس کا بھی ہاتھ کاٹ دیا جائے گا۔
کس نے مجید اچکزئی کو گرفتار کروایا۔ لیکن یہ کارروائی بھی مصنوعی اور کھوکھلی لگتی ہے۔ اسے ہتھکڑی نہیں لگائی گئی۔ پولیس والے اس کے پیچھے ملازموں کی طرح چلتے نظر آئے۔ پولیس والے مجھے اکثر اچھے نہیں لگتے۔ کبھی کبھی اچھے لگتے ہیں۔ پولیس والوں کو احساس نہیں ہوا کہ ان کے اپنے ہی ساتھی کو مجید اچکزئی نے سب کے سامنے قتل کر دیا ہے۔ تھانے میں ایف آئی آر نامعلوم آدمیوں کے خلاف کاٹی گئی ہے۔ میں کیا کہوں کہ پولیس والوں نے اپنے ہی ساتھی کا ساتھ نہیں دیا۔ ایک مغرور اور طاقتور آدمی کا ساتھ دیا ہے جو پولیس والوں کے پروفیشن اور ڈیوٹی کے مطابق نہیں ہے۔ ہماری پولیس ظالموں کی ساتھی ہے اور مظلوموں کے خلاف ہے۔ وہ کبھی اثرورسوخ والے یا پیسے والے کے خلاف نہیں ہوتے۔ وہ ہمیشہ کمزوروں اور غریبوں پر ظلم کرتے ہیں۔ کبھی کبھی پولیس والے اپنی وردی کا خیال نہیں کرتے جبکہ میں سمجھتا ہوں کہ وردی والوں کو زیادہ ٹرسٹ وردی ہونا چاہیے۔ پولیس والے قربانیاں بھی دیتے ہیں۔ وہ ہر معاملے میں اور ہر ایک کے ساتھ انصاف کریں تو بات بنے۔ ان کا انصاف ہمیشہ بے انصافیوں کی مدد کرتا ہے۔
مجید اچکزئی جیسے لوگ ہمارے معاشرے میں کیوں پیدا ہوتے ہیں۔ غربت اور غرور ایک ساتھ پرورش پا رہا ہے مگر لوگوں سے یہ تو پوچھا جائے کہ تم ایسے ظالموں اور امیروں کو ووٹ دے کر اسمبلیوں میں کیوں بھیجتے ہو۔ وہ اسمبلی میں کچھ نہیں کرتے۔ مگر باہر سے اپنی طاقت بنا کر غریبوں کے ساتھ ظلم کرتے ہیں۔ لوگ ہمیشہ ظالموں خود غرض دولت مندوں کو ووٹ دیتے ہیں۔ غریب اور اہل آدمی الیکشن ہی نہیں لڑ سکتے۔ مجید اچکزئی جو قاتل ہے اور مغرور ہے۔ اس کے مقابلے میں مقتول کا گھر دیکھیں۔ کچا گھر ہے۔ وہاں غریبی اور بدنصیبی کا سماں چھایا رہتا ہے۔ وہ مظلوم ہیں اور مجبور ہیں۔
میں چاہتا ہوں کہ غریبی بدنصیبی نہ بنے اور امیری بے ضمیری کی حد تک نہ چلی جائے۔ ورنہ امیر غریب تو ازل سے ہیں اور ابد تک رہیں گے۔ پہلے غریبی غریبی نہ تھی اور امیری امیری نہ تھی۔ غریبی کو بدنصیبی کس نے بنایا۔ ہم بھی غریب تھے مگر کوئی ہمیں غریب نہ کہتا تھا۔ آج کے زمانے میں امارت کو منفی طاقت کے طور پر استعمال کرنا شروع کر دیا گیا ہے۔ غربت میں غیرت بھی ضروری ہے۔ غریبی اور غرور کی معرکہ آرائی میں جیت غریبی کی ہوتی ہے۔
سابق وزیراعلیٰ پنجاب اور نائب وزیراعظم پاکستان چودھری پرویز الٰہی نے کہا کہ شہباز شریف میو ہسپتال میں میرے نام کی تختی اتار دیں مگر مریضوں کے لیے اچھا ماحول قائم رہنے دیں۔
دانشور اور ممتاز شاعرہ فاخرہ انجم نے مجھے بہت زبردست شاعر مبشر سعید کا خوبصورت شعری مجموعہ ’’خواب گاہ میں ریت‘‘ دیا۔ میں مبشر کی تخلیقی اور عمدہ شاعری پڑھ سرشار ہو گیا۔ محمد علوی، عباس تابش اور حسن نواز شاہ نے فلیپ لکھے ہیں۔ عباس تابش نے لکھا ہے ’’مبشر سعید نئی نسل کا وہ خوش بیان شاعر ہے جس کی شاعری میرے دل کے بہت قریب ہے۔ وہ محبت کے رسمی مضامین سے گریزاں نئے افق کی جستجو میں سرگرداں دکھائی دیتا ہے۔‘‘ ڈاکٹر معین نظامی نے پیش لفظ میں لکھا ہے جس کا عنوان بہت خوبصورت ہے۔ ’’بشارت اور سعادت والی غزلیں‘‘ ۔ بہت اہل دل اور تخلیقی شخصیت اور ممتاز اور انوکھے شاعر خورشید رضوی نے بہت عمدہ تاثر مبشر سعید کے لیے پیش کیا ہے۔
’’فن‘‘ مبشر سعید کے نزدیک فنکار کے عالم وجد سے اظہار میں آنے کا نام ہے۔ اس کا ثبوت اس نے اپنی غزل میں دیا ہے جو اس کی قلبی کیفیات کا آئینہ ہے۔‘‘
حلقہ شعر سے گزروں گا محبت میں سعید
اپنے جذبات کو الفاظ میں لاتا ہوا میں
اس غزل کے چند اور اشعار
عالم وجد سے اظہار میں آتا ہوا میں
یعنی خود خواب ہوا خواب سناتا ہوا میں
زندگی ہجر ہے اور ہجر بھی ایسا کہ نہ پوچھ
سانس تک ہار چکا وصل کماتا ہوا میں
چاندنی رات میں دریا سی رواں یاد کے ساتھ
اپنی مرضی سے چلا جھومتا گاتا ہوا میں
غرور اور غریبی کا معرکہ اور شعری معرکہ آرائی
Jun 29, 2017