واشنگٹن(این این آئی+اے پی پی) امر یکہ کی سپریم کورٹ نے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چھ مسلم ممالک کے شہریوں کے امر یکہ میں داخلے پر پابندی کے حکم نامے کے خلاف مقامی عدالت کے فیصلے کو کالعدم قرار دیتے ہوئے پابندی کا فیصلہ جزوی طور پر بحال کردیا۔امریکی میڈیا کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے یہ متنازع ایگزیکٹو حکم نامہ رواں سال جنوری میں جاری کیا تھا جس کے ذریعے سات مسلم اکثریتی ممالک کے تارکین وطن اور ویزا ہولڈرز پر امر یکہ میں داخلے کی 90 روز کی پابندی لگائی گئی تھی بعدازاں حکم نامے میں نظرثانی کرتے ہوئے اس میں سے عراق کے نام کو خارج کردیا گیا تھا جبکہ ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان، شام اور یمن کے شہریوں کے لیے اس پابندی کو برقرار رکھا گیا تھا۔سپریم کورٹ نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ پابندی کی زد میں آنے والے ممالک کا کوئی شخص اگر امر یکہ کے کسی شخص یا ادارے سے باہمی تعلقات کا پختہ دعویٰ کرتا ہے تو اسے اس پابندی سے چھوٹ ہونی چاہیے۔امر یکہ کی اعلیٰ عدالت کے ججز اب اس کیس کے حوالے سے اکتوبر میں دلائل سنیں گے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ عدالتوں سے کلیئر ہونے کے بعد یہ پابندی 72 گھنٹے کے اندر نافذ ہوجائے گی۔ ٹرمپ انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اس پابندی کی ضرورت اس لیے ہے تاکہ ان ممالک کے ویزوں کے درخواست دہندگان کے سکریننگ کے طریقہ کار کا اندرونی طور پر جائزہ لیا جا سکے۔ دوسری طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کو اپنی کامیابی قرار دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اپنے حکم نامے میں مزید کہا کہ رواں سال اکتوبر میں اس بات کا دوبارہ جائزہ لیں گے کہ آیا صدر ٹرمپ کی اس پالیسی کو جاری رہنا چاہئے یا نہیں اور ضرورت پڑنے پر عدالت اپنا فیصلہ لے سکتی ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ مسلمان ممالک پر سفری پابندیوں سے امریکہ زیادہ محفوظ نہیں ہوگا۔مسلمان ممالک پر سفری پابندیوں سے متعلق امریکی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کا ردعمل دیتے ہوئے کہنا تھا کہ مسلمانوں پر پابندی امریکہ کو محفوظ نہیں کرے گی۔ان کا کہنا تھا انتہاپسندی کو فروغ دینے والی پالیسیوں کے بجائے امریکہ انتہا پسندی کے خلاف حقیقی جنگ میں شامل ہوجائے۔