دوحہ+ واشنگٹن (بی بی سی+ آئی این پی+ این این آئی) قطر سے سفارتی و تجارتی تعلقات منطقع کرنے والے عرب و خلیجی ممالک اس پر مزید پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ یہ بات روس کے لیے متحدہ عرب امارات کے سفیر عمر غباش نے برطانوی اخبار گارڈین کو ایک انٹرویو میں کہی۔ اماراتی سفیر نے بتایا کہ نئی پابندیوں میں اس بات کا امکان بھی ہے کہ قطر مخالف عرب ممالک اپنے تجارتی ساتھیوں سے یہ کہیں کہ وہ قطر یا ان میں سے ایک کا انتخاب کریں۔ سعودی عرب، بحرین، متحدہ عرب امارات اور مصر نے رواں ماہ قطر پر دہشت گرد گروپوں کی مدد کرنے اور خطے کو غیر مستحکم کرنے کے الزامات لگاتے ہوئے اس سے سفارتی، سفری و تجارتی تعلقات منقطع کر لیے تھے جبکہ قطر ان الزامات سے انکار کرتا ہے۔ ان ممالک کی جانب سے قطر کے سامنے 13 مطالبات کی فہرست بھی رکھی گئی ہے جن پر عملدرآمد کے لیے اسے دس دن کی مہلت دی گئی ہے۔ تاہم قطر کا کہنا ہے کہ وہ اس وقت تک عرب ممالک سے بات چیت نہیں کرے گا جب تک کہ اس پر عائد معاشی اور سفری پابندیاں نہیں ہٹائی جاتیں۔ قطر کو ان سفارتی اور معاشی پابندیوں کی وجہ سے مشکلات کا سامنا رہا ہے اور ایسی صورتحال میں ترکی اور ایران وہ دو ممالک ہیں جو اسے خوراک اور دیگر اشیا بھجوا رہے ہیں۔ عمر غباش کا کہنا تھا کہ قطر کا خلیج تعاون تنظیم سے اخراج واحد ایسی پابندی نہیں جو لگائی جا سکتی ہے۔ 'کچھ ایسی اقتصادی پابندیاں ہیں جو ہم لگا سکتے ہیں اور ان پر فی الوقت غور کیا جا رہا ہے۔' انھوں نے کہا کہ 'ان میں سے ایک چیز ممکنہ طور پر یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ہم اپنے تجارتی شراکت داروں پر ہی پابندی عائد کر دیں اور ان سے کہیں کہ وہ فیصلہ کر لیں کہ انھیں قطر کے ساتھ کام کرنا ہے یا ہمارے ساتھ۔' اس تنازع میں قطر کے خلاف کارروائی کرنے والے تمام عرب ممالک امریکہ کے انتہائی قریب ہیں تاہم امریکی وزیرِ خارجہ ریکس ٹلرسن کا بھی یہی کہنا ہے کہ قطر سے پابندیاں ہٹانے کے لیے چار عرب ممالک کی جانب سے پیش کردہ مطالبات میں سے کچھ ایسے ہیں جنھیں پورا کرنا مشکل ہوگا۔ تاہم انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ تجاویز اس مسئلے کے حل کے لیے بنیاد بھی فراہم کرتی ہیں۔ عرب ممالک کی جانب سے قطر سے کیے گئے 13 مطالبات کے بعد خلیجی ممالک کے سفارت کاروں نے واشنگٹن میں امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن سے ملاقاتیں کی۔قطر کو ان مطالبات کو پورا کرنے کیلئے سعودی عرب کی جانب سے فراہم کی گئے ایک ہفتے کی مہلت کے دوران قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمٰن الثانی نے امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ سے ملاقات کی۔دوسری جانب ریکس ٹیلرسن نے خلیج تنازع میں باقاعدہ ثالثی کا کردار ادا کرنے والے ملک کویت کے وزیر برائے کابینہ امور شیخ محمد عبداللہ الصباح سے بھی ملاقات کی جبکہ تنازع کے حل میں پیشرفت کے لیے ان کی اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اینٹونیو گوٹیریس سے بھی ملاقات متوقع ہے ٗدوسری جانب واشنگٹن میں موجود سعودی وزیر خارجہ عادل الجبیر اب بھی اپنے مطالبات سے پیچھے ہٹنے کو تیار دکھائی نہیں دیتے۔ اپنے ٹوئٹر پیغام میں سعودی وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ قطر سے ہمارے مطالبات پر بحث ممکن نہیں ٗ اب یہ قطر پر ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کی حمایت بند کرے۔ قطر نے کہاہے کہ سعودی عرب کا مطالبات پر بات چیت سے انکار عالمی تعلقات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ میڈیا رپورٹ کے مطابق قطری وزیر خارجہ شیخ محمد بن عبدالرحمان نے کہا کہ عرب قطر تنازع پر سعودی عرب کا موقف ناقابل قبول ہے ٗ سعودی عرب کا بات چیت سے انکار عالمی تعلقات کے اصولوں کی خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے کہاکہ سعودی عرب مطالبات کی لسٹ پیش کر کے مذاکرات سے انکار نہیں کر سکتا۔
مطالبات سے پیچھے نہیں ہٹیں گے دوحہ پر مزید پابندیاں لگا سکتے ہیں :سعودی عررب اما
Jun 29, 2017