کیا ناممکن کو ممکن بنانا بھی ”انقلاب“ہے؟

امام غزالی لکھتے ہیں اگر خدا سارا قرآن واپس لے لیتا اور صرف ایک لفظ ”عدل“ باقی رہ جاتا تو اس سے بھی کائنات کا سارا نظام چل سکتا تھا۔ اب جبکہ عدلیہ سرگرم عمل ہے تو ہمیں حیرت کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ ہم احتساب اور پھر عدل کے عادی نہیں ہیں اور ماضی میں بدنام زمانہ، بدعنوان سیاست دانوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بارے میں کبھی جرا¿ت نہیں کی گئی تھی....اور اس وجہ سے ہی سارا نقصان وطن عزیز کو ہی اٹھانا پڑا۔ ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ ”اقتدار کی عظمت کے ساتھ احتساب کی ہیبت جڑی ہوئی ہے۔، یہاں ونسٹن چرچل کی ہی ایک اور بات بڑی اہمیت کی حامل ہے کہ ”اگر کوئی شخص اپنے اقتدار کو اپنی جیسی مخلوق پر حکم چلانے کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ فعل قبیح ہے لیکن اگر کوئی صاحبِ اقتدار اپنے اختیارات قومی بحران میں صائب فیصلے صادر کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے تو وہ نیک کام سرانجام دیتا ہے۔“ ایک مرتبہ واشنگٹن میں کچھ سیاسی دانشوروں کا ایک اجلاس ہو رہا تھا جس میں پاکستان کا مستقبل زیر بحث تھا۔ اس اجلاس کے بارے میں روئیداد خان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس اجلاس میں معاون وزیر خارجہ روبن رافیل نے موضوع زبربحث پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا تھا”پاکستان میں مقننہ صحیح طور پر اپنے فرائض سرانجام نہیں دے پا رہی ہے۔ وجہ یہ ہے کہ وہ حکومت کو ہٹانے کی سکت نہیں رکھتی....“آج مقننہ میں وہ سکت ہے تو ہم دانتوں میں انگلی دبائے بیٹھے ہیں کہ کیسا انقلاب ہے جس کو ہم نے کبھی دیکھا اور جس کے بارے میں اپنے ملک میں ہم نے سُنا بھی کبھی نہ تھا....نواز شریف اور ان کے رفقاء نے اگر ”ایشیائی ٹائیگروں “ کو مدنظر رکھا ہوتا جن میں چین، جنوبی کوریا اور تائیوان شامل ہیں تو انہیں معلوم ہوتاکہ مفلس ملک کی مفلسی سے نجات ایک بابصیرت حکمران کے ہاتھوں سے کیسے ممکن ہوا کرتی ہے اور ایسا ہی کوئی حکمران ملک کی معاشی صورتحال بہتر کر کے ایک ”عام“ آدمی کی زندگی کو بہتر بنانے میں کردار ادا کر سکتا ہے۔ یہاں عام آدمی مسائل کی چکّی میں پس رہا ہے اور ”خواص“ نے اپنی نسلوں تک کے مستقبل سنوارنے کے انتظامات کر لئے۔ اور جب حکمران اس طرح کا کردار اداکریں گے تو نتیجہ یہی نکلے گا جو ہم دیکھ رہے ہیں اور جس کے نتیجے میں ”احتساب“ کا سامنا ہے۔ عموماً یہ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا ہر بڑا انقلاب خون بہائے بغیر ممکن نہیں ہو سکا تھا مگر یہ سچی بات ہے۔ ناممکن کو ممکن بنا دینا ہی انقلاب کی ایک شکل ہے۔
پاکستان میں کرپشن اور اقرباءپروری کے خلاف جو ہوا چل پڑی ہے اور جس میں بڑے بڑے ناموں والے لوگ بے نقاب ہو رہے ہیں دراصل یہ ایک ایسی تبدیلی سامنے آ رہی ہے جسے ”انقلاب“ کا نام دیا جا سکتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ہمارے کلچر کو اس طرح ترتیب دے دیا گیا ہے اور عوام اس کی اتنی عادی ہو چکی ہے کہ کسی نشے کی طرح اس کلچر کے بُرے اثرات اور تباہ کن نتائج سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی اسی ماحول میں رہنے کی عادت اختیار کر چکی ہے۔
کرپشن کے خلاف احتساب کا جو سلسلہ اور عدلیہ کا کردار سامنے آیا ہے اس میں واپسی کی گنجائش نہیں ہے لیکن عوام اس بحران سے نکلنے کے لئے نجات دہندہ کے انتخاب میں ”کنفیوز“ بھی ہیں کوئی نجات دہندہ پیدا نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی دریافت کیا جا سکتا ہے بلکہ ایک مفکر کے بقول”آپ صرف نجات دہندہ کو پہچان سکتے ہیں۔ اور یہ بھی سچ ہے کہ ہر دور ہر زمانہ ایک وقت میں آ کراپنے نجات دہندہ کو آواز دیتا ہے۔ اس وقت یہ آواز اگر عمران خان کے لئے ہے تو یہ امتحان بڑا کڑا امتحان ہو گا اور یہ امتحان گلے میں پھولوں کے ہار ڈال کر مہکتے ہوئے ماحول میں رہنے کا نہیں ہو گا۔
اقتدار کی عظمت کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہیبت جڑی رہے گی اور غلطی کی گنجائش عمران خان کیلئے ختم ہوچکی ہے اور اب آگے بڑھتے ہوئے معاملات کو ”میچور“ کرتے ہوئے آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں جمہوریت کی اگر بات کریں تو ہر سیاستدان ابراہم لنکن کا یہ قول دہراتا ہے کہ عوام کی حکومت عوام کیلئے حکومت اور عوام کے ذریعے حکومت مگر دراصل ایسا ہوتا نہیں ہے اور ہر جماعت اپنے منشور کے مطابق عملدرآمد کرتی ہے اور یہ منشور اس کے سیاسی نظریات کے عین مطابق ہوتا ہے۔ دراصل جس سیاسی نظام کے تحت جمہوریت اور حکومت کا وجود قائم کرنا ہوتا ہے اگر اس کی بنیاد مضبوط نہ ہو تو جمہوریت ‘ آمریت اور بادشاہت میں تبدیل ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ نوازشریف کے جمہوری دور کی مثال دی جاچکی ہے اور یہاں سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں کو لفظ ”سیاست“ کے حقیقی معنوں کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ سیاست کا پہلا اصول اخلاق ‘ دوسرا امداد‘ تیسرا باہمی اتحاد‘ چوتھا تنظیم‘ پانچواں منشور اور چھٹا تعمیر ہے۔ امام غزالی نے سیاست کے جو چار درجات بیان کئے ہیں ان میں ہی فلاح کا عنصر لازمی ہے۔ الیکشن کے نتائج میں جو پارٹی حکومت بناتی ہے اس کی بنیاد میں سیاسی نظریات کے ساتھ ایسا لائحہ عمل بھی پارٹی کے منشور کا حصہ ہونا چاہئے جس میں ”سیاست“ کے صحیح مفہوم کے مطابق عوام کی فلاح و بہبود کا راستہ نکل سکے ورنہ یوں ہوگا کہ یہ سارا ”انقلاب“ ضائع ہوجائے گا کیونکہ ماضی میں ہم نے ”قانون کی بالادستی“ کا لفظ قائداعظم کی وفات کے ساتھ ہی دفن کردیا تھا کیونکہ بعد میں آنے والے حکمران اور موجودہ حکمران قانون کی بالادستی پر یقین نہیں رکھتے تھے اور قانون کا سارا نفاذ غریبوں تک محدود تھا۔ لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس عبدالحمید ٹوانہ نے ایک مرتبہ کہا تھا کہ بدقسمتی سے ہمارے عدالتی نظام کی یہ حالت ہوگئی ہے کہ مراعات یافتہ طبقے کے کسی فرد کے کسی عمل کا احتساب ملک میں کوئی بھی نہیں کرسکتا چاہے وہ عمل کتنا ہی خلاف قانون اور غیر ذمہ دارانہ کیوں نہ ہو وجہ اس کی یہ ہے کہ ہمارا نظام عدل کم نصیب‘ کم زور اور بے سہارا لوگوں کو تو سزا دے سکتا ہے لیکن دولت مند‘ طاقتور اور با اثر لوگوں کو سزا دینا تو کجا ان سے پوچھ بھی نہیں سکتا........ پاکستان کے اندر کرپشن کیخلاف آنے والے انقلاب میں دولت مندوں‘ طاقتوروں اور بااثر لوگوں سے پوچھا جارہا ہے مگر ابھی سزائیں دینا باقی ہے۔ یہ سچ ہے کہ عوام کرپشن کے جال میں پھنسے تھے مگر اس کلچر کے عادی بھی ہوچکے تھے۔ ابھی ہمارے ملک میں یہ احتساب ایسا ہے کہ لوگ حیران پریشان ہیں مگر یہ بھی سچ ہے کہ ملک کے اندر یہ ایسا انقلاب ہے جس کو اب واپس لوٹانا مشکل ہے۔ امام غزالی کے مطابق اگر خداتعالیٰ قرآن واپس لے لیتا اور لفظ ”عدل“ رہ جاتا تو بھی کائنات کا نظام چل سکتا تھا۔ پاکستان کے اندر جمہوری نظام آنے والے نوں میں زیادہ بہتر چل سکتا ہے مگر عدلیہ کا کام آسان بھی نہیں ہے اور نہ ہی آنے والے دنوں میں کامیاب ہونے والی اور اقتدار میں آنے والی جماعت کیلئے یہ سارا کچھ آسان ہے۔ ڈبلیو پی یے ٹس نے کہا تھا .... ”بہترین لوگوں میں یقین کلی کا فقدان ہوتا ہے اور بدترین لوگوں میں شدید جذبات کی انتہا ہوتی ہے۔“ ہمارے ملک میں بہترین لوگوں کو اپنے یقین پر اعتماد رکھنا ہوگا اور بدترین لوگوں کو شدید جذبات کی انتہا کو کنٹرول میں رکھنا ہوگا تبھی کوئی قوم کسی انقلاب یا تبدیلی سے فائدہ مند ہوسکتی ہے۔ اپنا خیال رکھیئے گا !

ای پیپر دی نیشن