لندن(این این آئی)انسان نہ جانے کب سے اپنے جیسی کسی دوسری دنیا کی مخلوق کی تلاش کر رہا ہے۔ سائنسدان زمین سے ریڈیائی لہریں بھیج کر دوسری دنیا کی مخلوق سے رابطے کی کوشش کر رہے ہیں۔لیکن اب تک دوسری دنیا کی کسی مخلوق نے کسی بھی انسانی پیغام کا جواب نہیں دیا ہے۔برطانوی ٹی وی کے مطابق دوسری دنیا کی مخلوق انسانی پیغامات کا جواب کیوں نہیں دیتیں؟ وہ کہاں ہیں؟ ہیں بھی یا نہیں؟یہ سوال معروف ماہر طبیعات اینرکو فرمی نے 1950 میں اپنے ایک ساتھی سے پوچھا تھا۔فرمی کا خیال تھا کہ انسانوں جیسی بہت سی ذہین تہذیبیں اس کائنات میں مختلف سیاروں پر موجود ہیں۔لیکن پھر یہ سوال پیدا ہوا کہ اگر وہ ہیں تو ان سے ہمارا رابطہ کیوں نہیں؟ آخر وہ کہاں ہیں؟سوال بہت مشہور ہوا اور اس پیدا ہونے والے اختلافات کو فرمی پیراڈاکس کے طور پر جانا جاتا ہے۔ ایس ای ٹی آئی (سیٹی) سرچ فار اکسٹرا ٹریسٹریئل انٹیلیجنس نامی ادارہ کئی سالوں سے اس کا جواب تلاش کرنے میں مصروف ہے۔آکسفورڈ یونیورسٹی کے تین ماہرین نے حال ہی میں از سر نو متضاد فرمی پیراڈاکس جائزہ لیا ہے۔انھوں نے اس مطالعے کا نام ڈزالونگ دی فرمی پیراڈاکس یعنی فرمی تضاد کا حل رکھا ہے۔مطالعہ میں کہا گیا ہے کہ یہ عین ممکن ہے کہ انسان اس کائنات میں واحد ذہین مخلوق ہے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی ایلیئن کی موجودگی محض خیال خام ہے۔اس مطالعے کے تین ماہرین میں سے ایک اینڈرس سینڈبرگ ہیں جو آکسفورڈ یونیورسٹی میں فیوچر آف ہیومنیٹی انسٹیٹیوٹ کے ریسرچر ہیں۔دوسرے سائنسدان ایرک ڈیکسلر ہیں جنھیں ان کی نینو ٹکنالوجی تصور کے لیے جانا جاتا ہے۔اس کے علاوہ اسی شعبے میں فلسفے کے پروفیسر ٹاڈ اورڈ ہیں۔اس نئے مطالعہ میں فرمی پیراڈاکس کا ریاضی اصولوں کی بنیاد پر تجزیہ کیا گیا ہے جسے ڈریک ایکوئیشن کہا جاتا ہے۔ڈریک اصول کا پہلے استعمال کیا جاتا تھا۔ اس میں ان ممکنہ مقامات کی فہرست تیار کی جاتی تھی جہاں زندگی ہوسکتی ہے۔مطالعہ میں زندگی سے منسلک بہت سے پہلوؤں کی جانچ پڑتال کے بعد یہ پایا گیا کہ 39 فیصد سے 85 فیصد امکانات ہیں کہ انسان کائنات میں واحد ذہین مخلوق ہے۔