پاک چین اقتصادی راہداری پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے ایک بہت بڑا اور اہم موقع ہے لیکن اس سے مطلوبہ مقاصد اور فوائد حاصل کرنے کے لیے جہاں معیشت کے دیگر شعبوں میں منصوبہ بندی اور انفراسٹرکچر کی ضرورت ہے وہاں غیر تعلیم یافتہ ہنر مند افراد کی غیر رسمی تعلیم کے لیے اصلاحات بھی اشد ضروری ہیں۔ یہ بھی یاد رکھنا ضروری ہے کہ محض غیر رسمی تعلیمی اصلاحات کی منصوبہ بندی ہی کافی نہیں ہے بلکہ جامع حکمت عملی کے لیے مستند اعدادوشمار، پالیسی سازی اور اس کا تسلسل بھی نہایت اہم ہے۔ ماضی میں اہداف کے حصول کے معاملے میں ہمارا ریکارڈ قابلِ رشک نہیں رہا۔ پاکستان نے 2000-15 ملینم ڈویلپمنٹ اہداف کے مطابق شرح خواندگی کے جو اہداف حاصل کرنے تھے بدقسمتی سے وہ تشنہ رہ گئے ہیں۔ ان اہداف کے مطابق پرائمری سکول میں انرولمنٹ کاہدف 100 فی صد، پرائمری سکول سرٹیفکٹ کا ہدف 100 فی صد جبکہ شرح خواندگی کا ہدف 88 فی صد مقرر کیا گیا تھا جن میں سے ایک بھی ہدف پورا نہیں ہوسکا ۔دنیا کے دوسرے ممالک پائیدار ترقی کے اہداف(Sustainable Development Goals) کے ایجنڈے کی طرف گامزن ہوئے تو پاکستان نے بھی 2015 میں اس معاہدے پر دستخط کیے۔ملینیم ڈویلپمنٹ گولز کے حصول میں ناکامی کو سامنے رکھتے ہوئے ، پائیدار ترقی کے اہداف کے حصول کے لیے ہمیں دوسرے ممالک سے زیادہ پرعزم ہونا پڑے گا ۔اس ایجنڈے میں پائیدار ترقی کے لیے کل 17اہداف مقرر کئے گئے جنہیں 2030 تک پورا کرنا ہے اس ایجنڈے کو اختیار کئے ہوئے بھی چار سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کی طرف ابھی تک میٹنگزکے علاوہ کوئی عملی قدم نظر نہیں آرہا ۔ آج کی صورت حال یہ ہے کہ ہمارے ملک میں تیرہ سے سولہ سال کے افراد کی تعداد ڈیڑھ کروڑ سے زیادہ ہے جن میں سے 68فیصد افراد تعلیمی اداروں میں رجسٹر نہیں ہیں ۔ یہ افراد اب کسی نہ کسی طریقے سے ملکی معیشت ،صنعت اور زراعت کا حصہ ہیں ، یا اس مقام پر ہیں کہ وہ آنے والے چند سالوں میں ان شعبوں میں کام کر رہے ہوں گے ۔یہ وہ لوگ ہیں جن تک غیر رسمی تعلیم کے دائرہ کار میں لایا جا سکتا ہے جو رسمی تعلیم جتنا ہی بڑا اور اہم سیکٹر ہے ۔ اٹھارویں ترمیم کے بعد تعلیم صوبائی معاملہ ہے ۔ صوبے جو تعلیم پر خرچ کر رہے ہیں وہ حصہ بہت ہی قلیل ہے ۔خاص طور پر جو فنڈز غیررسمی تعلیم پر خرچ ہو رہے ہیں ان کی تفصیل دوہزار سولہ سترہ کے بجٹ کی مطابق کچھ یوں ہے ۔پنجاب (0.342%) سندھ(0.0173%) خیبر پختونخواہ (0.0368%) اور بلوچستان (0.0421%) بجٹ مختص کیا گیا جو کہ بہت ہی قلیل حصہ بنتا ہے یہ فنڈز بھی وہ ہیں جو حکومت پراجیٹکس کی بنیاد پر دیتی ہے اور ڈونرز سے حاصل کئے جاتے ہیں ۔ جس سے اس سیکٹر میں حکومت کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ غیررسمی تعلیمی سیکٹر کے ثمرات اُس وقت تک سامنے نہیں آئیں گے جب تک حکومت اس شعبے کی ذمہ داری نہیں لیتی اور انڈونیشیا کی طرز پر غیر رسمی تعلیم کا ایک مستقل محکمہ تشکیل نہیں دیا جاتا ۔ اس شعبے کے لیے اتنے ہی بڑے سیٹ اپ کی ضرورت ہے جتنا بڑا رسمی تعلیم کے لیے موجود ہے ۔ایسے حالات میں پاک چین اقتصادی راہداری کے ساتھ ساتھ 9 اکنامک اور انڈسٹریل زونز بنیں گے اور روز گار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے۔ ابھی بھی وقت ہے کہ ان افراد کی عمومی لٹریسی کے بجائے فنکشنل لٹریسی کا اہتمام کیا جائے ۔خواہ وہ ان کے کام کی جگہوں پر ہی کیوں نا ہو ۔ اس سلسلے میں سب سے پہلے پالیسی سازی کے پہلے مرحلے میں ضروری ہے کہ درست اور قابل بھروسہ اعدادوشمار حاصل کیا جائے ۔تحصیل کی سطح پر عمر ،پیشے اور ہنر مندی کے حساب کے ناخواندہ افرادکے اعداوشمار اکٹھے کیے جائیں ۔ پھر اندازہ لگایا جائے کہ عمر ،پیشے اور ہنر مندی کے حوالے سے ان لوگوں کو کس نوعیت کی تعلیم کی ضرورت ہے ۔غیر رسمی تعلیمی کے شعبے کی مدد سے ان افراد کو انہیں شعبوں میں ٹیکنکل تعلیم سے آراستہ کیا جائے ۔ زراعت ،صنعت اور تجارت سے وابستہ ناخواندہ لیبر کو ان کے متعلقہ شعبوں میں ٹیکنکل تعلیم دی جائے اور اس سلسلے میں چند ایک اہم اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں ۔جیسے کہ متعلقہ علاقہ میں موجود صنعت کے مالکان کو اس بات پر راضی کیا جائے کہ وہ اس طرح کی تعلیم کابنیادی انفراسٹرکچرجیسے کلاس روم وغیرہ مہیا کریں گے اور حکومتی ادارے ان کی ناخواندہ لیبر کو مطلوبہ ٹیکنکل تعلیم سے آراستہ کرے گی ۔ یہ بھی یقینی بنایا جائے کہ ان کورسز کی تکمیل پر ملنے والا سرٹیفکٹ ان افرادپر رسمی تعلیم کے ٹیکنکل اور نان ٹیکنکل اداروںکے دروازے کھول دے گاتاکہ انہیں مستقبل کے حوالے سے کوئی اور منصوبہ بندی کرنے میں آسانی رہے ۔اس مقصد کے لیے حکومت کو کوئی نیا شعبہ بنانے کی ضرورت نہیں ۔ تحصیل، اور یونین کونسل کی سطح پریہ کام ا علی تعلیم یافتہ مگر بیروزگار افراد کی جز وقتی ہائرنگ سے لیا جائے ۔جو اپنے علاقائی بلاک میں موجود ناخواندہ افراد کی تعلیم کا ذمہ اٹھا سکیں۔ان افراد کا امتحان موجودہ نظام کے تحت بھی لیا جاسکتا ہے یا پھراسی نظام کے تحت تحصیل کی سطح پر الگ امتحان کا بھی انعقاد کیا جا سکتا اور جزو وقتی اساتذہ کو کامیاب ہونے والے افراد کی شرح سے معاوضہ ادا کیا جائے ساتھ ہی کامیاب افراد کو ناخواندہ کی فہرست سے خارج کیا جائے تاکہ اعدادو شمار درست رہیں۔اس کام کو ہفتے میں دودن کلاسز کی بنیاد شروع کیا جا سکتا ہے جس سے حکومت پر اضافی بوجھ نہیں پڑے گا بلکہ کم سے کم وسائل خرچ کر کے جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ لیبر فورس تیار ہو جائے گی جس سے سی پیک کے ثمرات زیادہ سے زیادہ حاصل کیے جا سکتے ہیں ۔