اسلام آباد (وقائع نگارخصوصی /وقائع نگار)قومی اسمبلی نے آئندہ مالی سال 2019-20کے بجٹ کی کثرت رائے سے منظوری دے دی ہے اپوزیشن کی تمام ترامیم مستردکردی گئیں اپوزیشن ارکان نے وفاقی بجٹ کی منظوری کے وقت ’’نو نو‘‘کے نعرے لگائے اور اپنی نشتوں پر کھڑے ہوکر احتجاج کرتے رہے اس موقع پر حکومتی ارکان نے وکٹری کا نشان بھی بنایا قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ کے حق میں 178ارکان نے ووٹ دئیے جبکہ 146ارکان نے بجٹ کی مخالفت میں ووٹ ڈالے ۔جمعہ کو قو می اسمبلی کا اجلاس سپیکر اسد قیصرکی صدارت میں ہوا وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے بجٹ کی منظوری کے آخری مرحلے پر بجٹ تجاویز پر معمولی ردوبدل پرمبنی ترامیم پیش کیں جو منظور کرلی گئیں 1837ارب روپے حجم کے سالانہ ترقیاتی منصوبے کو منظور کر لیا گیا ، سالانہ ترقیاتی منصوبے میں پی ایس ڈی پی کے لئے 925 ارب روپے رکھے گئے پیں ،اس رقم میں سے 675ارب روپے وفاقی حکومت فراہم کرے گی جبکہ250ارب روپے پبلک پرائیویٹ بنیاد پر ترقیاتی مقاصد کے لئے رکھے گئے ، سات ہزار ارب سے ذائد کے وفاقی بجٹ میں3151ارب روپے کا مالی خسارہ ہو گا جو جی ڈی پی کے 7.2فی صد کے مساوی بنتا ہے ،ٹیکس ریونیو کا تخمینہ5822.2ارب روپے لگایا گیا جس میں 5550ارب روپے ایف بی آر کے ہدف کے طور پر حاصل کئے جائیں گے سودکی ادائیگی کے لیے 2891ارب روپے سے زیادہ رقم مختص کی گئی ہے جس میں سے اندرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 2531ارب اور بیرونی قرضوں کی ادائیگی کے لیے 35.1ارب روپے خرچ کیے جائیں گے فوج کو پنشن ادا کرنے کے لیے 327ارب روپے جبکہ سول پنشن کے لیے 93ارب روپے رکھے گئے ہیں،منظور کئے جانے والے فنانس بل کے تحت کمشنر انکم ٹیکس کو سونے ،فارن کرنسی کی برآمدگی کے لئے گھروں پر چھاپے مارنے کا اختیار ختم کر دیا گیا،ایک دوسری ترمیم کے تحت 50ہزار روپے تک کی خرید وفروخت پر شناختی کارڈ کی شرط ختم کر دی گئی ، ایف بی آر کی ملک کے18شہروں کے لئے فیئر پرائس میں 35فی صد تک اضافہ کر دیا گیا ، آن لائن خریداری پر 14فی صد جی ایس ٹی لاگو کر دیا گیا ،تمام قسم کی درآمدی گاڑیوں پر ایف ای ڈی نافذ کر دی گئی ،تمام برآمدی سیکٹر ز کی مقامی سپلائی پر جی ایس ٹی لاگو کر دیا گیا ،منظور شدہ فنانس بل اور بجٹ کی کاپی آئی ایم ایف کے حوالے کر دی گئی تاکہ پروگرام کی منظوری کے لئے مدد مل سکے ،رکشا پر ٹیکس ختم کر دیا گیا ، پراسیسڈ گوشت پر ٹیکس بھی واپس لے لیا گیا ۔ چینی پر جنرل سیلز ٹیکس کا ریٹ 8فیصد سے بڑھا کر 17فیصد کردیا گیا ہے سگریٹ کے حوالے سے ٹیکسوں میں جو ردوبدل کیا گیا ہے اس کے مطابق سیگر یٹ پر ٹیکس کی تیسری سطح کو ختم کردیاگیا ہے اب دو سطحوںپر ٹیکس عائد کردیا گیا ہے جس کی پہلی سطح میں اگر فی ہزار سگریٹ کی پرچون قیمت پانچ ہزار نو سو ساٹھ روپے سے زائد ہو تو اس پر پانچ ہزار دو سو فی ہزارسگریٹ ایکسائز ڈیوٹی لگی گی جبکہ دوسری سطح میں پانچ ہزار نو ساٹھ روپے فی ہزارسگریٹ کی خوردہ قیمت کے حامل سگریٹس پر ایک ہزار چھ سو پچاس فی ہزارسگریٹ ایکسائز ڈیوٹی عائد کردی گئی ہے حکومت نے جو انکم ٹیکس کی مد میں تنخواہ دار طبقے کے لیے شرحیں بڑٖھائیں رائٹنگ و پرنٹنگ پیپر، لکڑی کی درآمد ، ٹیکسٹائل سیکٹرز کی مشینری و پلانٹس کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی میںچھوٹ دے دی گئی ہے فاونڈیشن کلاتھ کی درآمد پر کسٹم ڈیوٹی کی چھوٹ دی گئی ہے ۔ بھٹے پر سترہ فیصد جی ایس ٹی کی بجائے کیٹیگری اے میں 12ہزار پانچ سو ماہانہ کیٹگیری بی پر دس ہزار روپے ماہانہ اور کٹیگری سی میں سات ہزار پانچ سو روپے ماہانہ سیلز ٹیکس عائد کردیا گیا ہے بیکریوں ، ریسٹورانٹس اور کیٹرز پر جی ایس ٹی کی شرح سترہ فیصد سے کم کرکہ 7.5فیصد کردی گئی ہے خشک دودھ کی تمام اقسام پر سیلز ٹیکس کی شرح 10فیصد کردی گئی ہے افغانستان کو پی وی سی اور پی ایم سی کی برآمد پر پابندی کو ختم کردیا گیا ہے، جائیداد کی خریداری پر نان فائلرز کی شرط ختم کردی گئی ہے تاہم ایسا فرد جو اس کی ادائیگی بینک کی بجائے کیش کے زریعے کرے گا اس پر پراپرٹی کی ویلیو کے پانچ فیصد کے مساوی پینلٹی بھی لگے گی ۔ قو می اسمبلی میں بجٹ کی منظور ی کے دوران شور شرابا ہوا، اپوزیشن نے سیاہ پیٹیاں باندھ کر بجٹ کی منظوری کے خلاف احتجاج کیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما سید نوید قمر نے مالی بل 2019پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ 2منتخب ایم این ایز علی وزیر اور محسن داوڑ کو فنانس بل کے ووٹنگ کے دوران شامل ہونا چاہیے تھا، ایوان نا مکمل ہے۔شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ آئی ایم ایف کے بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، عوام اسے مسترد کرتے ہیں، میں اس بجٹ کو سلیکٹڈ بجٹ ہی کہوں گا، لیکن پاکستان کے عوام کہتے ہیں میں کچھ نہیں کہہ سکتا،وزراء ایوان میں جھوٹ بولتے ہیں، آج کوئی شرم و حیاء نہیں ہے کہ جھوٹ کیوں بول رہے ہیں، پورے پاکستان میں تما شہ لگا ہے کہ پاکستان کے قرضے بڑھ گئے، پاکستان کی نالائقی قرضے نہیں ہے، نالائقی حکومت کی نااہلی ہے۔حماد اظہر کے والد ہمارے ساتھ رہے ہیں ان کی عزت کرتاہوں لیکن جھوٹ بولنے والے کی عزت نہیں کر سکتا۔جو ٹیکس نہیں دیتے لوگوں سے ٹیکس مانگ رہے ہیں، ایک وزیر نے گزشتہ روز کہا کہ 10ارب ڈالر گزشتہ حکومت گھر لے کر گئی،یہ بات ہے کرنے والی، آپ نے کارروائی کیوں نہیں کی۔یہ پہلا ملک ہے، سلیکٹڈ پر پابندی ہے، باہر بچہ بچہ کہہ رہا ہے کہ وزیراعظم سلیکٹڈ ہے،ہم پر پابندی ہے ہم نہیں کہہ سکتے۔ وزیر غصہ میں نہ ہوں، ملک کے معاملات جھوٹ سے حل نہیں ہوں گے، ہم بجٹ کو مسترد کرتے ہیں، یہ عوام دشمن بجٹ ہے۔ شاہدہ اختر علی نے کہا کہ یہ رولنگ دی گئی کہ سلیکٹڈ کا لفظ استعمال نہ کیا جائے یہ غیر قانونی ہے، اگر ہم سلیکٹڈ کا لفظ استعمال نہ کریں تو اس کی جگہ پھر کون سا لفظ سلیکٹ کریں۔ احسن اقبال نے کہا کہ یہ بجٹ پاکستان کی معیشت کیلئے زہر قاتل ہے۔ جس ملک کا وزیراعظم کہے کہ ہم دیوالیہ ہیں پھر اس ملک کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں ہے۔وزیراعظم ہائوس کا خرچہ پاکستان کی تاریخ میں پہلی دفعہ ایک ارب سے تجاوز ہو گیا، کروڑوں روپے وزیراعظم کے جہازوں کیلئے رکھے گئے ہیں، یہ اخراجات دفاعی پیداوار وزارت میں چھپا کر رکھے گئے ہیں،تنخواہ دار طبقہ سے تنخواہوں میں کٹوتی ہو گی، یہ ایک ظلم ہے،، شرح سود بڑھا کر بینک مالکوں کو فائدہ دیا جا رہا ہے، تعلیم کا بجٹ کم کردیا ہے۔ بجٹ میں کسان کیلئے کوئی ریلیف نہیں ہے، زیروریٹنگ سٹیٹس واپس لینے سے برآمدات میں کمی ہے، سلیکٹڈ بجٹ عوام کادشمن ہے، بجٹ واپس لیا جائے۔ حماد اظہر نے ذاتی وضاحت پیش کرتے ہوئے کہا کہ جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہو، میں یہ نہیں کہتا کہ یہ جھوٹے ہیں، سٹیٹ بینک کے مطابق قرضے بڑھ کر 31ہزار ارب تک گئے ہیں۔شاہد خاقان عباسی نے بجٹ نہیں پڑھا، کیا یہ جھوٹ ہے کہ لاعلمی ہے، انہوں نے کہا کہ 1500 ارب کے ٹیکس لگاتے ہیں، پی ایم ہائوس کے اخراجات میں 52فیصد کمی آئی ہے۔ راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ عام شہری اپنے گھر کے بجٹ کیلئے فکر مند ہے، پوائنٹ سکورنگ کے بجائے اس کو اس تناظر میں دیکھنا چاہیے، غریبوں کو زندہ درگور کردیا ہے، پی ٹی آئی کی حکومت 1947 میں ہوتی تو یہ کہتے کہ انگریز ملک کے ساتھ بہت برا کر کے گئے ہیں، قرضوں کی تحقیق کیا ایک پولیس افسر کرے گا، ایوان کی کمیٹی تشکیل دے، کسی بھی وزیراعظم کو سلیکٹڈ نہیں کہنا چاہیے،ان لوگوں نے جو آگ لگائی وہ ان تک ہی پہنچ رہی ہے، مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہا کہ سودی نظام کی وجہ سے ماضی کی حکومتیں ناکام ہوئیں اورموجودہ حکومت بھی اسی وجہ سے ناکام ہو رہی ہے، امریکہ نے آئی ایم ایف کو عذاب کے طور پر وجود میں لایا تا کہ مسلم ممالک کو جکڑا جائے، بجٹ میں موجود ٹیکسز سے غریب آدمی متاثر ہو گا، رانا تنویر حسین نے کہا کہ وزیر خزانہ نے بات کی کہ جھوٹوں پر لعنت، میں بھی جھوٹوں پر لعنت بھیجنا چاہتا ہوں، جو حکومت عوام پر بوجھ ڈالے اس پر بھی لعنت، بجٹ دستاویزات بوکس ہیں، اس بجٹ کا تین ماہ بعد جو حشر ہونا ہے قوم دیکھ لے گی، ایف بی آر آج کل حجام کو بھی نوٹسز بھیج رہے ہیں کہ دن میں کتنی حجامتیں کرتے ہو، اگر حکومت 5500ریونیو کا ہدف پورا کرے گی تو ہم ان کو سلیکٹڈ حکومت نہیں کہیں گے۔اس سے قبل وزیر مملکت برائے ریونیو ( محصولات)حماد اظہر نے کہا ہے کہ حکومت نے اپنے ریونیو بڑھانے کے لیے چار فیصد تک ٹیکس کی شرح بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ٹیکسز میں اضافہ ضروری ہے ورنہ حکومت بینکرپٹ ہوجائے گا۔ سابقہ حکومت نے جان بوجھ کر معیشت کو مفلوج کیا گیا جبکہ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے کے بعد کرنٹ خسارے کو پہلے دس ماہ میں 30فیصد کم کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ سابق حکومت نے ایک لاکھ روپے آمدن پر پانچ ہزار روپے ٹیکس عائد کیا تھا ہم نے اسی آمدن پر 25سوروپے ٹیکس عائد کیا ہے۔ اپوزیشن اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا پراپیگنڈہ کررہی ہے حکومت نے آٹا، گھی، پھلوں اور سبزیوں پر ہم نے کوئی ٹیکس نہیں لگایا وزیر مملکت نے کہا کہ اگر ہم چینی پر ٹیکس نہ لگاتے تو شوگر مافیا کا الزام اپوزیشن عائد کردیتی، رکشا پر بھی ٹیکس نہیں لگایا۔ تقریر کے دوران اپوزیشن کی مداخلت پر حماد اظہر جذباتی ہوگئے اور کہا کہ ہم نے 13 تیرہ گھنٹے اس کمرے میں اپوزیشن کی تقریریں سنیں ہیںانہوں نے اپوزیشن اراکین کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ یہ آمریت کی پیداوار ہیںبات نہیں سنتے، یہ جنرل جیلانی، جنرل ضیاء اور جنرل ایوب کی پیداوار ہیںاس پر اپوزیشن اراکین نے شور شرابا شروع کردیا لیگی رہنما شیخ روحیل اصغر کی جانب سے انہیں اپنے گریبان میںجھانکنے کا اشارہ کرنے پر حماداظہر نے انہیں مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ میری والد جب مسلم لیگ (ق) کے صدر تھے تو شیخ روحیل اصغر وہ پہلے لیگی رہنما تھے جنہوں نے ق لیگ کا ٹکٹ ان سے مانگا تھا اس پر شیخ روحیل اصغر اور ان کے درمیان مزید سخت جملوں کو بھی تبادلہ ہوا حکومتی بنچوں پر بیٹھے اراکین نے بھی ڈیسک بجا کر اور شور شرابہ کے ساتھ ان کی مزیدحوصلہ افزائی کی۔وزیر مملکت نے کہا کہ پرائمری خسارہ دو فیصد سے کم کرکہ آئندہ سال تک صفر کردیا جائے گا انہوں نے کہا کہ خوردنی تیل پرایکسائز ڈیوٹی بڑھی ہے یہ وہ آئٹم ہیں جو امپورٹ ہورہے ہیں انہوں نے مزید کہا کہ امراء کے کھانے کے لیے بیرون ملک سے منگوائے جانے والے فروٹ کی قیمتوں پر ٹیکس ضرور لگا ہے انہوں نے مسلم لیگ(ن) کے اراکین پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ان کا مفرور وزیر خزانہ انہیں اپنے کمرے میں بھی نہیں گھسنے نہیں دیتا تھا انہوں نے کہا کہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ہم لوگوں کی جیبوں سے براہ راست پیسے نکال رہے ہیں ہم تو فالودے والے اور مشتاق چینی والے کی جیبوں سے پیسے نکال رہے ہیںانہوں نے کہا کہ سابق حکومت میں شامل وزراء بیرون ملک سکیورٹی گارڈ کی نوکری بھی کررہے تھے اور ادھرحکومت میں بھی شامل تھے۔ قبل ازیں بجٹ پر جاری بحث میں حصہ لیتے ہوئے پاکستان پیپلزپارٹی کی رہنماو سابق وزیر مملکت برائے خارجہ امور حناء ربانی کھر نے کہاکہ وزیراعظم نے کہا تھا کہ بجلی و گیس کی قیمتوں میں اضافے کا بوجھ عوام پر نہیں ڈالا جائے گا لیکن موجودہ بجٹ میںحکومت نے اس مد میں 390ارب روپے کا اضافی ریونیو عوام سے لینے کا فیصلہ کیا ہے۔مسلم لیگ (ن) کے رہنماو سابق وزیرتجارت خرم دستگیر نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے کہا کہ نالائق اور بدانتظام حکومت کا دامن اب داغدار ہوگیا ہے۔پیپلزپارٹی کی رکن ڈاکٹر نفیسہ شاہ نے کہا کہ یہ بجٹ فکسڈ بجٹ ہے دو اراکین کو زبردستی جیل بھیج دیا گیا ہے۔لیگی رہنما عائشہ غوث پاشا نے کہا کہ یہ غیر حقیقی بجٹ ہے بجٹ کی اعداد و شمار تبدیل ہوگئے ہیں۔
بجٹ
اسلام آباد (وقار عباسی سے) قومی اسمبلی میں حزب اختلاف کی جماعتوں کی جانب سے حکومت کا پیش کردہ بجٹ پاس نہ ہونے دینے کے دعوے ناکام ہوگئے ہیں۔ اپوزیشن بجٹ منظوری کے دوران اپنے اراکین کی حاضری یقینی بنانے میں مکمل طورپر ناکام رہی۔ پیپلزپارٹی ک شریک چیئرمین آصف علی زرداری ایوان کے اجلاس شریک ہونے کے باوجود کٹوتی کی تحریکوں میں اپوزیشن کی ووٹنگ میں شریک نہ ہوئے اپوزیشن کے 11جبکہ حکومت اور اس کے اتحادیوں کے 6اراکین بھی اجلاس میں شریک نہ ہوئے۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے 157 جبکہ حکومت اور اتحادی جماعتوں کے 184 ارکاکن ہیں تاہم گزشتہ روز ایوان میں بجٹ ریڈنگ کے دوران اس کے 146اراکین اسمبلی نے رائے شماری میں حصہ لیا اخترمینگل اجلاس میں شریک نہیں ہوئے تاہم ان کی جمایت بھی این پی کے 3 ارکان نے بجٹ کے حق میں ووٹ دیا۔ جبکہ ایک رکن کے فوت ہونے کے باعث نشت خالی ہے ۔ جمعہ کو ایوان زیر یں کے اجلاس میں حزب اختلاف کے ارکان نے بجٹ کی منظوری کے مرحلے میں سپیکر قومی کی جانب سے اپوزیشن کی تحریکوں کو پڑھنے کی بجائے پڑھا ہوا تصور کیاجائے کی رولنگ پر اعتراض کیا گیا اور اس عمل کو پارلیمنٹ کی روایات کے منافی قرار دیا ہے تاہم سپیکر کو اپنی اس رولنگ پر اپوزیشن اراکین کی جانب سے سخت احتجاج کا سامنا کرنا پڑاہے ۔
ضمنی بجٹ