ایک نیلے شہر میں

بھارت میںجے پور ایک ایسا شہر ہے جسےPink City(گلابی شہر)کہا جاتا ہے کیونکہ یہاں کے(سابق)مہاراجہ کا محل گلابی اینٹوں سے بنایا گیا تھا۔بادشاہ سے اظہارِ محبت اور عقیدت کی غرض سے عام شہریوں نے بھی اپنے مکان گلابی اینٹوں سے تعمیر کروائے یا اُن پر گلابی رنگ کرالیا۔اس لیے پورا شہر گلابی لگتا ہے ۔ہم نے مراکش میں ایک دنBlue City(نیلے شہر)میں گزارا۔شِفشاوَن کا عوامی نام’’نیلا شہر‘‘ہے کیونکہ یہاں کے ہرمکان کی ہر دیوار پرنیلا رنگ کیا گیا ہے۔ایک رات ابنِ بطوطہ ہوٹل میںگزارنے کے بعد جب ہم دوسری صبح ایک نئے گائڈ(عبد الجلیل)کے ساتھ اس چھوٹے سے شہر کی سیر کو نکلے تو ہر طرف نیلے رنگ کے جلوے دیکھ کر حیران رہ گئے۔عبد الجلیل نے بتایا کہ یہ تاریخی شہر 1471ئ؁ میں پُرتگالی حملوں سے دفاع کی غرض سے قائم کیا گیا تھا۔تاہم اسپین میں اسلامی حکومت کے خاتمے اور عیسائی حکومت کے قیام کے بعد قرونِ وسطیٰ میں بہت سے یہودی یہاں آکر آباد ہوگئے۔اُن کو ڈرتھا کہ کہیں عیسائی انھیں بھی (مسلمانوں کی طرح)اپنا مذہب چھوڑ نے پر مجبور نہ کریں۔یہودیوں کے نزدیک نیلا رنگ(جوآسمان کا ہے)ایک مقدس رنگ ہے۔اپنے گھروں کو نیلا رنگ دے کر وہ (اپنے عقیدے کے مطابق)آسمان کو زمین سے قریب تر کرنا چاہتے ہیں۔ہم نے عبد الجلیل سے سوال کیا ’’آسمان اپنی جگہ ہے،زمین اپنی جگہ پھر یہ دونوں ایک دوسرے کے قریب کیسے آئیں گے؟‘‘انھوںنے سوال کا زبانی جواب دینے کے بجائے ایک عملی مظاہرہ کیا۔موصوف نے خود اپنی گردن آسمان کی طرف کرتے ہوئے ہم سے بھی کہا’’اوپر دیکھیں۔‘‘ہم نے ان کی ہدایت پر عمل کیا ۔پھر اگلے ہی لمحے انھوں نے اپنی گردن نیچے کی اورہمیں حکم دیا’’نیچے اپنے چاروں طرف دیکھیں۔‘‘ہم نے ایک نظر ماحول پر ڈالی۔عبد الجلیل نے خود ہی یہ نتیجہ اخذ کرلیا’’آپ کوزمین اور آسمان میںقربت کا احساس ہورہا ہے نا؟‘‘اُن کا دل رکھنے کی خاطر ہم نے ہامی بھرلی۔وہیں کھڑے کھڑے عبد الجلیل صاحب نے مکانوں کی کھڑکیوں کی طرف اشارہ کیا اور ہم سے پوچھا’’آپ دیکھ رہے ہیں کہ کھڑکیوں کے فریم بھی نیلے رنگ کے ہیں۔کیوں؟‘‘ہم نے کہا’’اس کی وجہ بھی آپ ہی بتادیں۔‘‘کہنے لگے’’ کھڑکیوں کا نیلا رنگ مچھروں کو اندر آنے سے روکتا ہے۔‘‘اب ہمیں ان کی ذہنی صحت پر شبہ ہونے لگا تھا۔ہم نے سوال کیا’’وہ کیسے؟‘‘بولے’’مچھراندر جاتے وقت نیلا رنگ دیکھ کر سمجھتا ہے کہ یہ سمندرہے۔اس میں جائوں گا تو ڈوب کر مرجائوں گا۔‘‘یہ ماروںگھٹنا پھوٹے آنکھ والی بات تھی لیکن ہم نے اپنی ہنسی روکی اور ان کی یہ دلیل بھی مان لی۔عبد الجلیل کا حوصلہ بڑھا تو انھو ںنے بات بڑھائی’’نیلا رنگ مچھرکو بھگاتا ہے،پیلا رنگ اسے کھینچتا ہے۔‘‘اب ہماری رگِ ظرافت پھڑ کی۔ہم نے کہا’’پھر تو ایک کھڑکی کا فریم نیلا اور دوسری کا پیلا ہونا چاہیے۔‘‘ ’’کیوں؟‘‘عبد الجلیل کے کان کھڑے ہوئے۔ہم نے وضاحت کی’’نیلی کھڑکی اُسے صرف ڈرائے گی،جان سے نہیں مارے لیکن ایک کھڑکی کافریم نیلا اور دوسری کا پیلا ہوگا تو مچھر ایک سے دوسری کھڑکی کی طرف بھاگتے بھاگتے تھک کر مرجائے گا۔‘‘عبد الجلیل صاحب قہقہہ مارتے ہوئے بولے’’آپ کی حسِّ مزاح بہت تیز ہے۔‘‘ہمارے پوتے رمیز قریشی نے انھیں مطلع کیا’’دادا ابّو مزاح نگار ہیں۔‘‘(مزاح نگار سے پہلے بھی اس نے کچھ توصیفی کلمات ٹانک دیے تھے جن سے اقربا پروری کی بُوآرہی تھی۔)باتیں کرتے کرتے ہم ایک چھوٹی سی مچھلی مارکیٹ میں آپہنچے جہاں بیشتر مچھلی فروش عورتیں تھیں۔ وہاں مچھلی بِک بھی رہی تھی اور پَک بھی رہی تھی۔دونوںطرف گاہکو ںکا رش تھا۔یہ بات قابلِ قدر تھی کہ بدبُو ہماری مچھلی مارکٹیوں سے کم تھی اور شوروغل نہ ہونے کے برابر تھا۔ہم پہلے بھی لکھ چکے ہیں کہ عام طور پر مراکشی قوم نظم و ضبط والی ہے۔ ہم ہوٹل سے ناشتہ کرکے نکلے تھے ورنہ تلی ہوئی مچھلی ضرور کھاتے کیونکہ ہر جگہ،ہرکھانے میں ’’تازین‘‘سے ہم دونوں تنگ آچکے تھے۔اس قصبے کی گھریلو مصنوعات(Handicrafts)بہت خوبصورت تھیں لیکن قیمتیں ہماری پہنچ سے باہر تھیں۔سودے بازی زوردار ہورہی تھی۔ قیمت پوچھتے ہوئے بھی ڈر لگتا تھا کہ دکان دارکہیں گلے نہ پڑجائے جیسے ہمارے یہاں پٹھان بھائی’’افغانی قالین‘‘(جو لانڈھی میں بنتا ہے)سڑک کے کنارے درخت پر لٹکا ئے کھڑے ہوتے ہیں۔آپ اُن سے قیمت پوچھیں۔ وہ اتنی زیادہ بتائیں گے کہ سن کر آپ کا سر چکراجائے گا۔آپ آگے بڑھنے لگیں گے تو وہ روکیں گے کہ’’کچھ تو تم بھی بتائو۔‘‘ اِتّمامِ حجت کی غرض سے آپ بتائی گئی قیمت کی ایک چوتھائی لگاتے ہیں اور چلنے لگتے ہیں ۔وہ آپ کو روکیں گے کہ’’کچھ بڑھائو۔‘‘یہ کھینچا تانی کا فی دیر جاری رہتی ہے یہاں تک کہ خان صاحب اعلان کرتے ہیں’’لائو،پیسے نکالو۔‘‘اب آپ وہاں رک کر اور قیمت پوچھ کر پچھتاتے ہیں۔ہم شفشاون میں پچھتا نا نہیں چاہتے تھے۔(اس پچھتاوے کے بارے میںہمیںعبد الجلیل نے پہلے سے خبردار کردیا تھا۔)پورے شہر کے گرِد وہ روایتی دیوارکھنچی ہوئی ہے جو شہر کے جدید حصے کو قدیم حصے سے الگ کرتی ہے۔ایک چھوٹی سی عمارت میں بلدیہ کا دفتر دیکھا۔یہ امرریکارڈ پر لانا ضروری ہے کہ شہرمیں نہ تو کہیں گنداپانی ٹھہرا نظر آیا اور نہ کوڑا کرکٹ۔گائڈ نے بتایا کہ لوگ صفائی ستھرائی کا اتنا شعور رکھتے ہیں کہ گھروں کا تمام کچرا خود کوڑے دانوںمیں لا کرڈالتے ہیں۔ہم نے پوچھا’’اتنی پتلی پتلی گلیوں میں یا چھوٹے چھوٹے گھروں میں جب قربانی کے جانور ذبح ہوتے ہوں گے تو راستے میںخون کی کیچڑ تو ضرور ہوتی ہوگی۔‘‘عبد الجلیل نے کہا’’مجال ہے جو کوئی گھر کے اندر یا باہر مرغی بھی ذبح کرلے۔عید الاضحی کے موقع پر زیادہ تر اونٹ کی قربانی ہوتی ہے جو شہر کے باہر بلدیہ کے مذبح میں ذبح کیے جاتے ہیں۔‘‘انھوںنے یہ بھی بتایا کہ اُن کے ملک میں قربانی صرف وہی لوگ کرتے ہیں جو صاحبِ نصاب ہوںاورشادی شدہ ہوں۔دوسری شرط ہمیں عجب لگی۔ ایک بہت اچھی بات یہ معلوم ہوئی ،اور ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا،کہ اگرچہ اس قصبے کو یہودیوں نے بہت ترقی دی اور اپنے مذہب اور ثقافت کے مطابق اسے نیلا رنگ کر اس کی ہئیت بدل دی تھی لیکن یہودیوں کے یہاں سے جانے کے بعد بھی مسلمانوں نے قصبے کا یہ تشخص برقرار رکھاجس کااُنھیں دہرا فائدہ ہوا۔اول تو اُن کی اعلیٰ ظرفی کی آج تک تعریف ہورہی ہے اور دوم، سیاحت کی صورت میں اہلِ شہر کی خوب آمدنی ہورہی ہے۔حکومت کی ٹیکسوںکی مد میںکمائی زوروں پر ہے۔جذبات کو الگ رکھ کر جو فیصلے کیے جاتے ہیں اُن کے ایسے ہی دُوررس تنائج بر آمد ہوتے ہیں۔چھوٹے سے قصبے کے تمام ہوٹلوں کے تمام کمروں میں مہمان تھے اور بازاروں کی رونقیں زوروں پرتھیں۔مسجدیں جگہ جگہ نظر آئیں، کلب نام کی کوئی چیز نہیں تھی۔عبد الجلیل نے بتایا کہ یہاں کے لوگ بہت مذہبی ہیں۔کوئی فحاشی یا بیہودگی برداشت نہیں کرسکتے۔یورپی سیاحوں کو بھی آزادی نہیں کہ عریاں لباس میں گھومیں پھریں یا ہوٹلوں میں جام و مے کے دور چلائیں۔اس پہاڑی قصبے کی ایک قابلِ فخر نشانی تاریخی ’’مسجد الکبیر‘‘ ہے جو شہر کے وسط میں ایک کھلے اور ہموار مقام پر واقع ہے۔یہاں ایک بڑا بازاربھی ہے جہاں روایتی مراکشی فرنیچر کی دکانیں اورکچھ ریسٹورنٹس ہیںجس کی وجہ سے بہت چہل پہل تھی۔’’مسجد الکبیر‘‘ یا جامع مسجدخالص مراکشی فنِ تعمیر کی ترجمان ہے۔یہ اس شہر کے بانی کے پوتے محمدبن علی بن راشد نے اپنے دورِحکومت(1540ئ؁ تا1560ئ؁)میں تعمیر کرائی تھی۔یہ بات لائقِ ستائش ہے کہ تقریباً ہرحکمراں اپنے عہد کی یادگار کے طور پر عوام کو ایک عظیم الشان مسجد کا تحفہ دے گیا۔پانچ سو سال گزرنے کے باجود اس مسجد کی آن بان اور شان ایسی ہے کہ جیسے حال ہی میں بن کر تیار ہوئی ہو۔اصل بات یہ ہے کہ عمارتیں اچھے اچھے ڈیزائن کی تیار کرادی جاتی ہیں لیکن عموماًان کی دیکھ بھال(Maintenance)کی طرف سے غفلت برتی جاتی ہے جس کے باعث ان کا حُسن ماندپڑجاتا ہے۔اس مسجد کامستطیل وضع کامینار اتنا بلند ہے کہ یہ شہر کے کسی بھی گھر کی چھت سے دیکھا جاسکتا ہے۔مسجد کا ہال،غسل خانے،وضوخانے سب بہترین حالت میں ہیں۔شفشاون کا دورہ ہرلحاظ سے دلچسپ اور معلومات افزا رہا۔یہ اور اچھا ہوتا کہ اگر سردی کچھ کم ہوتی۔خصوصاً ہم گائڈعبد الجلیل کی باتوں سے بہت لطف اندوز ہوئے۔ہم نے ان کے ساتھ تصویر بنوائی جو انھوں نے اصرار کرکے اپنے کیمرے میں بھی منتقل کروالی۔ان کا کہنا تھا کہ ہم جیسے...(خالی جگہ میں چارپانچ خوبیاں بھرلیں)سیاح انھیں بہت کم ملے۔(یقینا انھوں نے یہ بات اور سیاحوں سے بھی کہی ہوگی اس لیے کہ ع ہم کہاں کے دانا تھے،کس ہنر میں یکتا تھے۔)عبدالجلیل صاحب کی فرض شناسی بھی مثالی تھی۔دورے کے اختتام پر ہم اِس فصیل بند قصبے سے باہر نکلے تو دروازے پر ڈرائیور عبدالاحد کو اپنا منتظر پایا۔ہم نے ان سے انگریزی میں پوچھا’’اُومولود(مستقل گائڈ)کہاں ہیں؟‘‘تو وہ کچھ نہ بولے۔ہم نے دوبارہ زورسے یہی بات کہی تو وہ پھر بھی خاموش رہے۔اب ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ عربی یا بربر کے علاوہ کوئی دوسری زبان نہیں جانتے تھے۔وہ اشاروں کنایو ں میںصرف اتنا سمجھاسکے کہ اُومولود راستے میں کہیں ہم سے مل لے گا۔انھوں نے ’’سیاحت نامے‘‘کی مدد سے ہمیں یہ بھی بتایا کہ یہاں سے ہم مکناس شہر جائیں گے جس کا فرانسیسی نام میکنس (Meknes)ہے۔

ای پیپر دی نیشن