بھاشن نہ دیں، پاکستان کیخلاف تحریک کی قیمت کون دیتاہے: فواد چودھری

اسلام آباد ( خصوصی نامہ نگار+ اے پی پی )  وزیر اطلاعات فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان میں 250 ملکی اور43  عالمی چینلز آزادانہ طور پر اپنا کام کر رہے ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن میں پاکستان کے مفادات پر اتفاق رائے اور یکسانیت ہونی چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان کو ہر ادارے کی بنیاد سے ایک عمارت کھڑی کرنا  پڑ رہی ہے۔ ہم اپنے اداروں کو مضبوط بنائیں گے۔ وزارت اطلاعات و نشریات کو دنیا میں پاکستان کے بیانیہ کے فروغ کے قابل بنائیں گے۔ ماضی میں وزارت اطلاعات کے ماتحت اداروں میں سیاسی بنیادوں پر بھرتیوں سے ان کو تباہ کیا گیا۔ وزیر اطلاعات  نے کہا کہ حال ہی میں جو انفولیب پکڑی گئی وہاں 845 سے زائد جعلی ویب سائٹس پاکستان کے خلاف مسلسل پروپیگنڈہ کر رہی تھیں۔ عالمی میڈیا کو پاکستان کے بارے میں جھوٹی خبریں دی جارہی تھیں۔ تحریک لبیک پاکستان کے احتجاج کے دوران الہ آباد سے3 لاکھ ٹویٹ کئے گئے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان کے خلاف کس قسم کی جنگ لڑی جا رہی ہے۔ پچھلی حکومتوں نے مسلسل وزارت اطلاعات و نشریات کے اداروں میں اپنے  کارکنوں  کو بھرتی کیا، پہلے ڈیلی ویجز پر بھرتی کیا گیا جبکہ بعد ازاں ایک کمیٹی بنا کر انہیں مستقل کر دیا گیا۔ ان کی تنخواہوں کا بجٹ 32 کروڑ روپے ہے۔ ان میں 5  فیصد بھی کام کرنے والے نہیں، اس طرح پی ٹی وی کا بھٹہ بٹھایا گیا اور اسی طرح ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان کا ادارہ بھی پورا بیٹھ گیا۔ ہم نے اپنے ان اداروں کو مضبوط بنانا ہے۔ اگست کے پہلے ہفتے پاکستان ٹیلی ویژن کو مکمل ایچ ڈی کر دیا جائے گا۔ اے پی پی کو ایف پی اور رائٹرز کی طرز پر ڈیجیٹل میڈیا نیٹ ورک بنائیں گے۔ ریڈیو پاکستان کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کر رہے ہیں۔ وزیر اطلاعات نے کہا کہ یہاں پر صحافیوں کے تحفظ کی بات کی گئی۔ اس بنیاد پر مسلسل عالمی پروپیگنڈا کو سہارا دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان میں تین چار جگہوں سے ایسی جعلی خبروں پر مشتمل ٹویٹس بنائے جاتے ہیں جنہیں افغانستان سے ابھارا جاتا ہے یہاں ہمارے بہت سارے نادان دوست جانے انجانے میں ان ٹویٹس کو آگے پھیلاتے ہیں۔ لندن کے میڈیا میں ان کے رائٹس اپ اور تقریروں کو جگہ دی جاتی ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے کہ یہ مفت میں ہوتی ہے۔ افغانستان سے پاکستان کے خلاف جو تحریک چلائی جا رہی ہے وہ مفت میں ہوتی ہے یا امریکا  کے اخبارات میں جب پاکستان کے کچھ لوگوں کے پاکستان میں اظہار رائے پر مضمون چھپتے ہیں تو کیا یہ مفت میں چھپتے ہیں؟ نہیں بلکہ ہر لفظ کی قیمت ادا کی جاتی ہے اور یہ قیمت کون دیتا ہے یہ ہمیں بھی پتہ ہے اور آپ کو بھی پتہ ہے۔ اس لئے ہمیں آزادی اظہار رائے کے بھاشن نہ دیں۔ ہمارے  ہاں حکومت کے اندر اور اپوزیشن کے اندر پاکستان کے مفاد سے جڑے معاملات پر یکسانیت  اور اتفاق رائے ہونا چاہیے۔ چھوٹے چھوٹے سیاسی مفادات کے لئے عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں استعمال نہیں ہونا چاہیے۔ ہم پاکستان کے صحافیوں کو وہ سہولتیں دینا چاہتے ہیں اپنے صحافیوں کو کامیاب جوان  پروگرام کا حصہ بنایا ہے،

ای پیپر دی نیشن