پنج پیر: جہاں سیاح دلفریب نظاروں کے سحر میں گم ہوجاتے ہیں

تحصیل کہوٹہ کی ایک یونین کونسل نرڑھ بھی ہے جو قدرتی حسن دلفریب نظاروں کا مرکز ہے بلند بالا پہاڑوں گھنے جنگلات بل کھاتی سڑک اور آبشاریں یہاں آنے والوں کے دل موہ لیتی ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم میں یہاں سے 207لوگوں نے شرکت کی تھی جن میں سے 35افراد نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا تھا۔کئی دھائیوں قبل یہاں آنا جانا بڑے دل گردے کا کام تھا 1985 کو یہاں پر ترقیاتی گرانٹ پہنچنا شروع ہوئیں اس وقت تحصیل کوٹلی ستیاں نے بھی جنم نہیں لیاتھا نہ ہی یوسی بھتیاں کا قیام عمل میں آیا تھا۔ اس وقت کی یونین کونسل نرڑھ آج دو حصوں میں منقسم ہونے کے باعث نرڑھ تحصیل کہوٹہ اور اس کے بطن سے جنم لینے والی یوسی بھتیاں تحصیل کوٹلی ستیاں کا حصہ ہے۔ دور حاضر میں مری کوٹلی ستیاں سے تعلق رکھنے والے پی ٹی آئی کے رکن صوبائی اسمبلی میجر لطافت ستی کا تعلق بھی اسی یوسی بھتیاں سے ہے کرنل ریٹائرڈ محمد یامین ستی یوسی نرڑھ سے 1983 میں ضلع کونسل کے رکن اور پھر 1988 میں چیئرمین ضلع کونسل بھی منتخب ہوئے ۔ 1985، 1988 اور 1990 میں یہاں سے رکن صوبائی اسمبلی بھی منتخب ہوئے ۔یہ سابق وزیراعظم شاھد خاقان عباسی کے والد محترم محمد خاقان عباسی شہید کے قبل اعتماد ساتھی اور ان کے ہمراہ رکن صوبائی اسمبلی تھے۔ یہ پنجاب کابینہ میں وزیر بھی رہے ان کی بیٹی ثوبیہ یامین ستی اور نواسی منیرہ یامین ستی بھی پنجاب اسمبلی کی رکن رہی ہیں ۔ان کے فرزند بلال یامین ستی آج کل یہاں سے چیئرمین یوسی ہیں یہاں سے ماضی میں شاہد ریاض ستی بھی رکن پنجاب اسمبلی رہے غلام مرتضی ستی کا تعلق بھی اسی گائوں نرڑھ سے ہے ،یہ یہاں سے ناظم منتخب ہوئے تھے اور پھر 2002 میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مسلسل کامیابیوں کے ریکارڈ قائم کرنے والے شاھد خاقان عباسی کو شکست دی تھی ۔یوسی ناظم منتخب ہونے کے بعد اگلے ہی الیکشن میں رکن قومی اسمبلی منتخب ہو جانا یقیننا بڑی کامیابی تھی ۔یہ ماضی میں پیپلز پارٹی کے ضلعی اور ڈویژنل صدر بھی رہے ۔یہ اگر پی ٹی آئی میں شمولیت کا فیصلہ نہ کرتے تو آج یہ پیپلز پارٹی کی صوبائی تنظیم کا حصہ ہوتے یہ بڑی صلاحیتوں کے مالک ہیں مگر سیاسی فیصلہ کرتے ہوئے انہوںنے زمینی حقائق کی بجائے ہوا کے رخ پر فیصلہ کیا ۔یہ نئے پاکستان کے بھی دلدادہ تھے مگر ان کی مراد ابھی بھر نہیں آئی ۔یہ پی ٹی آئی کا حصہ ہیں مگر کھری بات دل میں دبا کر نہیں رکھتے میڈیا کے سامنے کہ جاتے ہیں۔ بات ہو رہی تھی نرڑھ اور اس کے خوبصورت نظاروں کی تو یہی وجہ ہے کہ میاں نوازشریف نے بطور وزیراعظم یہاں کا دورہ کیا شاھد خاقان عباسی بھی بطور وزیراعظم یہاں خطاب کر چکے ہیں اس دور کے اعلان کردہ منصوبہ نرڑھ پنجاڑ روڈ پر آج بھی کچھوے کی چال سے کام جاری ہے عمران خان نے گزشتہ عام انتخابات سے قبل یہاں کا دورہ کیا تھا غلام مرتضیٰ ستی ان کے میزبان تھے ۔یہاں دل موہ لینے والے نظاروں کا حامل نرڑھ فاریسٹ ریسٹ ہائوس بھی ہے جو سطع سمندر سے ساڑھے چھ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے ۔اس کے عقب میں کھڑے ہوں تو کوٹلی ستیاں کے نظارے لیں اس کے دائیں جانب صحن میں کھڑے ہوں تو دریائے جہلم اور کروٹ ڈیم کو قدموں میں پائیں اس پرفضا مقام پر برفباری بھی ہوتی ہے جس سے محدود ذرائع آمدورفت تباہ ہو جاتے ہیں ۔اس کے ریسٹ ہاوس میں سابق صدر فاروق لغاری بھی قیام کر چکے ہیں ۔کوئی پچیس تیس برس قبل ریسٹ ہاوس تک سڑک پختہ کی گئی تھی اس کے بعد اس کی کبھی مرمت کی نوبت نہ آئی ۔موسمی حالات سے یہ اب آثار قدیمہ کا منظر پیش کرتی ہے اور ریسٹ ہاوس تک جانے کے لیئے پیدل سفر لازمی قرار پاتا ہے اسی ریسٹ ہاوس کے قریب پاکستان ٹی وی کا بوسٹر اور ادھوری عمارت بھی سرخ فیتے پر نوحہ کناں ہے ۔اس عمارت کی تعمیر کا کام جنرل پرویز مشرف کے دور میں شروع ہوا تھا جس کے بعد پیپلز پارٹی مسلم لیگ ن اور اب پی ٹی آئی کے دور میں بند پڑا ہے ۔ادھوری عمارت پھر کسی جنرل مشرف کی منتظر ہے یہاں انتہائی خوبصورت پنج پیر راکس بھی ہیں جو بھی یہاں آتا ہے وہ یہیں کا ہو کر رہ جاتا ہے ۔ذرائع آمدورفت نہ ہونے کے باوجود آج بھی ملتان بہاولپور رحیم یارخان جیسے دور ددراز علاقوں سے تعلق رکھنے والے سیاح یہاں دکھائی دیتے ہیں ۔اب حکومت نے یہاں لوئر ٹوپہ مری سے چوکپنڈوری کلرسیداں تک 123کلومیٹر ٹورازم ہائی وے کا اعلان کیا ہے جس پر چارارب چار کروڑ کی لاگت آئے گی۔حالیہ وفاقی بجٹ میں اس کے لیے ایک ارب پچہتر کروڑ کی خطیر رقم مختص کی گئی ہے ۔بلاشبہ یہ منصوبہ گیم چینجر ثابت ہوگا اس شاہراہ سے آزاد کشمیر کے اضلاع راولاکوٹ کوٹلی اور دیگر کو بھی دریائے جہلم پار کرتے ہی عالمی معیار کی سڑک دستیاب ہوگی ۔فاصلے مٹیں گے سیاحت ترقی کرے گی تو غربت میں بھی کمی ہوگی گزشتہ ایام کلرسیداں کے صحافیوں راقم کے علاوہ جنگ سے راجہ محمد سعید اور اساس سے جاوید اقبال نے بھی یہاں کا دورہ کیا اور مجوزہ ٹورازم ہائی وے کا جائزہ لیا ۔اس سارے سفر میں بلال یامین ستی ہمارے میزبان اور گائیڈ بھی تھے اگر ٹورازم ہائی وے پر عملدرآمد ہوتا ہے تو مری کے بعد کوٹلی ستیاں اور کہوٹہ کے کئی تاریخی اور پرفضا مقامات سیاحوں کو اپنی طرف کھینچ لیں گے اس کے لئے صرف بیوروکریسی کی نیت کا درست ہونا شرط اول ہے ۔

ای پیپر دی نیشن