افغانستان سے امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی کے انتظامات کے بعد طالبان نے دفاعی نکتہ نگاہ سے اہم علاقوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا ہے جس سے امریکہ اور اقوام متحدہ خاصے مضطرب دکھائی دیتے ہیں طالبان نے 60 کے قریب اضلاع پر باآسانی قبضہ جمالیا ہے اس ہزیمت اور خفت سے بچنے کے لئے امریکی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ طالبان کی کامیابیوں کے پیشِ نظر غیر ملکی فوجیوں کے انخلاء کی رفتار کم کی جا سکتی ہے کیا رفتار کم کرنے سے طالبان کی کامیابیوں کا سلسلہ سُست ہو جائے گا امریکی فوجیوں کے انخلاء کی رفتار برق رفتار نظر آتی ہے کیونکہ فوجی اپنا سامان سمیٹ کر زندہ سلامت واپس جانے سے قبل تقریباً نہتے اور حوصلہ بھی ہار چکے ہیں انکی جنگ لڑنے کی ہمت بھی جواب دے چکی ہے ۔طویل ترین سفر کے نتائج سے فوجی اپنا مورال صفر کر چکے ہیں۔ ہیںافغانستان بدل رہا ہے طالبان نئے حوصلے اور عزم کے ساتھ آگے بڑھ رہے اورامریکہ تقریباً 2 ٹریلین ڈالر کا نقصان کر کے خالی ہاتھ لوٹ رہا ہے ۔پاکستان کی جانب سے اڈے نہ ملنے کی آس تقریباً ختم ہو چکی ہے۔ افغانستان کی حکومت جو دراصل کابل پر حکمران ہے طالبان کی دفاعی طاقت اور حکمت عملی سے باخبر ہے اپنے افغان فوجیوں کو حوصلہ دینے کے لئے افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی فرما رہے ہیں کہ حکومتی فوجی طالبان کے حملوں کو روکنے کے لئے پوری صلاحیت سے مالا مال ہیں حالانکہ یہ مجبوری کے فوجی ایک ہی حملے کے بعد ہاتھ بلند کر دیتے ہیں ۔افغان حکومت ایک عرصہ سے پاکستان پر الزام عائد کرتی چلی آرہی ہے کہ پاکستان کی پُشت پناہی کرتا ہے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے یہ تسلیم کیا گیا ہے کہ پاکستان نے ماضی میں افغانستان میں متحارب گروپوں کا ساتھ دے کر غلطی کی تھی اب وہ اس قوت کے ساتھ تعاون کے لئے تیار ہیں جس کو افغان عوام کا اعتماد حاصل ہو انھوں نے امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی سے کو افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف فضائی حملے کرنے کے لئے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کرنے کے حوالے سے واضح طور پر یہ کہہ کر انکار کر دیا تھا کہ ہم امریکہ کا ساتھ دے کر خون خرابہ میں اضافہ کا باعث نہیں بنیں گے۔
امریکہ کو طالبان کی تیز رفتار کامیابیوں پر گہری تشویش ہے مگر اسے یہ یقینی طور پر اندازہ ہو گا کہ اب گیم انکے ہاتھ سے نکل چکی ہے عسکری کامیابیوں کے لئے طالبان کی حکمت عملی کو سمجھنا خاصا دشوار ہے امریکہ اپنے فوجیوں کی سلامتی کو بھی یقینی بنانے کے لئے اضافی وسائل چاہتا ہے پاکستان سے صاف انکار اور مدد کی توقع نہ رکھنے کے بعد اسکے پاس کیا آپشن ہیں وہ طالبان پر کس طرح نظر رکھے گا کیا کوئی اور پڑوسی ملک امریکہ کو اپنا کندھا پیش کرے گا۔افغانستان میں امن کا عمل آگے کیسے بڑھے گا کیا پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کی لپیٹ میں آئے گا ۔کیونکہ طالبان کی کامیابی کا مطلب بھارت کی شکست اور اربوں ڈالرکی سرمایہ کاری ڈوب جانا یقینی ہو گا پاکستان کو انہتائی احتیاط کے ساتھ حکمت عملی مرتب کرنا ہو گی۔افغانستان میں سیاسی استحکام ،معاشی ترقی اور دہشت گردی کی روک تھام ایک اہم سوال ہے بھارت کے ایک وفد کی جانب سے خاموشی سے قطر کا دورہ بے مقصد نہیں تھا دوحہ میں موجود طالبان کی سیاسی قیادت سے ملاقاتیں بھارت کی پریشانی کا واضح ثبوت ہیں اب یہ بات طے ہے کہ افغانستان میں طالبان ہی بالادست ہیں اور جلد انکی حکومت قائم ہونے جا رہی ہے۔اسی پریشانی کو سمجھتے ہوئے ایک اہم امریکی سینیٹرگراہم نے کہا ہے کہ افغانستان سے تمام افواج نکالنے اور اس حوالے سے پاکستان سے رابطہ نہ کرنے کا بائیڈن انتظامیہ کا فیصلہ بہت بڑی تباہی ثابت ہو گا عراق میں کی جانے والی غلطی سے بھی بڑی غلطی ہو گی انھوں نے کہا ہے کہ ہم کیسے توقع کر سکتے ہیں کہ پاکستان سے بات چیت کئے بغیر افغانستان سے ہماری واپسی موثر ثابت ہو گی بائیڈن انتظامیہ کو واضح طور پر یہ کہا ہے کہ افغانستان میں ہمارے مسائل حل ہو چکے ہیں ۔ادھر افغانستان کے مستقبل کے بارے میں دواہم واقعات ہونے والے ہیں افغان صدر اشرف غنی اور امریکی صدر جوبائیڈن سے ملاقات کے لئے واشنگٹن یاترا کر رہے ہیں اور اپنے دفاع افغانستان کے متوقع حالات پر اپنا رونا روچکے ہیں۔تاہم وہ کابل کے دفاع کے حوالے سے کوئی خوشخبری لانے سے تو رہے کیونکہ اب امریکہ کو بھی حقیقت پسندی سے کام لینا ہو گا جدید ترین ٹیکنالوجی جب طالبان کو 20 سال میں پچھاڑ نہیں سکی تو اب وہ کیا ڈرون کے سہاروں پر دفاع کر سکیں گے اسوقت افغانستان کے تاجک،ہزارہ اور ازبک پریشانی کے عالم میں کسی کرامت کے منتظر دکھائی دیتے ہیں افغان فوج خوفزدہ ہے کیونکہ عارضی سرپرست خوشی خوشی جو گھر لوٹ رہے ہیں امریکی افواج کے انخلاء کے بعد 20 برس پہلے والے حالات ہوں گے اور یہ 20 برس میں جو کچھ ہوا وہ ایک بڑا سبق ہے امریکہ ،اتحادی افواج اور کٹھ پُتلی حکومتوں کے لئے 13 سال تک امریکی سپورٹ سے حکومت (کابل ) چلانے والے کرزئی امریکہ سے نالاں نظر آتے ہیں عبداللہ عبداللہ بھارت کے بڑے حامی ہیں پاکستان کو نمبرون دشُمن سمجھتے ہیں شمالی اتحاد اب کمزور ہو چکا ہے دوستم بڑھاپے کی دہلیز پر ہیں ترکی میں مقیم ہیں طالبان کے ہزاروں لوگوں کو قتل کرنے والے اس ظالم گیدڑ طالبان کو بڑی بے دردی سے قتل کر رہا تھا اسکے مظالم ناقابل بیان ہیں اور وہ اپنے منطقی انجام سے خوفزدہ ہو کر دبک کر بیٹھے ہوئے ہیں اور شاید ہی واپسی کا حوصلہ کر سکیں ۔طالبان کو ایک بار جذبات کی جگہ عقل سے کام لینا ہو گا سفارتی حوالے سے دنیا کو اپنا ہمنوا بنانا ہو گا۔
،مکار اور منافقانہ سوچ کے حامل ممالک کی چالبازیوں سے بچنا ہو گا تعمیر نو اور کئی اہم حوالوں سے افغانستان کو پاکستان کی ضرورت ہو گی۔وزیراعظم ماضی میں بھی اور اب انھیں سپورٹ فراہم کرنے کا عزم کر چکے ہیں طالبان کو نئے دور میں داخل ہونے کے لئے ماضی کی غلطیوں سے گریز کرنا ہو گاجدید روایات کو اپنانا ہو گا سخت گیر اور تشدد پسند اقدامات سے گریز کرنا ہو گا اپنے دوستوں میں اضافہ کرنا ہو گا۔علاقائی سلامتی کے لئے پڑوسی ممالک سے رہنمائی لینا ہو گی ۔توقع ہے ماضی کی طرح اب طالبان افغان عوام کو امن،استحکام خوشحالی ترقی جدید سہولتوں کی فراہمی کے لئے قدرے روشن خیالی کی چادر ضرور اوڑھیں گے۔