جماعت اسلامی کا مہنگائی اور بیروزگاری کیخلاف تحریک چلانے کا اعلان
اس وقت جب ہر سیاسی جماعت اپنا اپنا تماشہ دکھا رہی ہے۔ بازار سیاست مچھلی منڈی کا نقشہ پیش کررہا ہے سیاسی الزامات کی بوچھاڑ جاری ہے۔ اس صورتحال میں کسی کی اگر شامت آئی ہوئی ہے تو وہ بے چارے عوام ہیں۔ ان کی کوئی سنتا ہی نہیں ان کی حالت ہاتھیوں کی جنگ میں ان کے پیروں تلے آکر کچلی جانے والی گھاس کی سی ہوگئی ہے۔ ان حالات میں اگر کسی جماعت کو عوام کا خیال آیا ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جو گرچہ خواص کی جماعت ہے مگر اس کے دل میں رہ رہ کر عوام کا بھی خیال آتا ہے کیونکہ اقتدار تک پہنچنے کیلئے بہرحال ووٹ تو عوام کے ہی درکار ہوتے ہیں۔ خواص کے تو چند فیصدووٹ ہوتے ہیں جو عام طور پر بے کار جاتے ہیں ہاں اگر یہ چند فیصد ووٹ کسی کارآمد جماعت کے ہتھے چڑھیں تو بازی پلٹ دیتے ہیں۔ اب عرصہ دراز سے جماعت اسلامی کو تنہا پرواز کا شوق چڑھا ہے۔ اس میں اسے سراسر نقصان ہی اٹھانا پڑا۔اس وقت ملک بھر میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے مگر نہ روزگار ہے نہ مہنگائی پر کنٹرول، عوام ادھ موئے ہوچکے ہیں۔ جماعت اسلامی سے یہ حالت دیکھی نہیں جاتی اس لئے سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے 2 جولائی سے بیروزگاری اور مہنگائی کا دھڑن تختہ کرنے کیلئے احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کیا ہے۔ یہ اعلان خوش آئند ہے۔ خدا کرے جماعت اپنے پروگرام میں کامیاب رہے اور عوام کو بیروزگاری اور مہنگائی سے نجات ملے ۔اپنے پرانے اتحادی اور حلیف کے اس اعلان پر حکمران مسکرا رہے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں …
خنجر اٹھے گا نہ تلوار ان سے
یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں
٭٭٭٭٭
سرکاری ریٹ سے کم نرخ پرسبزیاں بیچنے والا دکاندار گرفتار
بجائے اس کے کہ ایسے مجاہد کو حکومت ہاتھوں ہاتھ لیتی سر آنکھوں پر بٹھاتی۔ اس خداترس دکاندار کو گرفتار کرلیا گیا۔ یہ شاید اس لئے ضروری سمجھا گیا کہ ایک دکاندار کی اتنی ہمت کیسے ہوئی کہ وہ سرکاری نرخنامہ کی خلاف ورزی کرے۔ جب سرکار نے آلو، بھنڈی، کریلے، توری،ٹماٹر، پیاز ، ادرک، لہسن کے ریٹ نہایت سوچ بچار کے بعد عوام کو زچ کرنے کیلئے مقررکر ہی لئے ہیں تو ہونا یہ چاہئے تھا کہ دکاندار اس نرخنامے میں مزید من مانا اضافہ کرکے یہ سبزیاں فروخت کرتا تاکہ عوام حکمرانوں سے اپیلیں کرتے ہوئے سرکاری ریٹ کو یاد کرکے روتے مگر نجانے کیوں اس دکاندار نے بغاوت کی راہ اپنائی
یہ احتجاج کا لہجہ نہیں بغاوت ہے
لکھے کو آگ لگا دی قلم کو توڑ دیا
اور من مرضی سے کم قیمت پر غریب صارفین کو سبزیاں فروخت کرنے کا جرم کیا۔ اس کا نتیجہ بھی اب سب کے سامنے ہے۔ پرائس کنٹرول مجسٹریٹ نے دکاندار کیخلاف مقدمہ درج کرلیا کہ اس نے نرخنامہ آویزاں نہیں کیا تھا اور مرضی کی قیمت پر سبزیاں بیچ رہا تھا۔ ہے ناں عجب بات۔ اس دکاندار کو سزا ملنے پر باقی دکاندار خوش ہوں گے کہ اب یہ نادان دوبارہ ایسی حرکت نہیں کرے گا جس کی وجہ سے دوسرے دکانداروں کی دکانداری خراب ہوتی تھی کیونکہ لوگ کم قیمت کی وجہ سے اس نادان دکاندار کی طرف زیادہ رجوع کرتے تھے۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد میں سائیکل سوار پولیس دستے میں خواتین بھی شامل
شہر اقتدر بے مثال تو ہے ہی اس میں کوئی شک کی بات نہیں۔ وہاں انتظامیہ نے اب گشت کرنے والا پولیس کا سائیکل سوار دستہ بھی بنا یا ہے جو اس شہر کی خوبصورت سڑکوں پر گشت کرے گا تاکہ قانون کی عملداری کو ہر سطح پر یقینی بنایا جائے۔ پولیس کا یہ چاق و چوبند دستہ جس میں خواتین کو بھی بھرتی کیا گیا ہے جب سڑکوں پر گشت کرتا ہے تو نہایت بھلا لگتا ہے۔ صاف ستھری وردی، خوبصورت سائیکلیں، مرد اور خاتون اہلکار نہایت متانت کے ساتھ لوگوں سے بات چیت کرتے ہیں اور مسائل کے حل میں ان کی مدد بھی کرتے ہیں۔ انہیں دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی یورپی ملک میں آگئے ہوں جہاں سائیکل سوار پولیس کی روایت ابھی زندہ ہے ۔صرف یہی نہیں گھڑ سوار پولیس والے بھی ہر قسم کی ہنگامی صورتحال میں اپنے فرائض انجام دیتے نظر آتے ہیں۔ اس حساب سے ہمارے ہاں گھڑ سوار تو نہیں البتہ موٹرسائیکل سوار ڈولفن پولیس اہلکار ضرور ہیںجو ہوا کے دوش پر سوار محسوس ہوتے ہیں اور اکثر بروقت کارروائی میں کامیاب بھی رہتے ہیں۔ اب اسلام آباد میں جو ترتیب سے بنا شہر ہے یہ سائیکل سوار پولیس کامیاب ہوسکتی ہے۔ دوسرے بے ہنگم شہروں میں البتہ یہ مشکل کام ہوگا۔ ہاں البتہ تفریحی مقامات ،پارکوں اور پوش علاقوں کی سوسائٹیوں میں سائیکل سوار پولیس دستہ ضرور عوام کی دلچسپی کا باعث بن سکتا ہے جو وہاں بد تہذیبی و بدتمیزی کرنے والوں کی خاطرداری کرنے میں معاون ثابت ہوگا…
٭٭٭٭٭
بھارت میں مٹن کڑائی نہ کھلانے پر بارات واپس چلی گئی
لو جی کرلو گل۔ آج تک تو جہیز نہ دینے پر یا کسی اور سبب بارات واپس جاتی تھی مگر مٹن کڑاہی نہ ملنے پر بارات کا واپس جانا حیران کن ہے۔ بھارتی ریاست اوڈیشاکا یہ واقعہ بتا رہا ہے کہ وہاں آباد مسلمانوں میں یہ مسئلہ پیش آیا ہوگا۔ ہندو تو گوشت کھاتے ہی نہیں۔ انہیں کیا معلوم شادی بیاہ میں مٹن کڑاہی، قورمہ، مٹن بریانی، مٹن کوفتوں کا مزہ کیا ہوتا ہے۔ یہ سب ذائقے مسلمانوں کو بخوبی معلوم ہیں جبھی تو شادی بیاہ میں لوگ گوشت پر یوں جھپٹتے ہیں جیسے عقاب بے چارے کبوتر پر۔ اب تو شادی بیاہ کو چھوڑیں قل اور چالیسویں میں بھی فاتحہ خوانی کے بعد مٹن پر ہاتھ صاف کرنا وہ بھی بے رحمی کے ساتھ ثواب گردانا جاتا ہے۔ بھارت میں رہنے والے مسلمان بھی ہماری طرح گوشت کھانے کے شوقین ہیں۔ طرح طرح کے مصالحے دار پکوان ان کی خاص شناخت ہیں۔ نہاری، بریانی اور قورمہ تو وہاں کی مخصوص ڈش ہے۔ ان کی دیکھا دیکھی کئی ہندو اور سکھ بھی مزے مزے سے مٹن کی چانپیں اڑاتے نظر آتے ہیں۔ دال اور سبزی آخر کب تک کھائی جاسکتی ہے۔ بہرحال اب بات اس دولہے کی ہورہی ہے جو صرف اس وجہ سے اپنا گوہر مقصود یعنی دلہن کو چھوڑ کر خالی ہاتھ واپس گیا کہ باراتیوں کی تواضح مٹن کڑائی سے نہیں کی گئی۔ لگتا ہے جلدی وہ وقت آنے والا ہے جب سبزی اور دال خور دولہے بھی بیف بریانی، بیف کباب اور بیف شامی نہ ملنے کی وجہ سے ناراض ہوکر بارات واپس لے جانے لگیں گے…
٭٭٭٭٭
منگل‘ 18 ؍ ذیقعد ‘ 1442ھ‘ 29؍ جون 2021ء
Jun 29, 2021