’حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: بیوہ عورت اور مسکین کے (کاموں) کے لئے کوشش کرنے والا راہِ خدا میں جہاد کرنے والے کی طرح ہے۔حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: وہ اْس قیام کرنے والے کی طرح ہے جو تھکتا نہیں اور اْس روزہ دار کی طرح ہے جو افطار نہیں کرتا۔‘‘ یہ حدیث متفق علیہ ہے۔ مذکورہ الفاظ مسلم کے ہیں۔ حضرت عبد اللہ بن دینار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو حضرت ابو طالب کا یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا:
’’وہ گورے مکھڑے والے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جن کے چہرہ انور کے توسّل سے بارش مانگی جاتی ہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یتیموں کے والی اور بیواؤں کا سہارا ہیں۔‘‘
حضرت عمر بن حمزہ کہتے ہیں کہ حضرت سالم (بن عبد اللہ بن عمر )نے اپنے والد ماجد سے روایت کی کہ کبھی میں شاعر کی اس بات کو یاد کرتا اور کبھی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چہرہ اقدس کو تکتا کہ اس (رخ زیبا) کے توسل سے بارش مانگی جاتی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (ابھی منبر سے) اترنے بھی نہ پاتے کہ سارے پرنالے بہنے لگتے۔ مذکورہ بالا شعر حضرت ابو طالب کا ہے۔‘‘ اِس حدیث کو امام بخاری، ابن ماجہ اور احمد نے روایت کیا ہے۔۔۔۔۔۔۔صاف پانی کی زیر زمین بورنگ کے سلسلے میں شگر بلتستان کے مزید ایک گائوں میں وزٹ کیا۔جہاں بھی اس کار خیر کے لئے جاتے ہیں گاؤں کے مرد عورتیں بچے اکٹھے ہو جاتے ہیں۔ ان کے شکر گزار چہروں پر رب کی احسان مندی کے جذبات ہمیں مزید تقویت پہنچاتے ہیں۔ پہاڑوں کے مکینوں کی زندگی بہت کٹھن ہے مگر ہنستے مسکراتے قناعت پسند چہرے ہماری تمام تھکاوٹ دور کر دیتے ہیں۔گائوں کے پیارے پیارے بچوں میں ایک بچے نے تمام وقت ہماری توجہ اپنی جانب مبذول کئے رکھی۔ ایک بازو میں بیساکھی دبائے لنگڑا تا ہوا وہ بھی بچوں کے ساتھ خاموش کھڑا پر امید نظروں سے ہمیں تک رہا تھا جیسے اسے بھی اس کے گائوں میں صاف پانی کا چشمہ پھوٹنے کی قوی امید ہو۔ آٹھ برس کے لگ بھگ عمر ہو گی اس کی۔ اتنا پیارا بچہ آنکھوں میں عجیب سی اداسی لئے جیسے ہمارے دل میں کھب گیا ہو۔ قریب کھڑے ایک مقامی باشندے نے جب ہمارا اضطراب دیکھا تو بتایا اس بچے کا باپ فوت ہو چکا ہے ، اس کے ساتھ کھڑی لڑکی اس کی بہن ہے ، ماں نے دوسری شادی کر لی ہے ، دونوں یتیموں کو غریب بوڑھے دادا دادی پال رہے ہیں۔ یہ سن کر دل مزید ڈوب گیااور ہم نے آگے بڑھ کر دونوں کو اپنے ساتھ لگا لیا ان کے گھر جانے کی خواہش کی۔ معذور بچہ بیساکھیوں کے سہارے ہمارے آگے چلتا جا رہا تھا یہ جانے بغیر کہ مہمان اس کے گھر کیوں جانا چاہتے ہیں۔ تمام گائوں ہمارے ساتھ چل دیا اور ھم اس کی بوڑھی مسکراتی ہوتی دادی کے پاس جا پہنچے۔ بچہ مسلسل خاموش بس ہمیں تکتا جا رہا تھا۔ اس کی بہن بھی اپنی ننھی اوڑھنی سمیٹے بھائی کے ساتھ کھڑی رہی۔ دادی سے بغلگیر ہوئے مگر اس کی شکر گزار آنکھوں میں دیکھنے کی جسارت نہ تھی۔ رب سے سرگوشی میں کچھ عرض کی اور معذور یتیم عباس اور ننھی بہن کو پیار کر کے لوٹ آئے۔ کتنے ہی دْکھی ضرورتمند گھر خاندان اپنے اگلے کسی وزٹ کے انتظار میں اداس چھوڑ آتے ہیں مگر دل بھی تو ساتھ نہیں لے کر آتے بس خالی وجود لئے لاہور اور پھر نیویارک لوٹ جاتے ہیں۔بدن جہاں بھی لے جائیں روح پہاڑوں سے لوٹنے پر اب راضی نہیں۔ یتیمی کا کرب آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون محسوس کر سکتا ہے۔ قرآن حکیم کی سورۃ البقرہ ہی میں ارشاد ہے’’ (لوگ) آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں) کیا خرچ کریں۔ فرما دیجئے کہ جس قدر بھی مال خرچ کرو (درست ہے) مگر اس کے حق دار تمہارے ماں باپ ہیں اور قریبی رشتے دار ہیں اور یتیم ہیں اور محتاج ہیں اور مسافر ہیں اور جو نیکی بھی تم کرتے ہو، بے شک اللہ اسے خوب جاننے والا ہے۔‘‘ ( سورۃ البقرہ آیت 215)۔ سماجی
بہبود کا بنیادی مقصد معاشرے کے محتاجوں، بے کسوں، معذوروں، بیماروں، بیواؤں‘ یتیموں اور بے سہارا افراد کی دیکھ بھال اور ان کی فلاح وبہبود ہے۔یہ مقصد اسی صورت حاصل ہوسکتا ہے جب ایسے لوگوں کی ضرورت اور معذوروی کا خاتمہ کرکے معاشرے میں دولت وضرورت کے درمیان توازن پیدا کیا جائے۔جو لوگ معاشرے سے غربت وافلاس اور ضرورت واحتیاج دور کرنے کے لئے اپنا مال ودولت خرچ کرتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کے خرچ کو اپنے ذمے قرض حسنہ قرار دیتے ہیں۔ ساتھ ہی اس بات کی بھی ضمانت دیتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں خرچ کیئے گئے مال کو کئی گنا بڑھاکردیاجائے گا۔