معاشرے میں گمراہی ،بے راہ روی ، لاپر واہی اور لا علمی کی وجہ سے حلال اور حرام میں تمیزکا احساس ختم ہو گیا ہے، بے ضمیر اور بے دین افراد معاشرے میںبگاڑ کا سبب ہیں ، انسانی صحت حلال اور پاکیزہ غذائوںکی مرہونِ منت ہے، اسی لئے اللہ تعالیٰ نے انسان کی غذا ء اور اس کی طبیعت کے موافق حلال چیزوں کو کھانے اورپینے کا حکم دیا ہے جو کہ انسانی روح اور جسم کیلئے فائدہ مند ہیں ، اور ایسی چیزیں جو انسان کے جسم و روح کیلئے نقصان دہ اور مضرِ صحت ہیں انہیں حرام قرار دیکر اانکے استعمال اور کھانے پینے سے منع فرمایا ہے ، چند بے دین اور بے ضمیر افراد جو کہ معاشرے کا ناسور اور انسانیت کے نام پر دھبہ ہیں ، معاشرے میں انسانوں کی زندگیوں اور ایمان سے کھلواڑ کرتے ہیں ۔لاہور ہائی کورٹ میں حرام اجزاء ملی کھانے پینے کی اشیاء کی خرید و فروخت کیخلاف سماعت کے دوران عدالت نے سخت برہمی کا اظہار کرتے ہوئے چیئر مین حلال فوڈ اٹھارٹی سے استفسار کیا کہ دیکھیں کیا فروخت ہو رہا ہے ،جب کہ درخواست میں کہا گیا ہے کہ حرام اجزاء ملی کھانے پینے کی اشیاء سرِ عام فروخت ہو رہی ہیں ،جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ معاملہ عام نہیں ہے بہت خطرناک ہے ،ہر پرا ڈکٹس گھر میں جاتی ہیں ، حرام ہیں یا حلال کوئی میکنزم ہی نہیں۔
حرام اشیاء کا سرِعام فروخت انتہائی حساس اورایمان سے متعلق تشویشناک مسئلہ ہے ، جس کو حل کرنے کی ترکیب ترجیحی بنیادوں پر روزِ اول سے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں واضح اور سخت اصولوں پر مرتب ہونی چاہئے تھی ، مگر حیف کہ مردہ مرغیوں، گدھے اور کتوں کے بیوپاری مافیا نے اداروں کو یرغمال بنایا ہوا ہے ، اس مافیا کو پکڑے جانے کے باوجود رہائی بھی مل جاتی ہے اور ان کا مکروہ حرام کا دھندہ جوںکا توں چلتا رہتا ہے، اس مافیا کا قانون کی گرفت سے چھوٹ جانا ایک سوالیہ نشان ہے ،جون 2022 ء کو ہی گوجرخان کے علاقے روات میں محکمہ خوارک اور ڈپٹی کمشنر کے چھاپے کے دوران مقامی ہوٹل کے فریزر سے کتے کا گوشت بر آمد ہوا ، فریزر میں ایسے کیمیکل بھی ملے جو کہ لاشوں کو محفوظ کرنے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں۔کراچی کے علاقے کورنگی کے ایک گودام پر پولیس کے چھاپے کے دوران گدھے اور کتوں کی 800 کھالیں بر آمد کر کے دو ملزمان کو گرفتار کیا گیا تھا ، ملزمان کا گروہ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں گدھے اور کتے کاگوشت ہوٹلوں میں سپلائی کیا کرتا تھا ، اپریل 2017 ء میں بھی پولیس نے کراچی کے علاقہ گلستانِ جوہر کے ایک گودام پر چھاپہ مار کر 4 ہزار سے زائد گدھے کی کھالیں ایک چینی باشندہ اور ایک خاتون سمیت 7 ملزمان کو گرفتار کیا تھا ، ملزمان کی نشان دہی پر ایک اور گودام سے 350 گدھے کی کھالیں بر آمد کیں تھیں، گدھے کی کھالوں سے چین ’’ جیلاٹن ‘‘نامی ایک جز بناتا ہے جو کہ چین کی ہزاروں سال قبل روایتی اور مقبول ترین دوا ’’ ا یجیا ‘‘میں استعمال ہوتاہے یہ دوا نیند لانے ، ٹھنڈ سے بچائو، طاقت اور دیگر امراض میں مفید سمجھی جا تی ہے۔ مئی 2021 ء سوات کے علاقہ سیدوشریف میں ملزم عادل ولد محمد امین کو رنگے ہا تھوں گرفتار کیا تھا جو کہ کتے کے گوشت کا قیمہ بنا کر مینگورہ کے بازار میں دوسرے قصابوں کی معاونت سے بیچا کرتا تھا ، خیبر پختونخواہ میں جنوری 2019ء میں پولیس کے متعدد ہوٹلوں پر چھاپے کے دوران 14 ذبح شدہ کتوںکا گوشت اور 100 کے قریب زندہ کتے ، چھ تیار شدہ کتے کے گوشت کی کڑاہیاں اور بریانی ضبط کیں، پشاور کے متعدد مشہور بازاروں میں مختلف ہوٹل مالکان پانچ سال سے کتے ذبح کر کے مہنگے داموں کتا گوشت بریانی، کتاکڑاہی، دال ماش میں کتے کا گوشت، کتے کا بھناگوشت، کتے کا نمکین گوشت، کتے کے گوشت میں دال چنا ، اور مکس سبزی کتا گوشت کھلا رہے تھے ۔ ایک اسلامی ملک میں حرام اجزاء ملی اشیاء کا سرِ عام فروخت خلاف ِ قانون اور خلافِ شرع ہے،ملک کے پرنٹ میڈیا اور الیکٹرونک میڈیا میں بڑے شد و مد سے ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں جن میں مردہ مر غیوں، کتوں اور گدھوں کے گوشت کو فروخت کرنے کے انکشافات کئے جاتے ہیں ، ایسی خبریں بھی منظرِ عام پر ہیں کہ پنجاب کے کئی شہروں میں محکمہ لائیو سٹاک کے عملے کی معاونت اور ملی بھگت سے بڑے بڑے ہوٹلوں اور شادی حالزمیں مردہ جانوروں کا گوشت سپلائی کیا جاتا ہے ۔ ان تمام عوامل اور ثبوتوں کے ہوتے ہوئے کبھی بھی حکومتی سطح پر اس مافیا کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی ،قانون معاشرے کی ناگزیر ضرورت ہے ، ریاست کی خدو خال زمین، خطے اور معاشرے سے نہیں بلکہ قانون اور نظام ِ حکومت سے وجود میں رہتی ہے ، ریاست کی ذمہ داری میں امن وامان کا قیام، صحت و تعلیم ، سرحدوں کی حفاظت اور عوام کی کفایت کے علاوہ سب سے بڑی ذمہ داری برائی کا خاتمہ سرِ فہرست ہونا چاہئے، معاشرتی بگاڑ کی اصلاح ، حلال و حرام کی روک تھام حکومت کی قانونی اور قرآنی ذمہ داری ہے ، لہذااس زمرے میں ملکی قانون سخت سے سخت ہونے چاہئیں ، چار پانچ سال کی سزا اور چند لاکھ کے جرمانے سے یہ گھنائونا کاروبار ختم نہیں ہو گا ،ان کی سزا بروقت سولی پر چڑھانا ہے۔