تحقیق و تنقید پر اکرم کنجاہی کی کتاب ’’افہام و تفہیم‘‘ 13ویں کتاب ہے جو مئی میں شائع ہوئی۔ کچھ عرصہ سے اکرم کنجاہی کا تنقید و تحقیق پر قلم رواں ہے۔ اس تصنیف میں چھ ابواب ہیں۔ حسنِ افکار، تنقیدی بصیرت، فکشن نگاری، شگفتہ نثر، اختصاریے۔ پہلا تحقیقی مضمون انجمن ترقی پسند مصنفین کے بارے میں ہے۔ بعض احباب ترقی پسندوں کو مذہب کے خلاف سمجھتے ھیں حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اکرم کنجاہی کے مضمون کے آخر میں ترقی پسندوں کے تقدیسی ادب کا ذکر کیا گیا ہے۔ ان میں احمد ندیم قاسمی، جوش ملیح آبادی، عارف عبدالمتین، حمایت علی شاعر، قتیل شفائی، حبیب جالب، ظہیر کاشمیری شامل ہیں۔ ان حضرات سے میری متعدد ملاقاتیں اور مکالمے ہو چکے ھیں۔ صاحب کتاب نے ان کی نعت گوئی کا ذکر کیا ہے۔ انھوں نے لکھا ’’قاسمی صاحب کا کلام نعت خواں حضرات میں مقبول ہے۔ ان کی وہ نعتیں جن میں مسلم امہ کی حالت زار بیان کر کے حضورؐ سے نظرِ کرم کی التجا کی گئی ہے۔ ٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓٓنعت خواں بڑے سوز اور کرب سے پڑھتے ھیں اور سامعین کو بھی تڑپا دیتے ھیں‘‘ محمد علی ظہوری کا دعویٰ تھا کہ احمد ندیم قاسمی سے پہلی نعت انھوں نے لکھوائی جس کا مطلع ہے:۔؎
یوں توہر دور مہکتی ہوئی نیندیں لایا
تیرا پیغام مگر خواب نہ بننے پایا
احمد ندیم قاسمی کو اعظم چشتی بڑا نعت گو سمجھتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ ندیم صاحب نے صرف 28 نعتیں کہی ہیں مگر سوچ سارے زمانے سے الگ ہے۔ ان کا کوئی جواب نہیں۔ قتیل شفائی کے سوشلسٹ نظریات سے میں بخوبی واقف ہوں۔ عمر کے آخری حصے میں وہ نعت گوئی کی طرف رجوع ہوئے۔ انھوں نے عمرہ کی سعادت حاصل کی جس کے بعد ان میں تبدیلی آئی۔ وہ آپ بیتی ’’گھنگرو ٹوٹ گئے‘‘ میں لکھتے ہیں ’’وہاں جا کر ایک حساس انسان اور شاعر پر کیا گزرتی ہے اس کا ایک ردعمل بھی ہونا چاہیے‘‘ ۔ تنقیدی بصیرت میں ذاکر خورشید رضوی، منظر ایوبی، شاعر علی شاعر، سراج الدین ظفر، زخمی کانپوری، ارشد محمود ارشد پر تحریریں ھیں۔ شعری شعور اور لاشعور کے باب میں خالد احمد، بشری فرخ، شاہدہ لطیف، نور الحسن نور، ڈاکٹر اورنگ زیب رہبر، افضل الفت، ڈاکٹر ہارون صدیقی شاہد، شہزاد عالم شہزاد اور قیوم طاہر کی شاعری پر سیر حاصل تبصرہ کیا گیا ہے۔ اختصاریے میں لتا حیا کی شاعری، اعجاز روشن کا (یہ دریا ہے اور کوئی) اور امجد حمید محسن کے سلام و مناقب شامل ہیں۔ ’’افہام و تفہیم‘‘ میں کسی نقاد کی رائے یا دیباچہ شامل نہیں کیا گیا جو اچھی بات ہے کہ قارئین خود ہی بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔ ’’دانش ور طبقہ اور کتاب کی بے توقیری‘‘ کے باب میں وہ لکھتے ہیں۔ ’’ایک زمانہ تھا کہ صاحبان ذوق ہی نہیں، عام لوگ بھی اس صداقت پر یقین رکھتے تھے کہ ہر گھر میں چند کتابیں بک شیلف یا مطالعے کی میز پر ضرور موجود ہوں۔ باذوق صاحبان نے تو گھروں میں کتب خانے قائم کیے ہوئے تھے۔ انکے ذاتی ذخیرے میں ہزاروں کتابیں ہوا کرتی تھیں پھر وقت نے ایسی کروٹ لی کہ گھروں سے کتابیں غائب ہونے لگیں۔ اس صورتِحال کا ذمے دار الیکٹرونک میڈیا کو ٹھہرایا جانے لگا۔ اور حقیقت بھی یہی ہے۔ کسی کے گھر میں کوئی قابلِ ذکر کتاب ہو یا نہ ہو، ریڈیو، سی ڈیز کی لائبریری ضرور ہوتی ہے جس سے پورا کنبہ بھرپور استفادہ کرتا ہے اور اب تو لامحدود ڈیٹا یو ایس بی میںمحفوظ کیا جا سکتا ہے۔
شاہدہ لطیف اسلام آباد میں مقیم ممتاز شاعرہ، رائٹر اور سفرنامہ نگار ہیں۔ وہ ایک سچی اور پاکستانی سوچ رکھتی ہے۔ اکرم کنجاہی لکھتے ہیں۔ معجزہ ایک مشرقی عورت کی آواز ہے جو غریب اور مجبوری کی وجہ سے جاگیردارانہ نظام کی چکی پاٹوں میں پِس رہی ہے۔ وہ اس خوف کی فضا میں سہمی ہوئی عورت کو آزاد دیکھنا چاہتی ہیں مگر یہ آزادی یورپ کے آزادیٔ نسواں کے نظریات سے بالکل مختلف ہے یا آزادی کی حدیں متعین ہیں۔ ’’دہلیزِ مشرق‘‘ ’’جیون ایک پہیلی‘‘ ’’جہیز‘‘ ’’اعتماد‘‘ ’’عزت‘‘ ’’چیخ‘‘ ’’بے نامہ بچہ‘‘ تمام ایسی نظمیں ہیں جو معاشرے میں عورت کی کیفیت کی عکاسی کرتی ہیں۔ سماجی ماحول کا بیان کیسا بھی ہو، انہوں نے شائستگیِ اظہار کے دامن کو ہاتھ سے نہیں جانے دیا جو عورت کی سرشت کا لازمہ ہے۔
اکرم کنجاہی کراچی کی تخلیقی اور تقریری فضا پر چھائے ہوئے ھیں۔ تحقیق و تنقید پر 13 کتب کے علاوہ ان کے چار شعری مجموعے چھپ چکے ھیں۔ کتاب کا نام بھی زبردست رکھا گیا ہے۔ ’’افہام و تفہیم‘‘ یہ فہم سے ہے۔ فہم و ادراک بھی لکھا جاتا ہے۔ فہم کسی چیز کو جان لینا اور دل سے پہچان لینا۔ بعض لوگوں نے علم اور فہم میں یہ فرق کیا ہے کہ علم تو مطلق ادراک (کسی چیز کو جان لینے) کو کہتے ہیں اور فہم کہتے ہیں خارجی اشیاء پر غور کے بعد ذہن کا دوسری چیزوں کی طرف منتقل ہو جانا۔ بعض نے کہا ہے کہ الفاظ سے جو تصور ذہن میں آتا ہے اُسے فہم کہتے ہیں۔
۳۰۳ صفحات پر مشتمل کتاب کی قیمت ۸۰۰ روپے رکھی گئی ہے۔