یکساں نصاب کیلئے کوشاں ہیں ‘زبانوں کے تحفظ پر اقدامات کی ضرورت ہے: مریم اورنگزیب
ملک بھر میں عرصہ دراز سے یکساں تعلیمی نصاب کیلئے زور دیا جا رہا ہے۔ اس کی ضرورت بھی بہت ہے۔ اس سے ایک مستحکم مثبت قومی سوچ پیدا کی جا سکتی ہے۔ ورنہ امر اور غربا سرکاری اور نجی تعلیم کی چھاپ ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑے گی۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ امیروں کے بچوں کے لئے علیحدہ نصاب اور غریبوں کے بچوں کے لئے علیحدہ نصاب کی بک بک سے بھی جان چھوٹ جائے گی سابقہ حکومت نے اس سلسلہ میں کچھ اقدامات اٹھائے تھے۔ موجودہ حکومت اچھے اقدامات کو بھرپور طریقے سے نافذ کرکے پورے ملک میں یکساں تعلیمی نصاب کو یقینی بنائے۔اس بات زبانوں کے تحفظ کی تو اس سے کوئی بھی باشعور انکار نہیں کر سکتا ہر شخص کو اپنی مادری زبان سیکھنے کا حق ہے۔ بچہ بھی اپنی مادری زبان سے مانوس ہوتا ہے جو تاحیات اسکے ذہن میں نقش ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں پنجابی‘ سندھی‘ بلوچی اور پشتو زبانیں بولنے والے جو لوگ اپنی زبان میں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ انہیں حکومت ہر طرح کی سہولتیں دے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں مادری زبان پڑھانے کے انتظامات کئے جائیں۔ ان کی ترویج کے ساتھ تمام صوبوں میں ایک دوسرے کی زبانوں کی تعلیم دی جائے اس طرح قربتیں بڑھیں گی۔ ورنہ اس وقت پاکستان میں بولی جانے والی 80 زبانوں میں سے 28 زبانیں معدومیت کا شکار ہیں۔ ختم ہو رہی ہیں۔ جن کو بچانے کی اشد ضرورت ہے۔ حکومت عالمی اداروں کے ساتھ ملکر ان کے تحفظ کے لئے کام کر سکتی ہے۔ پڑھے لکھے نوجوان بھی اپنی مادری زبان کے بقاء کے لئے اسکی ترویج کے آگے بڑھیں۔
٭٭٭٭
بھارت میں صحافی اور خاتون اینکر مسلمانوں کی حمایت پرگرفتار
یہ ہے سیکولر اور جمہوری بھارت کا اصل چہرہ جس کے مصنوعی جمہوری سیکولرنقاب پر دنیا صدقے واری جاتی ہے۔ اس ظالم ریاست میں جو قتل کرتا ہے وہی الٹا ثواب بھی لیتا ہے۔ جرم کرتا ہے اور بری الذمہ قرار پاتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی مسلمان انصاف کی بات کرتا ہے۔ ظلم کے خلاف آواز بلند کرتا ہے۔ مقتول کی حمایت میں بولتا ہے تو بھارت کے حکمرانوں اور قانون نافذ کرنے والوں کے ساتھ انصاف فراہم کرنے والی عدالتوں کے بھی تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ وہ ان حق پرستوں کی آواز دبانے کیلئے کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کے گلے کاٹنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ اب پچھلے دنوں بی جے پی کے دو بدبخت ممبران نے گستاخانہ جملے کہے جس کے جواب میں بھارتی مسلمانوں نے دینی حمیت کا بھرپور مظاہرہ کرکے ثابت کر دیا کہ وہ ایسی کوئی حرکت قبول نہیں کرینگے۔ اس کے جواب میں کیا ہوا الٹا سینکڑوں مسلمان مظاہرین کو ہی فرقہ واریت پھیلانے اور دہشت گردی کے الزامات لگا کر گرفتار کیا گیا ان کے گھر گرا دیئے۔ اس پر جب وہاں کے انصاف پسند صحافیوں‘ دانشوروں نے شور کیا تو ان میں مسلمان صحافی محمد زبیر اور ایک مسلم خاتون اینکر بھی تھی۔ باقی سب تو بچ گئے مگر یہ دو مسلمان دھر لئے گئے اور ان کے خلاف مقدمات درج کرکے انہیں گرفتارکر لیا۔ اب اسے کیا کہا جا سکتا ہے۔ جہاں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا مظلوم کی حمایت کرنا جرم بن جائے تو وہ معاشرہ جلد تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ ہم نہیں کہتے یہ بات ہزاروں برس پہلے شری کرشن مہا بھارت کی جنگ میں کہہ چکے ہیں۔
٭٭٭٭
بھیرہ میں یونان سے انٹرپول کے ذریعے گرفتار ملزم کی تفتیشی کے کمرے میں ٹک ٹاک
یہ ایک خوبصورت صورتحال ہے جس سے ہمارے ملک میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی بے حسی یا لاپروائی بہتر ظاہر ہوتی ہے۔ ایک ایسا ملزم جسے بڑی تگ و دو کے بعد انٹرپول کی مدد سے یونان سے پکڑ کرکے لایا گیاہے۔ نجانے اسے گرفتار کرنے کیلئے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کتنے پاپڑ بیلے ہونگے جب یہ وی آئی پی قسم کا ملزم گرفتار کرکے تھانے لایا گیاتو اسے حوالات میں رکھا گیا ہے۔ تاکہ اس سے تفتیش کی جا سکے مگر لگتا ہے سجاول نامی یہ زیادتی کا ملزم کچھ زیادہ ہی بااثر ہے۔ اس سے تفتیش کیا کی جاتی الٹا وہ تو نوابوں کی طرح تفتیشی کے کمرے میں بیٹھ کر موج میلہ کرتا رہا۔ ویڈیو یعنی ٹک ٹاک بناتا رہا جو اس نے بعدازاں نہایت شاندار طریقے سے سوشل میڈیا پر وائرل بھی کر دی۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارے ہاں قانون کو موم کی ناک کس طرح بنایا جاتا ہے۔ یہاں قانون کی نہیں طاقت کی حکمرانی ہے۔ جبھی تو جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا محاورہ ہمارے ہاں مقبول عام ہے۔ جہاں قانون انصاف اور محافظ مل کر بھی ملزموں اور مجرموں کے سامنے بے بس ہوں۔ وہاں بھلا قانون کی دیوی کیا کر سکتی ہے۔ جس کی آنکھوں پر و ایسے ہی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ بس فرق یہ ہے کہ پہلے کالی پٹی بندھی تھی۔ اب نوٹوں کی پٹی بندھی ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے قانون کی دیوی کو اپنے ترازو میں جزا و سزا کے وزن کا پتہ ہی نہیں چلتا۔
٭٭٭٭
5 منٹ میں ڈیڑھ سو میزائل برسا کر صہیونی حکومت کو تباہ کر دینگے: حماس
شاید اسی ڈر سے اسرائیلی فوجیوں میں خودکشی کا رحجان بڑھ رہا ہے کہ اگر حماس نے ایسا کیا تو کیا ہوگا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارتی فوجیوں کا مورال جس طرح گر رہا ہے اسکی وجہ سے وہاں آئے روز بھارتی فوجیوں کی خودکشی کا کوئی نہ کوئی واقعہ سامنے آتا ہے۔ جب انسان دل و دماغ کے برعکس جبری حالات میں بے رحمانہ طریقے سے انسانوں کومارتا ہے تو قاتل کے ضمیر پر اسکا بوجھ پڑتا ہے جو بالآخر اس اذیت سے تنگ آ کر خودکشی کی طرف مائل ہوتا ہے۔ بہرحال آتے ہیں اصل موضوع کی طرف حماس تحریک آزادی فلسطین کا ایک دلیرانہ باب ہے۔ ایک ایسی تنظیم ہے جس نے یاسر عرفات مرحوم کی پی ایل او کے بعد تحریک آزادی کو سنبھالا دیا اور مسلح جدوجہد کی انمٹ داستانیں رقم کیں۔ حماس کے سینکڑوں مسلح جوانوں نے اپنے لہو سے فلسطین کی آزادی کی تحریک کو نیا رنگ دیا۔ اب بھی حماس کی طرف سے 5 منٹ میں ڈیڑھ سو میزائلوں کی بارش کرکے اسرائیل کو نیست و نابود کرنے کا عزم ا س بات کا غماض ہے کہ
خون اسرائیل آ جاتا ہے آخر جوش میں
توڑ دیتا ہے کوئی موسیؑ طلسم سامری
آزاد فلسطین ریاست کے قیام اور مسجد الاقصیٰ بیت المقدس کی بازیابی تک فلسطینی آرام سے نہیں بیٹھیں گے۔ خدا کرے علاقے کی دیگر عرب مسلمان ریاستیں بھی اس کار خیر میں ان پر جوش فلسطینیوں کے دست و بازو بن کر بیت المقدس اور فلسطین کی آزادی کو ممکن بنائیں۔
بدھ ،29 ذیقعد 1443ھ،29 جون 2022 ء
Jun 29, 2022