اللہ تبارک و تعالیٰ سچائیوں کا امین ہے، قرآن پاک کی سورہ الحجرات میں اسکے بیان کردہ احکامات ایک جگہ کچھ یوں ہیں ‘‘ اے ایمان والو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے ، تو اچھی طرح تحقیق کر لیا کرو ،کہیں ایسا نہ ہو کہ تم نادانی سے کچھ لوگوں کو نْقصان پہنچا بیٹھو،اور پھر اپنے کئے پر پچھتاؤ’’۔ قارئین شائد یہی وجہ ہے کہ یہ خاکسار جب بھی اپنے کالموں میں کوئی بات کرتا ہے تو جب تک اس بارے وہ مکمل تحقیق نہ کر لے اور اس بارے ٹھوس ثبوت حاصل نہ کر لے وہ کبھی بھی ہوا میں گرہ نہیں لگاتا جس کی دوسری بنیادی وجہ شائد وہ ذہنی تربیت بھی ہے جو اس ادارے کے سربراہ مرحوم مجید نظامی نے اپنے کارکنوں کی فرمائی ہے۔
اب ان حقائق کی طرف چلتے ہیں کہ یہ فیٹف کی گرے لسٹ کی کہانی کہاں سے اور کیسے شروع ہوتی ہے اور اسکے خاتمے میں حصہ لینے والے اصل مجاہدین کون ہیں۔ ایف اے ٹی ایف (فیٹف) فنانشل ایکشن ٹاسک فورس دراصل دنیا میں مالیاتی جرائم پر نظر رکھنے والی ایک عالمی واچ ڈاگ تنظیم ہے جسکا وجود 1989ء میں پیرس میں ہونے والی جی سیون ممالک تنظیم کے ایک اجلاس کے بعد عمل میں آیا اور جس کا بنیادی مقصد غلط ذرائع سے کمائی منی لانڈرنگ وغیرہ پر نظر رکھنا تھا۔ نائن الیون کے واقعہ کے بعد امریکہ کے دباؤ پر ٹیرر فنانسنگ کی ٹرم کے تحت معاملات بھی اس فورس کے دائرہ اختیار میں لائے گئے۔ فیٹف کی گورننگ باڈی اس وقت 39 ممالک پر مشتمل ہے جسے پلینری(plenary) کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ گلوبل نیٹ ورکنگ کے تحت 206 ممالک اور مختلف تنظیمیں جن میں ورلڈ بینک، اقوام متحدہ کے کچھ ذیلی ادارے اور کچھ ریجنل ڈویلپمینٹ بینک بھی شامل ہیں انکے نمائندے فیٹف کے اجلاسوں میں شرکت کرتے ہیں۔ فیٹف کا بنیادی کام رکن ممالک کیلئے ایسے سٹینڈرڈ تجویز کرنا ہوتا ہے جن میں منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کے خلاف اٹھائے جانے والے اقدامات شامل ہوتے ہیں جبکہ فیٹف سال میں تین دفعہ اپنے اجلاس منعقد کرتی اور معاملات کا جائزہ لیتی ہے۔ اب آتے ہیں کہ یہ گرے لسٹ اور بلیک لسٹ کیا ہے ، گرے لسٹ میں شامل ممالک کو تنبیہہ اور تجویز دی جاتی ہے کہ کون کون سے ایریاز میں انہیں کیا کیاْاقدامات اْٹھانے چاہئیں جس کی وجہ سے انہیں اس سیاہ دھبے کو ماتھے کا جھومر بننے سے نجات مل سکے اور وہ معاشی پابندیوں سے بچ سکیں جبکہ بلیک لسٹ میں شامل ممالک پر عالمی پابندیاں لگ جاتی ہیں۔ اس وقت دنیا میں پاکستان سمیت 23 ممالک گرے لسٹ جبکہ ایران اور شمالی کوریا بلیک لسٹ میں شامل ہیں۔
یہ پہلی دفعہ نہیں کہ پاکستان کو فیٹف کی گرے لسٹ میں ہونے کے دھبے کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ 2008ء کی بات ہے جب پاکستان کو پہلی دفعہ فیٹف کی گرے لسٹ میں شامل کیا گیا۔ 2009ء میںملک میں پیپلز پارٹی کی زیر قیادت سیاسی حکومت نے اس معاملے پر منی لانڈرنگ اور ٹیرر فنانسنگ کو روکنے کے لیے ایشیا پیسیفک گروپ کے ساتھ کام کرنے کا آغاز کیا اور غالباً یہ 2015ء کی بات ہے جب اس ملک میں نون لیگ کی حکومت تھی کہ پاکستان فیٹف کی گرے لسٹ سے نکلنے میں کامیاب ہو گیا لیکن اسے بدقسمتی ہی کہہ سکتے ہیں کہ 2018ء میں ایک دفعہ پھر پاکستان کو اس گرے لسٹ میںشامل کر لیا گیا۔ یہ 2019ء کی بات ہے پاکستان کے ہاتھ میں ستائیس نکات پر مشتمل ایک لسٹ تھمائی جاتی ہے اور اسے اس پر عمل کرنے کے لیے کہا جاتا ہے جس کے جواب میں ذمہ داران سیاسی قیادت کے تحت چلنے والی حکومت کی انتظامی صلاحیت کو جانتے ہوئے جی ایچ کیو میں ایک کور سیل قائم کرتے ہیں جو تمام مالیاتی اور انتظامی اداروں کو ایک پیج پر اکٹھا کرتا ہے اور اس سلسلے میں اپنا کام شروع کرتا ہے لیکن یہاں ذمہ دار ادارہ سمجھتا ہے کہ انتظامی کے ساتھ سفارتی محاذ کا بھی اس مشکل سے نکلنے کے لیے متحرک ہونا بہت ضروری ہے۔ اپنی ججمنٹ کے مطابق ادارہ یہاں لندن کے سفارتخانہ میں اس وقت کے ڈپٹی ہائی کمشنر زاہد حفیظ چوہدری جو اس وقت آسٹریلیا میں ہائی کمشنر ہیں انہیں اور جناب غلام نبی میمن موجودہ آئی جی سندھ جو اس وقت سفارتخانہ میں کوآرڈینیشن منسٹر کے طور پر کام کر رہے تھے انہیں اس سلسلے میں لابنگ کی ذمہ داریوں کا اہل سمجھتا ہے اور انہیں ڈیوٹی پر لگا دیتا ہے۔ یہ دونوں اشخاص اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تین سماجی شخصیات میاں سلیم ،، نعیم نقشبندی اور مشتاق لاشاری کو انگیج کرتے ہیں جو اس وقت کے ریڈنگ سے منتخب ممبر پارلیمنٹ Matt Rodda کو اعتماد میں لیتے ہیں اور اسے بتاتے ہیں کہ کس طرح پاکستان مخالف بھارت اپنی ازلی دشمنی کا ثبوت دیتے ہوئے اور کشمیر کاز سے عالمی توجہ ہٹانے کے لیے پاکستان کے لیے مشکلات کھڑی کر رہا ہے اور پاکستان کا اس سلسلے میں کیا مثبت کردار ہے۔ مذکورہ ممبر پارلیمنٹ اور ان پانچ دوسرے مجاہدین پرمشتمل وفد اس وقت کی ساؤتھ ایشیا کے لیے لیبر پارٹی کی شیڈو منسٹر Liz Mcllnes سے ملاقات کرتا ہے اور اسے اس بات پر آمادہ کرتا ہے کہ وہ یورپی یونین میں پاکستان کی آواز بنے اور اسے گرے لسٹ سے بلیک لسٹ میں جانے سے بچائے جو اپنا فریضہ بخوبی ادا کرتے ہوئے سنہری حروف میں بطور پاکستان کے محسن تاریخ میں اپنا نام کندہ کرتی ہیں۔ بات صرف اس ایک سفارتی کوشش تک محدود نہیں رہتی، یہاں پر اس کارواں میں لارڈ قربان، راجہ یاسین، فرح ناز، افضل خان، اور سب سے بڑھ کر سٹیو بیکر ممبرز پارلیمنٹ سمیت اور بہت سی سماجی شخصیتیں اور تنظیمیں بھی اپنے تئیں اس سلسلے میں لابنگ میں اپنا اپنا حصہ ڈالتی ہیں لیکن اس ساری برات کا ایک اور دولہا بھی ہے جس کا اگر ذکر نہ کیا گیا تو کہانی ادھوری رہ جائے گی اور وہ شخص ہے ڈاکٹر اسرار حْسین جو اس وقت وزارت خارجہ میں بطور ایڈیشنل سیکرٹری ڈیسک انچارج یورپی یونین اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ پچھلے تین ماہ کے دوران پورے یورپ میں اس شخص نے کس کس متعلقہ فورم اور شخص سے اس سلسلے میں لابنگ کی۔یہ سب یا تو خدا جانتا ہے یا متعلقہ ادارے۔ میرے ملک میرے وطن کی عظمت کے لیے کام کرنے والے اس ہیرو اور باقی مجاہدو آپ کو اس خاکسار اور پوری قوم کا سلامِ عقیدت۔
قوم کے مجاہدو تمہیں سلام !
Jun 29, 2022