رفیعہ ناہید اکرام
ہائر ایجوکیشن کیلئے جی ڈی پی کا 10 فیصد بجٹ مختص کیا جائے
وائس چانسلر لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا سے خصوصی گفتگو
قوم کے بچوں پر سرمایہ لگائیں گے تو دس بیس سال بعد زبردست ریٹرن ملے گا
جب تک انڈسٹری کا اکیڈمیا کے ساتھ قریبی تعلق استوا ر نہیں ہوگامطلوبہ نتائج کا حصول آسان نہیں ہے
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی صوبے کی خواتین کو ہائر ایجوکیشن کی روشنی سے منور کرنے میں انتہائی اہم کردار ادا کررہی ہے ۔ یہاں سے فارغ التحصیل طالبات آج قومی و بین الاقوامی سطح پرمختلف شعبہ ہائے زندگی میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہی ہیں۔ سال رواں میں اس ادارے کے قیام کو 100 سال مکمل ہوگئے ہیں اور اس حوالے سے صد سالہ تقریبات بھی کئی روز تک جاری رہیں ۔ 100 سال مکمل ہونے پر یادگاری ٹکٹ جاری کیا گیا،وائس چانسلر ڈاکٹر بشریٰ مرزا نے فیکلٹی اور ایلومینائی کے ہمراہ کیک کاٹااور اساتذہ اور طالبات کو مبارک باد پیش کی۔ لاہور کالج برائے خواتین کو 1922 میں ہال روڈ کی ایک چھوٹی سی عمارت میں قائم کیا گیا تھا ، فارغ التحصیل طالبات میںمسلم لیگ ن کی مرکزی رہنما مریم نواز امیتابھ بچن کی والدہ تیجی بچن، پرویز مشرف کی والدہ زریں مشرف، سابق وفاقی وزیرانوشہ رحمان،تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر یاسمین راشد، اداکارہ بشریٰ انصاری، کنیئرڈ کالج کی پرنسپل پروفیسررخسانہ ڈیوڈ،انقلابی شاعرفیض احمد فیض کی صاحبزادی سابق صوبائی وزیرسلیمہ ہاشمی،دانشور ڈاکٹر عارفہ سیدہ، اداکارہ صبا حمیداورروبینہ اشرف سمیت نامور سیاسی، سماجی و ادبی خواتین شامل ہیں۔
لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کی وائس چانسلرپروفیسرڈاکٹر بشریٰ مرزا نے اپنی ایم ایس سی اور ایم فل کی دونوں ڈگریاں قائداعظم یونیورسٹی سے امتیاز کے ساتھ حاصل کیں۔ کیمبرج کامن ویلتھ اسکالرشپ پر کیمبرج یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کرنے کے بعد انہوں نے یونیورسٹی آف نارتھ کیرولینا USA سے پوسٹ ڈاک کیا۔ 2019 میں لاہور کالج ویمن یونیورسٹی میں بطور وائس چانسلر تعیناتی سے پہلے وہ 1999 سے 2019 تک قائداعظم یونیورسٹی کی مستقل فیکلٹی ممبر رہیں۔ اس عرصے کے دوران انہوں نے کئی تحقیقی منصوبوں پر کام کیا۔ انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی میں ٹرانسجینک پودوں کی تیاری کے لیے ایک ریسرچ لیبارٹری کے قیام کا آغاز کیا۔ انکی تحقیقی دلچسپیوں میں حیاتیاتی تنوع اور مختلف پودوں کی طبی سرگرمیوں کا جائزہ اور بہتری کے لیے ان کی جینیاتی تبدیلی شامل ہے۔ مزید برآںوہ نئے ترکیب شدہ مرکبات کی دواؤں کی سرگرمیوں کا تجزیہ کرنے میں بھی شامل رہی ہیں۔ ان کی نگرانی میں اٹھائیس پی ایچ ڈی اور 133 ایم فل طلباء نے اپنا تحقیقی کام کامیابی سے مکمل کیا ہے۔ وہ بین الاقوامی شہرت کے ریفریڈ جرنلز میں 200 سے زیادہ مقالے شائع کر چکی ہیں۔ قدرتی مرکبات کی شناخت اور دواؤں کی صلاحیت پر مبنی متعدد پیٹنٹ درخواستیں جمع کرائی گئی ہیں۔ مزید یہ کہ ان کی تحقیقی ٹیم نے کئی دواؤں کے پودوں کی جینوم ترتیب ڈی این اے سیکوینس ڈیٹا بیس میں جمع کرائی ہے۔ 2013 میںانہیں ISESCO ویمن سائنس چیئر کے اعزازی عہدے سے نوازا گیا۔ وہ UNESCO-IFAP نیشنل کمیٹی، گلوبل بائیو ڈائیورسٹی اینڈ ہیلتھ بگ ڈیٹا الائنس جیسے کئی بین الاقوامی فورمز کی رکن اور ترقی پذیر دنیا کی خواتین سائنسدانوں کی تنظیم (OWSD) کے نیشنل چیپٹر کی ایگزیکٹو ممبر ہیں۔ ان کی تحقیقی کامیابیوں کے اعتراف کے طور پر انہیں ہائر ایجوکیشن کمیشن پاکستان کی جانب سے بہترین نوجوان ریسرچ اسکالر ایوارڈ (2006)، پاکستان اکیڈمی آف سائنسز کی جانب سے سال 2008 میں بائیو کیمسٹری کے لیے گولڈ میڈل اور پروفیسر اے آر شکوری گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ 2010 میں زوالوجی سوسائٹی آف پاکستان، ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے بہترین ریسرچ پیپر ایوارڈ اور اگست 2016 میں صدارتی ایوارڈ تمغہ امتیاز سے نوازا گیا۔ گزشتہ دنوں انکی نوائے وقت سے ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
تعلیمی بجٹ کے حوالے سے سوال کا جواب دیتے ہوئے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر بشریٰ مرزا نے کہاکہ تعلیم کے شعبہ پر خرچ کرنا ایک سرمایہ کاری ہے یہ خرچہ نہیں ہے ، حکومت پرائمری سیکنڈری ہائر ایجوکیشن کیلئے جتنابھی زیادہ سے زیادہ بجٹ مختص کرسکے ضرور کرنا چاہئے کیونکہ اگر قوم کے بچوں پر پیسہ لگائیں گے تو دس بیس سال بعد زبردست ریٹرن ملے گا باقی ترقی یافتہ ممالک نے اسی طرح کیا اور آج وہ بہت آگے نکل چکے ہیں، صرف ہائر ایجوکیشن کیلئے جی ڈی پی کا 10 فیصد بجٹ مختص کیا جائے۔
ڈاکٹر بشریٰ مرزا نے ورچوئل یونیورسٹی کے اشتراک سے بلینڈڈ ڈگری پروگرام کے حوالے سے سوال پر بتایا کہ یہ پروگرام صوبے میں خواتین کی اعلیٰ تعلیم کے حوالے سے گیم چینجر ثابت ہوگا اس پروگرام کے تحت طالبات اپنے کسی بھی وجہ سے چھٹ جانے والے کریڈٹس مکمل کرکے ڈگری حاصل کرسکتی ہیں۔ انہوںنے کہا کہ چار سال کا بی ایس پروگرام لڑکیوں کیلئے ایک بہت لانگ ٹرم کمٹمنٹ ہے ، روایتی خاندانوں میں بچیوں کی اسی عمر میں شادیاں کردی جاتی ہیں اور تعلیم ادھوری رہ جاتی ہے اور وہ انٹرمیڈیٹ کی سطح پر ہی کھڑی رہ جاتی ہیںہم نے ورچوئل یونیورسٹی کے ساتھ ایم اویو سائن کیا ہے جس کے نتیجے میں اب اگر ہماری کوئی طالبہ چوتھے پانچویںچھٹے یا ساتویں سمسٹر میں کسی بھی وجہ سے تعلیمی سلسلہ جاری نہیں رہ سکتی تو باقی ماندہ کریڈٹس جو رہ جائیںگے وہ جہاں بھی ہوگی وہ وہاں پر ورچوئل یونیورسٹی کی مدد سے پڑ ھ سکتی ہے ہم اسے ڈگری دے دیں گے۔ جدید دور میں طالبات کیلئے سائنس کی تعلیم کے مواقع کے حوالے سے سوال پر انہوں نے کہا کہ بلاشبہ سائنس کی تعلیم خواتین کیلئے بہترین معاشی مواقع کے حصول کی ضامن ہوسکتی ہے اس لئے سائنس کی تعلیم میں طالبات کی حوصلہ افزائی بہت ضروری ہے دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ معاشرتی سطح پرسائنس کی تعلیم کے حوالے سے طالبات کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے کہ وہاں پرزیادہ دیر تک پریکٹیکل کرنے کیلئے رکنا پڑے گا بس آسان سی ڈگری کرو اور واپس گھر آؤشادی ہو اور بات ختم۔مگر ایسا نہیں ہونا چاہئے معاشرے کو اس حوالے سے مل کر مثبت کردار ادا کرنا ہوگاکیونکہ جتنی زیادہ خواتین آئیں گی اتنے ہی دوسری خواتین کیلئے مواقع پیدا ہوں گے اگر والدین بچیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے انہیں سائنس اورٹیکنالوجی کی تعلیم دیں گے اور ہم اپنی سطح پرتعلیمی اداروں کا ماحول ایسا بنائیں گے کہ انہیں رکنے میں کوئی مسئلہ نہ ہوتواس سے انہیں بہتر جابز کے مواقع ملیں گے۔
پاکستانی یونیورسٹیوں میں ہونے ریسرچز کے حوالے سے سوال پر ڈاکٹر بشریٰ مرزانے کہا کہ یونیورسٹیوں کی ریسرچز کو ملکی ضروریات اور انڈسٹری کے مطابق ہونا چاہئے اس کے لئے اکیڈیماانڈسٹریل لنکجز پر فوکس کی بہت ضرورت ہے، ہمارا اورک ڈیپارٹمنٹ اس حوالے سے کافی کام کررہاہے اس سے طالبات کیلئے جابزکے مواقع کا بھی پتہ چلتا ہے جو اچھی بات ہے تاہم انہوںنے کہا کہ بدقسمتی سے ہماری انڈسٹری کے اپنے اتنے مسائل ہیں کہ ان کیلئے انسٹی ٹیوشنز کو ریسرچ کے حوالے سے سپورٹ کرنے کا مسئلہ ہی رہتا ہے دراصل انڈسٹری میں ریسرچ نہیں ہورہی ہوتی کہ انہیں ریسرچ پراجیکٹس کے ساتھ لنک کیا جاسکے لیکن ایچ ای سی کا ٹیکنالوجی ٹرانسفر پروگرام ہے اس میں کچھ پراجیکٹس فنڈ ہوتے ہیں جو ہمارے کچھ فیکلٹی ممبران نے حاصل بھی کئے ہیںتاہم اس صورتحال میں بہت بہتری کی گنجائش ہے۔ انہوںنے کہا کہ جب تک انڈسٹری کا اکیڈمیا کے ساتھ قریبی تعلق استوا ر نہیں ہوگامطلوبہ نتائج کا حصول آسان نہیں ہے۔
خواتین کے لئے سیاست سمیت مختلف شعبوں میں کوٹہ کے حوالے سے سوال پر انہوںنے کہا کہ میں خواتین کیلئے کسی کوٹہ سسٹم کی قائل نہیں ہوں خواتین کو ہر میدان میں مقابلہ کرکے اپنی حیثیت کو منوانا چاہئے ۔
کالج سے یونیورسٹی تک کے سفرکے حوالے سے سوال پرانہوںنے بتایاکہ کالج اور یونیورسٹی کے ماحول میں بہت فرق ہوتا ہے مگر اس کلچر کو تبدیل کرنا آسان بھی نہیں ہوتا ،بلاشبہ شروع میں مسائل کا سامنا کرنا پڑاجیسے کہ کالج میں یونیورسٹی کی طرح ریسرچ والا کلچر نہیں تھا ، اساتذہ بھی کالج والے ہی تھے مگر اب چیزیں کافی بہتر ہوگئی ہیں فیکلٹی پی ایچ ڈی ہولڈر ہے یا اسکے قریب ترہے پی ایچ ڈی کرلی یا کررہی ہے جس سے ماحول میں بہت فرق آیا ہے۔اب نئے لوگ بھی شامل ہوگئے ہیںساتھ ہی پہلے والوں نے بھی یونیورسٹی کے طور پر ایک سفر طے کیا ہے یعنی اپنی تعلیم کو امپروو کرنے کے علاوہ یونیورسٹی کو عالمی سطح پر مقام بنانے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
یونیورسٹی کی رینکنگ کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی کو ٹائمز ہائر ائجوکیشن امپیکٹ رینکنگ 2022 میں دنیا کی بہترین 301-400 یونیورسٹیز میں شامل کیا گیا ہے، ٹائمز ہائر ایجوکیشن رینکنگ کے مطابق لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی نے پاکستان کی سرکاری و نجی جامعات مین تیسری پوزیشن حاصل کی جبکہ لاہور کالج برائے یونیورسٹی ملک بھر کی خواتین کی جامعات میں پہلے نمبر پر رہی۔انہوں نے بتایا کہ لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی نے 2022 میں آٹھ پائیدار ترقیاتی اہداف میں حصہ لیا۔