کراچی (اسپورٹس رپورٹر)سابق ٹیسٹ کرکٹر عاقب جاوید نے کہا ہے کہ ڈراپ ان پچز کا آئیڈیا شروع دن سے فضول قرار دیا تھا ،اب ڈراپ ان پچز کی بجائے آسٹریلیا سے مٹی منگوانے کی بات ہو رہی ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ آسٹریلیا سے مٹی منگوانے کا بھی زیادہ فائدہ نہیں ہو گا، یہ لمبا عرصہ کارآمد نہیں ہے، مٹی کو باربار منگواتے رہنا پڑے گا، یہ نہیں ہے کہ ایک بار مٹی منگوا لی تو وہ سالہا سال چلے گی اور موسم کا بھی مٹی پر اثر پڑتا ہے۔ ڈراپ ان پچز وہاں استعمال کی جاتی ہیں جہاں سردیوں اور گرمیوں دونوں موسم میں الگ الگ سپورٹس ہو، آسٹریلیا، نیوزی لینڈ اور جنوبی افریقہ میں چھ چھ ماہ الگ الگ کھیل ہوتے ہیں، وہاں کی سردیوں میں رگبی اور فٹ بال جبکہ ان کی گرمیوں میں کرکٹ ہوتی ہے۔ پاکستان میں ایک گرائونڈ میں 6 ماہ صرف کرکٹ ہوتی ہے، اس لیے یہاں ڈراپ ان پچز کا آئیڈیا کامیاب ہو ہی نہیں سکتا۔ ٹی ٹونٹی فارمیٹ کا انڈر 19 ٹورنامنٹ پی ایس ایل کی طرز پر کرانے کی کوشش کی جارہی ہے، لیگ کرانے کا مقصد پراڈکٹ کو بیچ کر منافع کمانا اور ڈویلپمنٹ پر لگانا ہے تاہم سوچنے کی بات یہ ہے کہ انڈر 19 لیگ کون دیکھے گا اور یہ لیگ کیسے کامیاب ہو گی۔ ایک طرف چیئرمین رمیز راجا کہتے ہیں کہ پی ایس ایل میں بڑے نام آنے چاہئیں تاکہ زیادہ مقبول ہو لیکن انڈر 19 لیگ میں تو بڑے نام نہیں ہوں گے تو کیسے کامیاب ہو گی اور کیسے پیسہ آئے گا، لیگز میں لوگ بابر اعظم، شاہین شاہ آفریدی، فخر زمان اور باہر سے آنے والوں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔
میرے خیال میں انڈر 19 لیگ کی بجائے پی ایس ایل فرنچائزز کو کہیں کہ وہ ڈویلپمنٹ سکواڈز بنائیں۔ کرکٹ کی ڈویلپمنٹ دنیا بھر میں ایج گروپ میں طویل دورانیہ کی کرکٹ سے کی جاتی ہے، بھارت اور سری لنکا کے بیٹرز اس لیے اچھے آتے ہیں کہ وہاں سکول کرکٹ تین روزہ ہے، نوجوانوں میں مہارت کو پختہ کرنے کیلئے طویل دورانیہ کی کرکٹ درکار ہے۔بھارت کے پاس پیسہ ہے اور وہ پیسے کیساتھ معاملات بھی کنٹرول کریگا، ماضی میں انگلینڈ اور آسٹریلیا معاملات کنٹرول کرتے تھے اب بھارت کریگا، بھارت کو اپنی لیگ کی مدت بڑھانے سے کوئی نہیں روکے گا لیکن انٹرنیشنل کرکٹ کیلئے اچھا نہیں ہوگا۔ بھارت اتنے پیسے دے دیتا ہے کہ انٹرنیشنل کھلاڑیوں کی باقی لیگز میں دلچسپی ہی نہیں ہوتی وہ دوسری لیگز میں آتے ہیں وقت گزارتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔مجھے دبئی میں ہونے والی لیگ سے بھی بڑا خطرہ نظر آ رہا ہے، دبئی کی لیگ میں بھی بھارتی سرمایہ کار ہیں، ہمیں سوچنا ہو گا ہم نے پی ایس ایل کو کیسے محفوظ بنانا ہے، اپنی لیگ جو ابھی سانسیں لینا شروع ہوئی ہے یہ سوچیں ہم نے اسے کیسے آگے لے کر چلنا ہے۔