جان عالم پنجرے میں 

Jun 29, 2023

عبداللہ طارق سہیل

ایک اور بڑی عید آ گئی۔ کس نے کتنی عیدیں منانی ہیں‘ یہ فیصلہ کاتب تقدیر لکھتا ہے۔ کون قربانی کر سکے گا‘ کون صرف ترس کر رہ جائے گا‘ یہ فیصلہ ہماری ریاست کرتی ہے۔
سال بہ سال قربانی کرنے والوں کی فہرست سکڑتی جاتی ہے۔ اتنے اچھے حالوں میں تو ہم پہلے بھی کہاں تھے۔ لیکن اشرافیہ کے ”آئیکون“ پرویز مشرف اور پھر اشرافیہ کے اس سے بھی بڑے ”آئیکون“ انصاف خاں نے جو کچھ کیا‘ اس نے ملک کے پلے کچھ چھوڑا نہ ملک والوںکے۔ ایک طبقہ اشراف ہے جس کے گھروں میں پڑی ان گنت فرجیں ہر قربانی پر گوشت سے بھر جاتی ہیں۔ یہ لوگ ان گنت بکرے بیل قربان کرتے ہیں‘ ان کا گوشت کچھ تو فوری طور پر ان کے پیٹ میں اتر جاتا ہے‘ باقی فریجوں میں پہنچ جاتا ہے۔ سارا سال بنا قربانی کے بھی جم کر گوشت کھانے والا طبقہ قربانی پر اور بھی جم کر کھاتا ہے۔ غریب کی مدد کرنے کا ”گھنا¶نا“ خیال بھی ان کے دل میں نہیں آتا۔ پوچھو تو یہی کہیں گے کہ اتنی زیادہ قربانیاں راہ خدا میں کی ہیں۔ شکم کا نام انہوں نے خدا رکھ دیا ہے اور کوئی ابھی یہاں نہیں کہ دیکھ کر رو پڑے۔
 عید ہو یا بکرا عید یا کوئی اور قومی تہوار‘ سیاسی یا سماجی‘ محروم طبقے کو اس کی محرومیوں کا احساس بڑھانے کے سوا کچھ نہیں کرتا۔ محروم طبقے کی آبادی بھی بڑھ رہی ہے اور اس کی محرومیوں کی فہرست بھی۔ دیکھئے یہ سلسلہ کب تک چلتا ہے۔
______________
عزت مآب شہزادہ جان عالم نے فرمایا ہے کہ ہم پر بغاوت کا الزام غلط ہے۔ آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس کے جواب میں ارشاد ہوا‘ دیکھا جائے ‘بغاوت کا فائدہ کسے ہوا۔ ہم نے کی ہوتی تو فائدہ ہمیں ہوتا۔ ہمیں تو نقصان ہی نقصان ہوا۔ 
منفرد استدلال ہے بلکہ یکتا اور لاثانی۔ اس طرح کے استدلال کو کیا کہتے ہیں‘ اہل علم بھی واقف ہیں کہ پہلی بار اس طرح کی دلیل دی گئی ہے۔
بغاوت جب ناکام ہوتی ہے تو گھاٹا باغیوں ہی کے حصے میں آتا ہے۔ بغاوت کامیاب ہو جائے تو اسے بغاوت نہیں انقلاب کہا جاتا ہے۔ شہزادہ صاحب بغاوت آپ نے کی‘ ناکام ہو گئی بلکہ بری طرح ناکام ہو گئی تو عذاب میں آپ ہی کی جان آنی تھی جان عالم صاحب
______________
قوم سے روزانہ کے خطاب میں (جسے سننے والوں کی تعداد خزاں کے پھولوں کی طرح کم سے کم ہوتی چلی جاتی ہے‘ جان عالم نے ایک اور چھکا رسید فرمایا ہے۔ نریندر مودی کی ایک تقریر کا حوالہ دیا ہے بلکہ اس کا کلپ بھی چلایا ہے۔ اس میں مودی یہ ہرزہ سرائی کر رہا ہے کہ پاکستان کو چھوڑو‘ وہ اپنی موت آپ مر رہا ہے۔ کلپ دکھانے کے بعد جان عالم نے بڑی ”معصومیت“ کے ساتھ سوال کیا کہ دیکھو‘ اس امپورٹڈ سرکار نے ملک کی یہ حالت کر دی کہ مودی ایسی باتیں کر رہا ہے۔ بتا¶‘ ہمارے دورِ حکومت میں مودی نے ایسی بات کہنے کی جرات کبھی کی۔  
جی جان عالم‘ مودی نے یہ جرات آپ ہی کے دور حکومت میں کی۔ 19 مئی 2019 ءکو انہوں نے یہ خطاب کیا اور اسی مہینے دوسری بار پھر یہی بات کی۔
جو کلپ آپ نے چلایا ہے وہ آپ ہی کے دور حکومت کا ہے‘ اس سال یا اس سے پچھلے سال کا نہیں ہے۔ پاکستان پھر سے اٹھ کر کھڑاہونے کی کامیاب کوشش میں ہے اس لئے مودی اب ایسی بات کر ہی نہیں سکتا۔ 
مزے کی بات ہے کہ جان عالم کو بھی پتہ ہے کہ مودی نے یہ خرافات جان عالم ہی کے دور میں کی اور جان عالم کو یہ بھی پتہ ہے کہ اس بات کا باقی سب لوگوں کو بھی پتہ ہے۔ پھر بھی اس نے یہ بات کی تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ 
چھٹتی نہیں ہے منہ کویہ کافر لگی ہوئی
زیرنظر مصرعے میں ”کافر“ سے مراد غلط بیانی کی ہے جس کا مزا ہی کچھ اور ہے۔
______________
خطاب سے دو روز پہلے بھی سوال انہوں نے ایک ٹویٹ میں کیا تھا۔ قبلہ سراج الحق جن کے بارے میں مشہور ہے کہ جان عالم جو بیان دیتے یا خطاب کرتے ہیں‘ وہی بیان یا خطاب اگلے روز آپ بھی دہرا دیتے ہیں چنانچہ جیسے ہی جان عالم کا ٹویٹ آیا‘ ایک گھنٹے سے بھی کم وقت میں سراج الحق نے بھی اپنے ٹویٹ میں یہ بات دہرا دی اور کہا کہ نالائق حکمران ٹولے نے یہ دن دکھائے۔
پھر کسی نے محترم سراج الحق کی توجہ اس حقیقت کی طرف دلائی کہ یہ دن تین سال پہلے دکھائے گئے تھے جب مرشد جان عالم کی حکومت تھی تو سراج الحق نے خاموشی کی بے داغ سفید چادر اوڑھ لی۔ بہرحال آپ وفاداری بشرط استواری کی عمدہ مثال ہیں۔
______________
شہزادہ صاحب کیلئے آنے والے دن اچھے نہیں‘ بلکہ بہت سخت ہیں۔ مناسب ہے کہ وہ فیروز بخت کی اقلیم چھوڑ کر کی اقلیم چھوڑ کر کسی مملکت زرنگار کا رخ کریں۔ کیا پتہ راستے میں لوح سلیمانی والے بزرگ مل جائیں اور ان کی جان نازک رنج و اندوہ کے جال سے آزاد ہو جائے۔ ویسے اطلاع ہے کہ جان عالم نے فیروز بخت سے بار بار رابطہ کیا اور پھر دو قریبی ممالک کے بادشاہوں کو بھی بیچ میں ڈالنے کی کوشش کی کہ وہ فیروز بخت سے سفارش کریں۔ اس بات کی کہ انہیں باہر جانے کی اجازت دی جائے لیکن نہ تو فیروز بخت مانا اور نہ ہی دونوں بادشاہ سفارش کو راضی ہوئے۔ بندہ ناچیز یہ خبر دو تین ہفتے پہلے بھی دے چکا ہے لیکن چونکہ دو روز قبل جنرل حمید گل مرحوم کے صاحبزادے عبداﷲ حمید گل نے ایک ٹی وی چینل پر بیٹھ کر پوری تفصیل کے ساتھ اس خبر کی تصدیق کی ہے اس لئے اسے پھر سے دہرا دیا۔ بظاہر لگتا ہے جان عالم کو طوفان بن کر باقی عمر پنجرے میں گزارنی ہو گی۔ تقدیر کے مسوّدے یا سکرپٹ میں کچھ ایسا ہی لکھا لگتا ہے۔ 

مزیدخبریں