امیر محمد خان
چلئے صاحب جمہوریت کے علمبردار ایک مرتبہ پھر دوبئی میں بیٹھ کر 23کرو ڑ عوام کی قسمت کا فیصلہ کرنے اکھٹے ہورہے ہیں سیاست دان عسکری قیادتوں پر الزام تراشیاں کرتے ہیں کہ وہ اس ملک میں جمہوریت کو پنپنے نہیں دیتیں مگر جس سیاسی لیڈر یا جماعت کی تاریخ اٹھائیں اسکی جائے پیدائش کا ایک ہی پتہ ملتا ہے یہ سیاستدان اس بات کوبہت بہتر جانتے ہیں کہ وہ کہتے تو ہیں کہ انہیں عوام نے ووٹ دیا مگر نہ جانے وہ کس طرح غدار کہلا کرملک سے باہر بھیج دئے جاتے ہیں یا حکومت سے نکالا ہوجاتا ہے ، کبھی میثاق جموریت کے نام پر میاں صاحب اور بے نظیر ایک میز پر بیٹھتے ہیںفیصلے کرتے ہیں مگرچونکہ سیاست دانوں کی نیت مفادات سے بھر پور ہوتی ہے اسلئے کوئی وعدہ ،کوئی معاہدہ پایہ تکمیل کو نہیں پہنچتا اور وہ دوران معاہدہ ہی دست و گریبان ہوجاتے ہیں، دراصل سیاست دان چاہے پی ٹی آئی ہو ، پی پی پی ہو یا مسلم لیگ ن ان میں یہ سوچ ہرگز نہیں کہ اقتدار ہو یا نہ ہو ملک کی سالمیت ، ملک کی معیشت کیلئے ہر اقدام پر ایک دوسرے کا ساتھ دینا ضروری ہے حال کی مثال لے لیںگو کہ پی ٹی آئی کے اپنے ملک دشمن اقدامات سے یہ جماعت بھی ” ٹاٹینک“ دیکھنے سمندر کی تہہ میں چلی گئی ہے ، اسکے بچے کچے افراد میٰں شاہ محمود قریشی کی قسمت کا فیصلہ تاحال نہ ہوسکا ہے وہ وزیر اعظم اور موجودہ حکومت کی آئی ایم ایف سے بات چیت یا قرض نہ ملنے کو اپنے منفی بیانات کا حصہ بنائے ہوئے ہیں یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے اسحاق ڈار نے کوئی کارہائے نمایاں انجام نہیں دئے مگر بیان بازی سے قبل کیوںنہ شاہ محمود قریشی ااپنی جماعت کے گریبان منہ ڈال کر نظارہ کریں کہ ساڑھے تین سال انہوںنے کیاکیا ۔ نیز حکومت جانے کے فوری بعد انکی رہنماﺅںنے کسطرح آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت سے مشکوک کیا ۔آئی ایم ایف کی کارکردگی ہی ایسی ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ ادارہ معیشت پر قابو ہوکر پاکستان جیسے ممالک کو بڑی طاقتوں کے کنٹرول میں لاتا ہے تاریخ ہے کہ آئی ایم ایف نے کبھی کسی ملک کی معیشت میں ریلیف نہیں دیا بلکہ ریلیف کے نام پر غریب ممالک سے اپنے مطالبات منوائے ہیں اور اسکی پشت پر وہ امیر ممالک ہوتے ہیں جو اس دنیا پر حکمرانی کے خواہاں ہیں ۔2023ئ
تک، 70سے زائد ممالک ایسے ہیں جو عالمی مالیاتی اداروں کے قرضے ادا کرنے سے قاصر ہیں۔ پاکستان ایشیا میں سب سے زیادہ مقروض ملک ہے۔ ان تمام 70ممالک میں آئی ایم ایف نے زیادہ شرح سود پرپر نام نہادبیل آوٹ قرضے فراہم کئے صرف قرضوں کے پیکیج سود کے ساتھ فراہم کئے جاتے ہیں، بلکہ قومی حکومتوں کو اپنے فیصلے خود کرنے کیلئے اپنی قومی سالمیت تک سے دستبردار ہونا پڑتا ہے۔ حکومتوں کو ٹیکس میں اضافہ کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے تاکہ قرض وقت پر سود کے ساتھ ادا کیا جا سکے۔ عوام اور کاروباری اداروں کو دی جانے والی سبسڈی کو کم کروایا جاتا ہے جس سے مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے، صنعت مقامی اور بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقت کھو دیتی ہے۔ یہاں تک کہ برآمدی شعبے بھی آئی ایم ایف کی ساختی شرائط سے مستثنیٰ نہیں ہوتے۔ اپنی پوری تاریخ میں، آئی ایم ایف نے کبھی کسی قوم کو مالی بحران سے نہیں نکالا، بلکہ اس نے معاشی حالات کو مزید خراب کیا جس سے صرف مختصر مدت کیلئے بہتری آتی رہی۔ آئی ایم ایف ایک ایسا ادارہ ہے جسے مغربی ممالک خصوصاً امریکہ چلاتاہے۔ ایک طرح سے آئی ایم ایف ایک سیاسی اور مالیاتی ادارہ ہے۔ ایران اور شمالی کوریا جیسے ممالک کو اس وقت بھی کوئی قرض یا امداد نہیں دی جاتی جب وہ اقوام متحدہ کے بین الاقوامی ضوابط کی تعمیل کرتے ہوں۔ آئی ایم درحقیقت
غریب قوموں کو کنٹرول کرنے کیلئے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال ہوتاہے۔دوبئی میں بیٹھے ”ایک مرتبہ پھر “‘ کی آس لگائے ذرا ماضی پر نظر ڈالیں اور اللہ کے واسطے اس دفعہ کوئی معاہدہ عمل میں لائیںتو کچھ عرصے بعد یہ کہہ کر رد نہ کردیں کہ” یہ کونسا قران کا صحیفہ ہے ” 23کرو ڑ عوام کے فیصلے ایمانداری سے کرنا بھی کسی صحیفے کے احترام سے کم نہیں ، ہمارا ملک اس کا متحمل مزید نہیں ہوسکتا جیسے 2007ءمیں میاں صاحب لندن سے پاکستان آئے تو زبردستی انہیں جہاز میں بٹھا کر جدہ بھجوا دیا گیا۔ ملک میں ان کے قدم رکھنے پر پابندی تھی۔ بے نظیر قتل کر دی گئیں اور رائے عامہ بے قابوہو گئی تو طاقت کے ایوانوں نے محسوس کیا کہ نواز شریف کو یو ں سیاست سے بے دخل نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں واپس آنے کی اجازت دی گئی۔پھر وہ دن بھی دنیا نے دیکھا کہ میاں صاحب دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئے۔ایک بار پھر میاں صاحب سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔ محلاتی اور عدالتی سازشوں کے نتیجے میں آسان الزام کرپشن سے شروع ہونے والی کہانی کا اختتام اقامہ رکھنے کا الزام ٹھہرا انہیں نا اہل کرکے بیرون ملک بھیج دیا گیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے خلاف تقاریر کرتے رہے؛تاآنکہ یہ محسوس کیا گیا کہ میا ں صاحب ملکِ خداداد کیلئے ناگزیر ہیں۔اب ایک بار پھر طاقت کے ایوانوں میں ان کی سزا معافی اور وطن واپسی پر غور ہو رہا ہے۔یہ ہوتاہے دائرے کا سفر۔ کل کو ایک بار پھر شاید میاں صاحب مجرم اور ملکی تباہی کے ذمہ دارقرار دیئے جاسکتے ہیں اب دو نااہل جہانگر ترین ، اور میاں صاحب ”اہل “ہوجائینگے ۔ یہی بے نظیر کے ساتھ ہوا۔ انہیں سیکورٹی تھریٹ سمجھتے ہوئے ہی ا ن کے مقابلے میں شریف خاندان کو سیاست میں اتارا گیا تھا۔ کبھی وہ وزیرِ اعظم بنتیں اور جان بچا کر ملک سے بھاگنا پڑتا۔ وطن واپس آتیں تو لاکھوں کا ہجوم ا ن کا استقبال کرتا۔بالآخر وہ ناکافی سیکورٹی میں قتل کر دی گئیں اور پورے ملک میں آگ لگ گئی۔آصف علی زرداری جنہیں مسٹر ٹین پرسنٹ کے نام سے جانا جاتا تھا، ان کے عروج و زوال کا سفر شروع ہوا۔ کبھی وہ صدر بنے اور کبھی ا ن کے خلاف ناجائز طور پر بیرونِ ملک دولت منتقل کرنے کی تحقیقات ہوئیں۔اس سے پہلے ڈیڑھ عشرہ ان کے خلاف مقدمات چلتے رہے اور وہ جیل میں رہے۔ کچھ بھی ثابت نہ ہو سکا۔آخر سمجھ یہ آیا کہ وہ تو ملکی ترقی کیلئے لازم و ملزوم ہیں۔ آخری اطلاعات تک وہ پی ڈی ایم کی مخلوط حکومت کی غیرعلانیہ قیادت کر رہے ہیں۔ کل کو ہو سکتاہے کہ پھر وہ عتاب کا نشانہ بنتے ہوئے جیل یا بیرونِ ملک بھاگنے پر مجبور ہو جائیں۔ یہ ہوتا ہے دائرے کا سفر!حالات اتنے نازک ہیں کہ خود میاں محمد نواز شریف اپنے سگے بھائی کی حکومت ہوتے ہوئے بھی واپس آتے ہوئے کترا رہے ہیں۔ ”ارادے “ کب اپنا رخ بدل لیں اور آرا م سے لندن میں بیٹھے نواز شریف پھر یہا عدلاتوں کا سامنا کرتے رہیں ،دوبئی مذاکرا ت کی ایک ایجنڈہ بڑا اہم ہے کہ مسلم لیگ نے اپنے حصے کا اقتدار کرلیا اب باری ہے پی پی پی کی ، مذاکرات جو بھی ہیں کامیابی جب ہی ہوگی جب ملک کی معیشت مضبوطی کی طرف گامزن ہوگی اور یہ سب گامزن قرضوںسے نہیں اندرونی صنعت کا پروان چڑھا کر ہوگا ، سرمایہ کاروں کو ملک میں لانا ہوگا ،سرمایہ کاروں کو محب وطن بناکر انہیں مجبور کرنا ہوگا کہ منافع کم اور عوام کو سہولت زیادہ دینا ہوگی ۔ حکومت نے تمام اراکین اسمبلی حج پر بھیجا ہے اور ان سے استداعا کی ہے وہ خانہ کعبہ میں ملک کیلئے دعائیں کرین بڑا مستحسن اقدام ہے مگر وہ یہ کام ڈالرکے ضرور ت مند ملک کے ڈالر بچاکر ملک میں ہی اپنا کردار ایمانداری سے نبھائیںتو ملک کا بھلا ہوگا ۔ پی ٹی آئی کے نامزد صدر پاکستان نے ملک کے ڈالرز معیشت کو بھاڑ میں ڈالتے ہوئے حکومتی خرچ پر اپنے 26عزیزوں کو حکومتی خرچ پرخصوصی جہاز سے لے گئے واہ واہ ، یہ ہوئی نہ بات پتہ لگا کہ بندہ پی ٹی آئی کا ہے ۔ مگرکسی نے پریس کانفرنس کی ۔