عیدالاضحی پر آج لاکھوں مسلمان سنت ابراہیمی کی پیروی کرتے ہوئے جانور ذبح کریں گے
آج ملک بھر میں عیدالاضحی جسے ہم عید قرباں بھی کہتے ہیں نہایت جوش و خروش سے منائی جا رہی ہے۔ نماز عید کے بڑے بڑے اجتماعات میں ملک کی خوشحالی، مشکلات کی دوری اور امن و امان کی بہتری کی دعائیں مانگ کر مسلمان اپنے گناہوں کی معافی بھی طلب کرتے ہیں۔ نماز کے بعد لاکھوں مسلمان سنتِ ابراہیمی ادا کرتے ہوئے اپنی اپنی حیثیت کے مطابق بکرے، دنبے اور بیل کی قربانی کریں گے۔ اس موقع پر یاد رکھیں یہ قربانی اللہ کے لئے ہوتی ہے اس کا گوشت غریبوں اور رشتہ داروں کے لئے بھی ہوتا ہے یہ نہیں کہ سارے کا سارا گوشت یا اچھا گوشت اٹھا کر فریج میں ڈیپ فریزر میں سٹاک کر دیا جائے اپنا حصہ ضرور لیں مگر یکساں اور باقی دو حصے تقسیم کریں اس میں برکت ہے اور اللہ کریم بھی خوش ہوتا ہے۔ عید قرباں پر ہمیں ایک دوسرے کو معاف کرنے، ایک دوسرے سے صلح کرنے اور اپنی انا اورخواہشات کو قربان کرنے کی بھی کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہمارے گھروں، خاندانوں اور معاشرے میں بھائی چارے کو فروغ ملے اور سب ہنسی خوشی رہ سکیں۔ آج کل مہنگے اور بھاری بھرکم جانوروں کو خرید کر نام و نمود کی نمائش کا ایک رواج چل نکلا ہے۔ اچھے اور صحت مند مہنگے جانور خریدنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر بہتر ہے کہ ہر صاحب حیثیت اپنی اپنی حیثیت کے مطابق جانور خریدے اور قربانی دے ایک بے حد مہنگا جانور خریدنے سے بہتر ہے کئی جانور خرید کر قربان کریں اور ان کا گوشت غریبوں اور مستحقین میں تقسیم کریں اس میں ثواب بھی زیادہ ہے اور یہی قربانی کا فلسفہ بھی ہے کہ نام و نمود نہیں اللہ کی رضا کے لئے قربانی کی جائے اور اسے سنت نبویؐ کے مطابق تقسیم کیا جائے۔
ذکا اشرف کی بطور چیئرمین پی سی بی تقرری کا فیصلہ کھٹائی میں پڑ گیا
ایک فیصلہ ہم کرتے ہیں ایک فیصلہ اوپر بیٹھا رب کرتا ہے۔ ہمارے فیصلے مکڑی کے جال کی طرح بودے اور کمزور ہوتے ہیں مگر جو فیصلہ اس رب کا ہوتا ہے وہ پائیدار ہوتا ہے۔ جبھی تو کہا جاتا ہے ’’جو جو سو سو تب تب‘‘ یعنی جو بھی ہوتا ہے اپنے وقت پر ہوتا ہے۔ اب چیئرمین پی سی بی کے عہدے کا مسئلہ دیکھ لیں سب کھلاڑی تیار بیٹھے ہیں کہ اب ’’چڑیا والے بابا‘‘ کے جانے کے بعد ’’تیر والے چاچا‘‘ کی باری ہے ۔وہ کسی بھی وقت ڈھول باجے کے ساتھ مبارکیں وصول کرتے ہوئے پی سی بی کے دفتر میں داخل ہوکر اپنی نشست پر براجمان ہو جائیں گے مگر اچانک آخری وقت میں دیکھ لیں کیسے وقت نے پینترا بدلا کہ انکا قافلہ ابھی راہ ہی میں تھا کہ باد مخالف کے جھکڑوں نے اسے گھیرے میں لے لیا اور وہ اس گرداب میں پھنس کر رہ گئے ۔پہلے کوئٹہ ہائیکورٹ میں۔ اب لاہور اور پشاور ہائیکورٹ میں انکی تقرری روکنے کی درخواستوں پر کارروائی شروع ہو گئی ہے یوں۔ وہ دوچار ہاتھ آکے لبِ بام رہ گئے۔ اب وہ ہاتھ مل رہے ہونگے کہ یہ کیا ہو گیا ہے۔ مخالف انکی تعلیمی قابلیت پر بھی بری طرح سوالات اٹھا رہے ہیں مگر بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں تعلیم نہیں اثر و رسوخ دیکھا جاتا ہے۔ اگر تعلیم ہی دیکھی جاتی تو آج کوئی باصلاحیت اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان بے روزگار نہ ہوتا۔ کوئی کم تعلیم یافتہ بڑے بڑے عہدوں پر نظر نہ آتا۔ اب دیکھنا ہے عدالتیں اس بارے میں کیا فیصلہ کرتی ہیں۔ ذکا اشرف کو ابھی تک آصف زرداری کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ کیا معلوم دبئی کے سیاسی میلے میں اس حوالے سے بھی کوئی بات ہوئی ہو مگر معاملہ چونکہ عدالت میں ہے اس لئے کھل کر اس پر کوئی بیان بازی نہیں کر رہا۔
چین کے ساتھ گدھے کی کھالیں برآمد کرنے سمیت متعدد تجارتی معاہدوں کی منظوری
صرف گدھوں کی کھالیں ہی کیوں، اگر ہمیں اپنے دوست ملک کے ساتھ زندہ سلامت گدھوں کی برآمد کا ایک بڑا تجارتی معاہدہ ہی کیوں نہ کرنا پڑے تو ہمیں اس میں بالکل تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔ گدھے ہوں یا گدھوں کی کھالیں۔ چین کے ساتھ ہمیں ہر قسم کی تجارت فائدے میں ہی ہے۔ ہمارے ہاں سڑکوں پر مارے مارے پھرتے گدھے طاقت سے زیادہ کا بوجھ اٹھائے گدھے ریڑھیوں کے آگے جتے ہوئے مار کھاتے اپنی کھالیں ادھڑواتے گدھے کم از کم اس تجارت کی بدولت کچھ آرام ہی پائیں گے کیونکہ گدھوں کی کھالوں کی تجارت کا پہلا اصول یہی ہے کہ کھالیں عمدہ اور صاف طریقے سے اتاری گئی ہوں کہیں کوئی کٹ نہ لگا ہو۔ یوں اب گدھا مالکان جو گدھوں کی کھالیں فروخت کر کے کمائی کرنا چاہتے ہوں گے اب گدھوں کو وحشیوں کی طرح مارنے سے دریغ کریں گے اور ان کی صحت و خوراک کا خاص خیال رکھیں گے تاکہ کھال کے اچھے دام ملیں۔
گدھے ویسے بھی پہلے سے ہمارے لئے ’’کماؤ پُت‘‘ کا درجہ رکھتے ہیں کبھی اونٹ بھی یہی درجہ پاتے تھے مگر اب ان کا استعمال بڑھتے اخراجات اور جگہ کی کمی کی وجہ سے کم ہو گیا ہے۔ شہروں میں تو خال خال ہی اونٹ گاڑی نظر آتی ہے مگر دیہات میں وہ بھی سندھ اور بلوچستان میں اونٹوں کے قافلے نظر آتے ہیں۔ اب گدھوں کو یہ تجارتی معاہدہ مبارک ہو امید ہے اس سے آگے بڑھ کر بھی چین کے ساتھ آئندہ گدھوں کے گوشت کے بیوپار پر بھی بات چیت ہو سکتی ہے۔ وہاں کے لوگ سب کچھ بہت شوق سے کھاتے ہیں جن میں گدھے کا گوشت بھی شامل ہے۔ اس طرح پاکستانیوں کے لئے چین میں ایک اور بڑی مارکیٹ دستیاب ہوگی۔ یوں ہمارے گدھوں کی موجیں ہونگی۔ان کے لیے اعلیٰ فارم ہائوس بنیں گے۔
بھارتی صدر بھی نسلی امتیاز کا شکار برہمنوں نے مورتیوں کے پاس جانے سے روک دیا
یہ اس جدید دور کی بات ہے جب دنیا میں انسانی مسادات، احترام آدمیت کا سب سے زیادہ پرچار جمہوری ممالک میں ہو رہا ہے۔ بھارت بزعم خود اپنے آپ کو ایک بڑا جمہوری ملک کہتا ہے مگر وہاں ذات پات ، مذہبی اور نسلی امتیاز کی یہ حالت ہے کہ وہاں کی صدر مملکت جو ایک خاتون ہیں اور ان کا تعلق کسی اعلیٰ ذات سے نہیں، کو وہاں کے سماج پر صدیوں سے چھائے برہمنی سامراج نے مندر کے اس حصے میں داخلے سے روک دیا جو اعلیٰ ذات کے برہمنوں کیلئے مخصوص ہے۔ صدر مملکت ہونے کے باوجود وہ مندر میں موجود دیوی دیوتاؤں کی مورتیوں کے پاس جا کر انہیں پرنام نہ کرسکیں۔ یہ تو شکر کریں انہیں مندر میں داخل ہونے سے نہیں روکا گیا شاید ان کا عہدہ کام دکھا گیا۔ ورنہ ایسے مندروں میں تو عام اور نچلی ذات کے ہندوؤں کے علاوہ عورتوں کا داخلہ بھی ممنوع ہوتا ہے۔ ابھی تک بھارت میں ذات پات کی اس تقسیم کی وجہ سے نفرتوں کا کاروبار عروج پر ہے۔ یہ تو دلت اور نچلی ذات کے لوگوں کو جان و مال کا خطرہ ہے کہ اگر وہ مذہب تبدیل کر کے مسلمان ہو گئے تو ان کو بھی مسلمانوں کی طرح بدترین اذیتوں کا سامنا کرنا ہوگا ورنہ بھارت کی نچلی ذاتوں کے لاکھوں افراد کب کا اسلام قبول کر چکے ہوتے۔ اگر ہمارے عرب مالدار مسلم حکمران ذرا سی بھی توجہ دیں، ان نچلی ذات کے ہندوؤں کو دلجوئی کریں، انہیں مالی امداد اور روزگار دیں تو چند برسوں میں بھارت میں مسلم اقلیت ایک بڑی اکثریت میں بدل سکتی ہے۔ مگر کیا کریں ہمارے حکمرانوں کی ایسے کاموں کی طرف توجہ ذرا کم ہی جاتی ہے۔ انہیں بھارتی اداکاروں، تاجروں اور صنعتکاروں میں دلچسپی زیادہ ہوتی ہے۔ پھر بھی امید پہ دنیا قائم ہے کبھی تو کوئی موسیٰ اٹھ کر طلسم سامری توڑ دے گا۔ یوں غیر مسلموں خاص طور پر نچلی ذات والوں کو مسلمان ہونے سے کوئی روک نہیں سکے گا۔