سحر انگیز لمحات

اسلام کی بنیاد دو اصولوں پر ہے۔ اوّل ادب و احترام دوسرا ذوق و شوق۔ پہلے اصول کے تحت آدمی مہذب و باادب محکوم کی طرح فکر مند ہوتا ہے جس کی صورت نماز ہے اور دوسرے اصول کے تحت ذوق و شوق اور عشق و محبت کاثبوت دیا جاتا ہے چنانچہ ایک ایک حج کرنے والے کی عاشقانہ کیفیت کا عالم یہ ہوتا ہے کہ اسے تن من دھن کی کچھ پرواہ نہیں رہتی۔ محبوب کے گھر کے اردگرد چکر لگانا، در و دیوار کو چھونا اور اس کے پردوں سے لپٹنا۔ کسی ایک جگہ قرار نہ پکڑنا۔ کبھی مکہ کبھی منیٰ، کبھی عرفات تو کبھی مزدلفہ۔ یہ وہ عاشقانہ افعال ہیں جو عشق و محبت کے جذبہ میں فطرتاً عشق سے سرزد ہوتے ہیں۔ زیب و زینت کو چھوڑ دینے کانام احرام ہے۔ محبوب کے گھر کے ارد گرد گھومنے کا نام طواف ہے۔ محبوب کے دشمنوں کا تصور آتے ہی سینہ تان کر اکڑنے کا نام رمل ہے۔ صفا اور مروہ کے درمیان، ذوق و شوق سے دوڑنے کا نام سعی ہے۔ شیطان کا مقام سامنے آ جائے تو اُس پر پتھر برسانے کا نام رمی ہے۔ جانور کی قربانی کے ذریعہ خود قربان ہونے کا نام نحر ہے۔ اور اس مجموعہ کا نام حج ہے۔ پھر حج سے فارغ ہو کر دربارِ نبویﷺ میں حاضری اور صلوٰۃ و سلام کے بعد وسیلہ لینے کا نام زیارت اور توسل ہے۔ بہرحال فریضۂ حج عشق و محبت کا مظاہرہ ہے۔
یہ فریضہ بے شمار جذبات و احساسات کا آئینہ دار ہے۔ جن میں سے ایک یہ ہے کہ اسلام میں دین اور دنیاکا فرق عمل کی بنیاد پر نہیں بلکہ زینت کی بنیاد پر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ راستے سے کسی بھی تکلیف دہ چیز کا دور کر دینا اور حیا ایمان کی شاخیں ہیں۔ حضورﷺ کی زندگی کا ایک ایک واقعہ دنیا بھی تھا اور دین بھی۔ نماز روزہ کی طرح غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق وغیرہ کی جنگی مصروفیات دین سے جداگانہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ یہی نکتہ صحابہ کرامؓ کے بھی پیش نظر رہا۔
تاجدارِ مدینہ ﷺ نے جس وقت مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی کی بنیا رکھی اُسی وقت اخلاقی، روحانی، تجارتی اور سیاسی شعبے بھی قائم ہو گئے۔ اسلام میں ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کیا جائے دین ہو جاتا ہے۔ یہ حکومت و سلطنت جس کو دنیا سمجھا جاتا ہے اگر اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے کی جائے تو دین ہو جاتی ہے۔ مال و دولت جمع کرنا دنیا ہے لیکن اگر خدمتِ خلق پیش نظر ہو تو دین ہو جاتا ہے۔ خود کشی دنیاہے اور بہت بڑا گناہ ہے لیکن جنگ کے وقت اپنے جسم کے ٹکڑے کروا دینا شہادت اور عین عبادت ہے۔ اس میںشک نہیں کہ اسلام کی ہر ایک عبادت فرض ہو یا واجب، سنّت ہو یا نفل روحانی اور مادّی فائدوں سے خالی نہیں۔ اس کی ایک مثال عیدالاضحیٰ ہے۔ نمازِ عید کے بعد مسلمان اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میںقربانی پیش کرتے ہیں۔ اس قربانی سے روحانی فائدہ یہ ہے کہ مسلمان نے اپنی جان کی قربانی دے کر جو مرتبہ حاصل کرنا تھا وہ ایک جانور کی قربانی دے کر حاصل کر لیتا ہے۔ اور دوسری تلقین یہ بھی ہے کہ ہم ہر وقت تسلیم و رضا اورحقیقی قربانی کے لئے جسے جہاد کہتے ہیں تیار ہیں، جو اپنے وقت پرادا کرنا نہایت ضروری ہے۔ یہ قربانی اُس اصل قربانی کی روح تازہ رکھنے کے لئے ایک عملی مشق ہے۔ اسی طرح حج بھی عاشقانہ اطاعت و فرماں برداری کا نمونہ ہے۔ اس کی ہرنقل و حرکت میں اطاعت و فرماں برداری اور تسلیم و رضا کی عملی مشق کروائی جاتی ہے۔ جب ان مقدس مقامات میں اپنے بزرگوں کی اطاعت و فرماں برداری کے نمونے سامنے آتے ہیں جن کی بجا آوری میں انہوں نے تن، من، دھن کی پرواہ تک نہیں کی تھی۔ تو بے اختیار اپنے بزرگوں کی پیروی کرنے کا شوق پیدا ہو کر اطاعت و فرماں برداری کی طرف بندہ مائل ہو جاتا ہے۔ غلام اوربندہ کی شان ہونا بھی یہی چاہئے کہ جو کچھ اس کا مالک حکم دے بلا چوںو چرا اسے مان لے، اسے کیا منصب ہے کہ حکمت اور راز پر پوچھنے بیٹھے۔
سپاہیانہ زندگی جو کہ اسلامی زندگی کاخاص شعار ہے حج اور قربانی اس کا بہترین نمونہ ہے اور عالمگیر مساوات کا مظاہرہ بھی ہے کہ سب مسلمان ایک لباس ایک وضع قطع اورایک ہی رنگ میںرنگے جاتے ہیں۔ جسے کہتے ہیںبطحاء منزل عشق الٰہی ہے، یہاں شاہی فقیری ہے فقیری شکِ شاہی ہے۔ خانۂ کعبہ کی مرکزیت کا فلسفہ یہی ہے کہ جب تک مسلمان اس سے وابستہ رہیں گے انہیںہر سال ایک رنگی کا پیغام ملتا رہے گا۔
حرم سطحِ زمین پر مرکزِ عشق و محبت ہے جسے کہتے ہیںصحرائے عرب بحرِ حقیقت ہے۔ حج اور قربانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ امن کے وقت حُسنِ سلوک اور حُسنِ معاملہ اور جنگ کے وقت سرفروشی مسلمان کا مذہبی فریضہ ہے۔ قومی اور ملکی خطرے کے وقت جو جان چُرائے گا وہ آخرت میںسزا پائے گا کیونکہ ایسی صورت میںدشمنی دان خالی پا کر ملک کا امن برباد کر دیتا ہے۔یہ قربانی کا خون جسے ہر سال فراخدلی سے بہایا جاتا ہے درحقیقت اسلام کی ایک واضح مثال ہے جس کے پردے میںبتایا گیا ہے کہ ایمان باللہ کا دارومدار قربانی اورخونِ شہادت پر ہے۔
حج کے ان متبرک مقامات کی زیارت سے روحانی برکات بھی حاصل ہوتی ہیں۔ روایات میںہے کہ بیت اللہ کو صرف دیکھنا بھی عبادت ہے۔ فرمایا گیا کہ بیت اللہ کو جو شخص ایک مرتبہ دیکھتاہے اس کا ثواب ایک سال کی نفلی عبادت کے برابر ہوتا ہے اور فرمایا کہ خانۂ کعبہ کو دیکھتے رہنے کاثواب اپنے گھرمیںنفلیں پڑھنے سے زیادہ ہے۔ تو خیال فرمائیے کہ خانہ کعبہ کاطواف کرنے والوںپر جس قدر رحمتیں نازل ہوتی ہیںان کااندازہ کب ہو سکتا ہے۔ حضورﷺ کی خدمت میںعرض کیاگیاکہ حرم کی نیکیوںکا کتنا ثواب ملتا ہے تو فرمایا کہ ہر ایک نیکی ایک لاکھ نیکیوںکے برابر ہے۔ اس سلسلے میںمدینہ منورہ، وہ مدینہ منورہ جو اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کے اُترنے کی جگہ ہے، جو شوکتِ اسلام کی ہمیشہ رہنے والی یادگار ہے، کی زیارت کا تذکرہ بھی ضروری  ہے۔ مسلمان کو جو کچھ بھی اللہ تعالیٰ سے تعلق نصیب ہوا ہے وہ سب حضورﷺ کا ذات کاطفیل ہے۔ بڑا ہی خوش نصیب ہے وہ مسلمان جس کے دل میںاللہ اور رسولﷺ کی محبت موجزن ہو اور جب بھی استطاعت و ہمت پائے حرمین شریفین کی زیارت سے مالامال ہو۔

ای پیپر دی نیشن