ہم جس چیز کو اپنی ملکیت تصور کرتے ہیں اس سے بے حد محبت رکھتے ہیں‘ اس کی حفاظت کرتے ہیں ‘ حالاں کہ وہ دراصل ہماری ملکیت نہیں ہوتی۔ ایک حدیث پاک کے مطابق انسان کااپنا مال صرف وہ ہے جسے وہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرتا ہے ۔ قرآنِ پاک میں بھی ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’تم نیکی کونہیں پہنچ سکتے جب تک کہ اپنی وہ اشیاء اللہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ نہ کرو جنھیں تم عزیز رکھتے ہو‘‘ یعنی نیکی کی اصل روح تو اللہ رب العزت کی محبت و الفت ہے ‘ محبت بھی وہ کہ ماسوا رضائے الہٰی کے کائنات کی کوئی شے بھی مرکز طلب نہ بن سکے ‘ اگر کوئی شے عشقِ الہٰی سے دور لے جا رہی ہو یعنی اس کی محبت انسان کے دل پر اس قدر غالب آ جائے کہ وہ اسے اللہ کی محبت پر قربان نہ کر سکتا ہو تو گویاوہ بت ہے اور جب تک یہ بت توڑا نہیں جائے گا اس وقت تک قلب پر نیکی کے دروازے بند رہیں گے۔اسلامی عقائد کا اصل الاصول یہی ہے کہ ہر طرف سے نگاہیں ہٹاکر ایک ہی نقطہ ء ایثار و قربانی کو مطمع ء نظر بنایا جائے۔ سب اُمیدیں اسی ربِ رحیم کے در سے وابستہ کر دی جائیں اور صرف اسی کے آستانے پر اشکوں اور سجدوں کی بے قراریاںلٹائی جائیں۔ بندگی کا اصل مقام یہی ہے کہ بندہ اپنی عزیز سے عزیز ترین شے کو بھی اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنے پرہمہ وقت تیار رہے۔
قرآنِ حکیم نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی زندگی کا حوالہ دے کر پیغمبرِ اسلام کو اسی مقام کی جانب نشاندہی و رہنمائی کا حکم دیا کہ : ’’اے محمد ﷺ کہو !میرے رب نے یقینا مجھے سیدھا راستہ دکھایا ‘ بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکین میں سے نہ تھا۔ کہو ! میری نماز ‘ میرے مراسم عبودیت ‘ میرا جینا‘ میرا مرنا‘ سب کچھ اللہ تعالیٰ کے لیے ہے جس کا کوئی شریک نہیں اور اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور میں سب سے پہلے سر‘ اطاعت میں جھکانے والوں میں سے ہوں‘‘۔
اس آیتِ کریمہ میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کا ذکر کیا گیا ہے ۔ ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل اللہ تعالیٰ سے دُعا کی تھی کہ مجھے نیکوکار اور صالح اولاد عطا کر۔ ایک مدت بے اولاد رہنے کے بعد حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ دعا پوری ہو گئی اور اللہ پاک نے آپ کو ایک بیٹا عطا فرمایا ۔ قربانی ‘ حج اور اس کے تمام متعلقہ مناسک حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی یادگاریں ہیں۔ ان دونوں باپ، بیٹے کے حالات کا مطالعہ کرنے سے احساس ہوتا ہے کہ وہ کونسی متاعِ عزیز اور بڑی سے بڑی تمنا تھی جس کی خاطر انھوں نے ہر تکلیف کو برداشت کیا اور ہر قدم پر ایثار کی نئی داستانیں قائم کیں۔ وہ رضائے الہٰی کے حصول کی ایک خواہش تو تھی ہی ،جس کی شدت کے اعجاز سے مقامِ قرب و معیت اور درجۂ خلعت عطا ہوا ۔خود خلیل اللہ کہلائے اور فرزندِ ارجمند نے ذبیح اللہ کا لقب پایا۔ قرآنِ کریم میں قربانی کو یادگار ابراھیمی کہا گیا ہے اور جب صحابہ کرام نے آنحضور ﷺ سے دریافت فرمایا کہ’’یارسول اللہﷺ یہ قربانی کیا چیز ہے ؟‘‘ تو انھوں نے بھی یہی فرمایا کہ ’’یہ تمھارے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنت ہے۔‘‘
قربانی کی تاریخ بہت پرانی ہے ۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے عہد میں گائے کی پرستش شروع ہو گئی تو حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس قبیح رواج کو ختم کرنے کے لیے گائے کا ذبیحہ ضروری قرار دے دیا لیکن قربانی کی خاص اہمیت حضرت ابراھیم علیہ السلام کے خواب کی وجہ سے اسلام کا حصہ بنی۔ انھوں نے خواب میں دیکھا کہ وہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو اللہ کی راہ میں قربان کر رہے ہیں۔اللہ رب العزت کے اس برگزیدہ بندے نے یہ خواب اپنے بیٹے کو سنایا اوراس کی مرضی چاہی۔ فرمانبردار بیٹے نے کمال حوصلے سے جواب دیا کہ آپ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں تاخیر نہ کریں ‘ خواب میں جو کچھ آپ نے دیکھا ‘ اسے پورا کر ڈالیے ‘ مجھے آپ ان شاء اللہ صابرین میں سے پائیں گے۔‘‘بیٹے کا جواب سن کر حضرت ابراہیم علیہ السلام بہت خوش ہوئے ‘ انسانی تاریخ کا یہ آزمائشی موقع تھا کہ ایک باپ اپنے لخت جگر کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں ذبح کرنے جارہا تھا۔
حضرت ابراھیم علیہ السلام نے اپنے لختِ جگر کو زمین پر لٹایا اور آنکھیں بندکرکے تیز چھری آپ کے حلق پر رکھ دی۔ تسلیم و رضا کے اس معرکہ میں باپ اور بیٹے نے جس اُولُوالعزمی اور ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا ‘ تاریخ انسانی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ قربانی کے اس منظر کو دیکھ کر حضرت آدم علیہ السلام فرشتوں سے کہہ رہے ہوں گے کہ دیکھو!آدمؑ کی اولاد اللہ کریم کے حکم پر کتنی بڑی قربانی دے سکتی ہے ۔ رحمتِ الہٰی جوش میں آئی اور ارشاد ہوا کہ ابراھیم تم نے اپنا خواب پورا کر دکھایا۔ تم نے وہ قربانی پیش کر دی جو تم سے پہلے کسی نے نہیں دی ۔ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جان لینا مقصود نہ تھا‘ اللہ تعالیٰ نے تمھاری محبت کا امتحان لیا تھا اور دنیا والوں پر یہ ظاہر کرنا مقصود تھا کہ ہم اپنے ماننے والوں کو انعامات سے نوازتے ہیں۔دریں اثناء حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ دنبہ ذبح ہو گیا اور آپ کو خراش تک نہ آئی۔
اللہ پاک کی راہ میںقربانی دینے اورسنتِ ابراھیمی کی تقلید کرنے والوں کو دولتِ ایمان ملتی ہے۔ ان کے دل خوشی سے بھر جاتے ہیں، ان کے ذہنوں سے بے یقینی کا غُبار چھَٹ جاتا ہے۔ ایقان و اعتماد ان کے قلب و نظر کو جِلا دیتے ہیں ۔ انھیں استقلال و استقامت اور جرات و حوصلہ عطا ہوتا ہے اور جن لوگوں کو ایمان جیسی دولت مل جاتی ہے ان کے قدم راہِ حق پر کب ڈگمگاتے ہیں۔ حرص وہوس سے نکل جانے والے مکروہات سے کب دل لگاتے ہیں۔ کسبِ حلال اور اکلِ حلال ان کا طرۂ امتیاز ہوتے ہیں وہ کسی سے دغا کرتے ہیں اور نہ کسی کا حق مارتے ہیں۔ وہ اپنے ذاتی مفاد کی خاطر دوسروں کو نقصان نہیں پہنچاتے ‘ کاروبار میں بد دیانتی ‘ نمود و نمائش ‘ غرور تکبر ‘ منافع خوری اور بدعتوں سے محفوظ رہتے ہیں ۔ نویدِ عید‘ ان کے لیے ہے جو سنتِ ابراھیمی کو زندہ کرنے والے ہیں ‘ جنھیں راہِ حق میں بڑی سے بڑی قربانی سے بھی دریغ نہیں ہوتا۔مسلمان کی زندگی قربانی سے عبارت ہے مگر افسوس آج ہماری قربانی نمائش کی زد میں آ چکی ہے۔ افسروں کو خوش کرنے کے لیے ان کے ماتحت پورا پورا جانور ان کی ’’درگاہ‘‘ تک پہنچا دیتے ہیں۔قیمتی سے قیمتی جانور خرید کراپنی برتری کا اظہار کیاجاتا ہے۔نافرمان اولاد کے ہوتے ہوئے قربانی چہ معانی؟قربانی تو صبر و رضا اور اطاعت کا نام ہے۔یہاں یہ بات قابل افسوس ہے کہ والدین اپنے بچوں کو حضرت اسماعیل علیہ السلام کی تعلیمات سے بہرہ ور نہیں کرتے۔علامہ اقبال نے کیا خوب کہا تھا :
یہ فیضانِ نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیلؑ کو آدابِ فرزندی