نو آزاد مملکت پاکستان کوآغاز ہی میں بھارت سے آبی جارحیت کا سامنا رہا ۔ پاکستان کے لیے بڑی یہ مخدوش صورتِ حال تھی جب بھارت نے ہمارے ہاں بہنے والی نہروں کا پانی روکنا شروع کر دیا۔اسی مسئلے کو حل کرنے کے لیے پاکستان اور بھارت کے درمیان 19 ستمبر 1960ء میں دریائے سندھ اور دوسرے دریاؤں کا پانی منصفانہ طور پر تقسیم کرنے کا معاہدہ ہوا، جو سندھ طاس معاہدہ کہلاتا ہے۔ اس معاہدے کی رو سے تین دریا دریائے بیاس، راوی اور ستلج بھارت کے حصے میں اور تین دریا، دریائے جہلم، دریائے چناب اور دریائے سندھ پاکستان کے حصے میں آئے۔پاکستان نے بجلی کی ضروریات پوری کرنے کے لیے سب سے پہلے "منگلا ڈیم" کی تعمیر کی داغ بیل ڈالی۔منگلا ڈیم اسلام آباد سے120 کلو میٹر اور جہلم سے 30 کلومیٹر کے فاصلے پر دریائے جہلم پر واقع دنیا کا 12واں بڑا ڈیم ہے جس کا ڈیزائن اور نگرانی لندن کی معروف کمپنی نے کی اور منگلا ڈیم کنٹریکٹرز نے دریائے جہلم کے پار 1962 تا 1967 میںاس کی تعمیر مکمل کی۔منگلا ویو ریزورٹ کو پاکستان کا پہلا منصوبہ بند ریزورٹ سمجھا جاتاہے جس میں رہائش گاہیں، ولاز، ٹاؤن ہاؤسز، ہوٹلز، سروسڈ اپارٹمنٹس اور ریٹیل آؤٹ لیٹس ہیں۔یہ ریزورٹ منگلا ڈیم کے علاقے پر 340 ایکڑ کی جگہ پر پھیلا ہوا ہے۔ 3,140 میٹر لمبا اور 147 میٹر بلند ڈیم 251 کلومیٹر کے رقبے پر محیط ہے۔ پاور ہاؤس کے ڈھانچے اور پلانٹ تک پانی پہنچانے کے لیے 5 اسٹیل سرنگیں بنائی گئی ہیں۔سٹیشن میں اب بجلی پیدا کرنے والی 10 ٹربائنیں ہیں۔یہ ڈیم ان دو ڈیموں میں سے پہلا تھا جو پانی کی کمی اور ملک میں آبپاشی کے نظام کو سندھ طاس منصوبے کے مطابق تعمیر کیا گیا، دوسر ڈیم دریائے سندھ پر تربیلا ڈیم ہے۔
منگلا ڈیم جون 1967 میں 434.505 ملین ڈالر کی لاگت سے مکمل ہوا۔ اس کے ذخیرے کی اصل گنجائش 5.88 ملین ایکڑ فٹ (MAF) تھی۔ وقت کے ساتھ، قدرتی ریت اور مٹی کی وجہ سے منگلا ڈیم کی پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہو کر 4.67 MAF (20%) رہ گئی ہے۔پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش بڑھانے کے مقصد کے پیش نظر جولائی 2004 میں منگلا ڈیم بلند کرنے کے منصوبے پر کام شروع کیا گیا تھا۔ یہ منصوبہ دسمبر 2009 میں 96.853 ارب روپے کی لاگت سے مکمل ہوا۔ اس منصوبے سے تقریباً 50,000 لوگ متاثر ہوئے۔
اس منصوبے کے تحت، ڈیم کو 30 فٹ اونچا کیا گیا اور زیادہ سے زیادہ پانی کی سطح سمندر کی سطح سے 1242 فٹ بلند ہو گئی۔
2009 میں مرکزی ڈیم میں پانی بھرنے کا عمل شروع ہوتھاجس سے 2013 میں 1240 فٹتک پانی ریکارڈ کیاگیا ۔ 4 ستمبر 2014 کو دریائے جہلم میں پانی کا بہاؤ بڑھنا شروع ہوا جس کی وجہ منگلا ڈیم کے علاقے میں شدید بارش تھی۔ اس وقت منگلا میں پانی کی سطح 1227.8 فٹ تھی۔ واپڈا نے منگلا میں زیادہ تر پانی کے بہاؤ کو روکنا شروع کر دیا۔ نتیجتاً پانی کی سطح 4 اور 5 ستمبر کو صرف 42 گھنٹوں میں 1227.8 فٹ سے بڑھ کر 1241.15 فٹ تک پہنچ گئی،جو پانی کے ذخیرہ کرنے کی ریکارڈ سطح تھی۔
منگلا ڈیم نے وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پانی کے اخراج اورزیادہ سے زیادہ بہاؤ کے علاوہ پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کیا۔ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش میں اضافے سے سیلاب کی شدت کو روکنے اور بند کرنے میں اور جانی و مالی نقصان کی سطح کم کرنے میں منگلا ڈیم نے بھرپور کردار ادا کیا ہے۔اگر منگلا ڈیم کے پانی کی سطح بلند نہ ہوتی تو یہ پانی کے بہاؤ کو نہ روک پاتا اور تریمو سے کوٹری بیراج تک کا علاقہ سیلاب کی بپھری ہوئی موجوں سے ناقابلِ تلافی نقصان اٹھاتا۔
ابتداء میں پاور ہاؤس میں صرف چار ٹربائنیں نصب کی گئی تھیں، جس سے 600 میگا واٹ تک بجلی پیدا کرنے کی گنجائش تھی۔بعد ازاں 1974ء سے 1992ء تک اس میں 6 ٹربائنوں کا اضافہ کر دیا گیا۔اس سے بجلی کی پیداوار 600 سے میگا واٹ سے بڑھ کر 1000 میگا واٹ ہو گئی۔ منگلا ڈیم اب تک 269669.291 بلین یونٹ بجلی پیدا کر چکا ہے۔منگلا ڈیم کی تعمیر سے پہلے ملک کا آب پاشی نظام دریائے سندھ اور اس کی معاون ندیوں پر منحصر تھا۔پانی ذخیرہ کرنے کے لئے حالات اکثر دگرگوں ہوتے۔منگلا پراجیکٹ نے پانی کے حجم میں اضافہ کیا جسے دریائے جہلم اور اس کی معاون ندیوں سے آبپاشی کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈیم فی الحال 1.3 ملین ایکڑ اراضی کو سیراب کر سکتا ہے۔
ڈیم کی تعمیر کے نتیجے میں میرپور اور ڈڈیال کے ایک سو سے زائد دیہات اور قصبے زیر آب بھی آئے اور 110,000 سے زائد افراد علاقے سے بے گھر ہوگئے۔ ڈیم سے متاثر ہونے والوں کی اکثریت کو حکومت پاکستان نے برطانیہ کے لئے ورک پرمٹ دیا اور اس کے نتیجے میں برطانیہ کے کئی شہروں میں پاکستانی کمیونٹی کی اکثریت کشمیر کے علاقے ڈڈیال، میرپور سے تعلق رکھتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق فی زمانہ برطانیہ میں ساڑھے7 لاکھ میرپوری آبادہیں ۔
واپڈا آج بھی آٹھ بڑے منصوبوں پر کام کر رہا ہے۔ اِن منصوبوں کی تکمیل پر وافر پانی میسر آئے گا اورسستی پن بجلی بھی حاصل ہوگی۔واپڈا کے زیر تعمیر منصوبوں میں دیامر بھاشا ڈیم، مہمند ڈیم، داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ، تربیلا پانچواں توسیعی منصوبہ، کرم تنگی ڈیم سٹیج۔ون، نائے گاج ڈیم، کچھی کینال کی توسیع اور کے فور پراجیکٹ شامل ہیں۔ یہ منصوبے 2024سے 2029 تک مرحلہ وار مکمل ہوں گے۔اِن منصوبوں کے ذریعے ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت میں 9.7 ملین ایکڑ فٹ اضافہ ہوگا،3.9 ملین ایکڑ مزید اراضی سیراب ہوگی جبکہ کراچی اور پشاور کو پینے کے لئے 95 کروڑ گیلن یومیہ پانی فراہم ہوگا۔ اِن منصوبوں کی بدولت اگلے چار سے پانچ سال کے دوران واپڈا کی پن بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت بھی دو گنا ہو جائے گی اور یہ 10ہزار میگاواٹ اضافہ کے ساتھ 9500 میگاواٹ سے بڑھ کر 19500 میگاواٹ ہوجائے گی۔12 جون 2024ء کو تربیلا پریس کلب کے ممبروں اور عہدیداروں کو صدر تربیلا پریس کلب غازی ملک فضل کریم کی قیادت میں واپڈا کی طرف سے منگلا ڈیم، منگلا پاور ہاؤس، منگلا قلعہ اور میوزیم کا دو روزہ مطالعاتی دورہ کروایا گیا۔چیف انجینئر کریم نواز نے منگلا ڈیم کے ماضی، حال اور مستقبل کے حوالے سے تفصیلات سے آگا کیا۔بریفنگ کے موقع تربیلا پریس کلب غازی کی جانب سے جنرل منیجر منگلا ڈیم صفدر علی خان کو خصوصی طور پر شیلڈ پیش کی گئی۔جبکہ منگلا ڈیم انتظامیہ کی سے چیف انجینئر ملک اورنگزیب نے تربیلا پریس کلب غازی کے صدر ملک فضل کریم کو شیلڈ پیش کی۔ ایکسین محمد اسامہ نے پاور ہاؤس کا وزٹ کروایا اور تمام تفصیلات سے آگاہ کیا، منگلا ڈیم کے پی آر او شاہد اور ان کے عملے نے منگلا قلعہ اور میوزیم کی سیر کروائی اور تمام تاریخی مواد سے روشناس کروایا۔جنرل منیجر منگلا صفدر علی خان اور چیف انجینئر خالد ریاض سے ان کے دفتر میں ملاقات کی اور مختلف امور زیرِ بحث آئے۔ وفد کوہائیڈل پاور ٹریننگ انسٹیٹیوٹ واپڈا منگلا کا دورہ کروایا گیا وہاں ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے چیف انجینئر زبیر بھٹی اور ڈائریکٹر محمد شہبازنے ہائیڈل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کے حوالے سے صحافیوں کو بریفنگ دی۔