حکومت کی طرف سے جننگ انڈسٹری پر ظالمانہ ٹیکسوں کے نفاذ کے خلاف پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ، آ ئل ملز ایسوسی ایشن اور اس سے وابستہ دیگر انڈسٹریز ہڑتال پر چلے گئے ہیں جس سے جہاں پر اس انڈسٹری سے وابستہ لاکھوں افراد شدید متاثر ہو رہے ہیں وہیں پر اس سے کاشتکاروں کو بھی نقصان کا سامنا کرنا پر رہا ہے۔بجٹ میںکھل بنولہ پر ٹیکسوں کے نفاذ سے دودھ اور اس سے بنی ہوئی اشیاء بھی مہنگی ہونے کے خدشات پیدا ہو گئے ہیں ۔حکومی پالیسی ایگرو بیسڈ انڈسٹریز کے لیے مشکلات پیدا کر رہی ہے۔
ملک میں70 فیصد زراعت سے لوگ زراعت پیشہ ہیں جن کیلئے مشکلات پیدا ہو رہی ہیں۔اس حوالے سے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن (پی سی جی اے) کے چیئرمین چوہدری وحید ارشد نے کہا ہے کہ ظالمانہ ٹیکسوں اور بجلی کے فکسڈ چارجز کے خاتمے تک ملک گیر ہڑتال اور کپاس (پھٹی) کی خریداری کا بائیکاٹ جاری رہے گا۔حکومتی اقدامات سے لاکھوں کاشتکاروں کو نقصانات کا سامنا ہے۔کھل پر ٹیکس نافذ کرنے سے ریکوری نہیں ہو سکے گی اور غیر دستاویزی کاروبار کو فروغ حاصل ہوگا۔ ملک گیر ہڑتال کا آغاز میںایسوسی ایشن نے اپنے مطالبات کی فہرست جننگ فیکٹریوں کے باہر پینافلیکسز اور بینرز پر آویزاں کر دیے ہیں۔پی سی جی اے کے اعلامیہ کے مطابق کھل اور بنولہ پر سیلز ٹیکس مکمل طور ختم کیا جائے۔ بجلی پر فکسڈ چارجز کے اضافے کو فی الفور واپس لیا جائے۔جننگ سیکٹر کو ٹیکسٹائل سیکٹر کا بنیادی حصہ سمجھتے ہوئے رعایتی شرح پر بجلی چارجز عائد کیے جائیں۔بجلی کے (CONNECTION DISCONNECTION &)کی پالیسی پر پہلے کی طرح عمل درآمد کیا جائے ۔جننگ انڈسٹری پر سے ایکسائز' ہائی ویز اور پراپرٹی ٹیکس ختم کیا جائے۔ ہائی ویز پر واقع جننگ فیکٹریوں سے این ایچ اے' ہائی ویز ٹیکس پورے سال کی بنیاد کے بجائے ان کے ورکنگ ایام اور گاڑیوں کی آمد و رفت کے مطابق وصول کیا جائے اورکاٹن کنٹرول ایکٹ پر مکمل عمل درآمد کو ہر صورت یقینی بنایا جائے۔
۔آل پاکستان آئل ملز ایسوسی ایشن کے صدر منیب ملک، جنوبی پنجاب چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز (ایوان تجارت و صنعت ملتان)کے صدرمیاں راشد اقبال، چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری بہاولپور کے صدر ذوالفقار علی مان،بہاولپور غلہ منڈی کے صدر چوہدری طیب عاشق، انجمن آڑھتیان لودھراں کے صدر طفیل ٹھاکر چیمبرآف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹری شیخ احتشام الحق، پی سی جی اے کے وائس چیئرمین رانا وسیم حنیف، سابق چیئرمین حاجی محمد اکرم،سہیل محمود ہرل، حاجی حفیظ انور، سابق وائس چیئرمین حافظ عبداللطیف،شیخ عاصم سعید،ملک سہیل طلعت،خواجہ محمد فاروق، سمیت چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز چیمبر آف سمال ٹریڈرز اینڈ انڈسٹریز، غلہ منڈیوں کے صدور اور تاجر تنظیموں کے صدور اور عہدے دار بھی اس ٹیکس کے خاتمے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ چوہدری وحید ارشد کا مزید کہنا تھا کہ بجٹ میں ٹیکسوں کا نفاذ ملک دشمنی 'کسان دشمنی 'صنعت دشمنی کے مترادف ہے۔ملک کی سب سے بڑی نقد آور فصل کپاس(وائٹ گولڈ) کو ایک سازش کے تحت ختم کیا جا رہا ہے۔گندم کے بعد کپاس کی فصل' لاکھوں کا شتکاروں اور قومی معیشت سے کھلواڑ کیا جا رہا ہے ' روزگار کے ذرائع ختم کیے جا رہے ہیں۔روئی پر 18 فیصد سیلز ٹیکس،بنولہ پر18 فیصد سیل ٹیکس، تیل بنولہ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس، آئل ڈرٹ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس اور اب کھل پر 10 فیصد سیلز ٹیکس بہت بڑی زیادتی اور ناانصافی ہے۔ آل پاکستان آئل ملز ایسوسی ایشن کے صدر منیب ملک نے کہا کہ تین سے چار ماہ چلنے والی سیزنل انڈسٹری پر پورا سال بجلی کے فکسڈ چارجز ادا کرنا غیر منطقی اور زمینی حقائق کے برعکس ہے۔فکسڈ چارجز کی شرح 2ہزار روپے فی کلو واٹ کرنا سیزنل انڈسٹری کے ساتھ بہت بڑی ناانصافی ہے۔جننگ انڈسٹریز سمیت تمام صنعتوں کو اندھے کنویں میں دھکیلا جا رہا ہے۔چیمبر آف سمال ٹریڈرز و سمال انڈسٹریز کے مرکزی رہنما شیخ احتشام الحق نے کہا کہ ملک بھر کے تاجر اور سمال انڈسٹریز کے مالکان اور ملازمین پی سی جی اے کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں اور ان کے مطالبات کی مکمل حمایت کرتے ہیں اور ہر احتجاج میں ان کا بھرپور ساتھ دیں گے۔ ایوان تجارت و صنعت ملتان کے سابق صدر شیخ فضل الہی نے کہا کہ نئے ٹیکسوں کی بھرمار اور بجلی کے فکسڈ چارجز کا نفاذ انڈسٹری کے لیے موت کے مترادف ہے۔انجمن آڑھتیان پنجاب کے صدر طفیل ٹھاکر نے کہا کہ کپاس پر کوئی نیا ٹیکس قابل قبول نہیں ہے۔انجمن آڑھتیان پی سی جی اے کا بھرپور ساتھ دے گی۔ اس حوالے سے آل پاکستان آئل ملز ایسوسی ایشن نے مطالبات تسلیم نہ ہونے پر فیکٹریز بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آل پاکستان آ ئل ملز ایسوسی ایشن کے سرپرست اعلیٰ خواجہ محمد فاضل کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں پر چار گنا فکس چارجز عائد کر دیے گئے ۔جس کی وجہ سے فی کس آئل ملز پر ایک لاکھ سے تین لاکھ تک ماہانہ معاشی بوجھ پڑے گا حالانکہ 365 دنوں میں صرف 100 یوم ہمارے انڈسٹری چلتی ہے اسی طرح بجلی کا یونٹ بھی چھ ماہ میں تقریبا ڈبل کر دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ کھل بنولہ پر 10 فیصد سیلز ٹیکس اور تیل بنولہ پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کیا گیا ہے جبکہ ٹرن اور ٹیکس میں ایک فی صد اضافہ کیا گیا ہے ان حالات میں کھل بنولہ،تیل بنولہ بینک کے ہونے سے دودھ اور گھی کئی گنا مزید مہنگا ہوگا جبکہ کپاس کا نرخ 2ہزار روپے من کم ہونے سے کاشت کار کو نرخ لگ سے بھی کم ملے گی اور کپاس کی فصل ائندہ کاشت نہ ہوگی روئی کم ہونے سے ٹیکسٹائل سیکٹر متاثر ہوگا اور بے روزگاری بڑھے گی اسی لیے وزیراعظم ،وزیر خزانہ اور چیئرمین ایف بی ار مسائل کے حل کو فوری طور پر یقینی بنائیں یہی وجہ ہے کہ پاکستان کاٹن جنرلز ایسوسی ایشن نے بھی فیکٹریز چلانے سے انکار کر دیا ہے۔ کپاس کی فصل بہت جلد خراب ہوتی ہے جسے کاشتکار شدید مالی بحران میں مبتلا ہوگا ۔