پاکستان کرکٹ میں تنزلی ذمہ داران کے خلاف کارروائی کب ہو گی؟؟؟

جنوبی افریقہ اور بھارت کی ٹیمیں ٹونٹی ٹونٹی عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچ چکی ہیں۔ آج فیصلہ ہو جائے گا کہ مختصر فارمیٹ میں دنیائے کرکٹ کا نیا حکمران کون ہو گا۔ جنوبی افریقہ پہلی مرتبہ آئی سی سی ٹورنامنٹ کے فائنل میں پہنچی ہے جب کہ بھارت کو دو ہزار بائیس کے سیمی فائنل میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ جنوبی افریقہ اور بھارت امریکہ اور ویسٹ انڈیز میں کھیلے جانے والے اس عالمی کپ میں ناقابل شکست رہے ہیں۔ ٹونٹی ٹونٹی ورلڈکپ مقابلوں کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ جب دو ناقابل شکست ٹیمیں ٹرافی کے میچ میں مدمقابل آ رہی ہیں۔ یوں اس مرتبہ یہ ریکارڈ بھی بنے گا کہ مختصر فارمیٹ کے عالمی کپ میں کوئی بھی ٹیم ناقابل شکست رہتے ہوئے فاتح عالم بنے گی۔
دونوں ٹیمیں بہت اچھی کرکٹ کھیل کر فائنل تک پہنچی ہیں۔ پول میچز میں جنوبی افریقہ نے کچھ میچز بہت مشکل حالات میں جیتے، اس ٹورنامنٹ میں جنوبی افریقہ کے کرکٹرز ٹمپرامنٹ کے اعتبار سے بہتر دکھائی دیے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ فائنل میں کیسا کھیل پیش کرتے ہیں۔ مجموعی طور پر جنوبی افریقہ کو کھیل کے تمام شعبوں میں میچ ونرز کی خدمات تو حاصل ہیں، فاسٹ باولنگ میں مارکو جینسن، نورکیا، رباڈا، جبکہ سپن باولنگ میں کیشیو مہاراج اور تبریز شمسی بروقت وکٹیں حاصل کر کے کپتان کا کام آسان کر دیتے ہیں۔ بیٹنگ میں ٹاپ آرڈر اور مڈل آرڈر میں تمام بلے باز ہر طرح کا کھیل پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جب کہ فیلڈنگ ہمیشہ سے جنوبی افریقہ کا مضبوط شعبہ رہا ہے۔ جنوبی افریقہ کے کپتان مارکرم نے غیر معمولی فیصلوں سے ماہرین کو متاثر بھی کیا ہے۔ دوسری طرف بھارت کی ٹیم ہے جو بین الاقوامی سطح پر مسلسل اچھی کرکٹ کھیلتے ہوئے آ رہی ہے۔ اس عالمی کپ میں بھی وہ مضبوط حکمت عملی کے ساتھ میدان میں اترے ہیں انہوں نے پورے عالمی کپ کے دوران پلینگ الیون میں صرف ایک تبدیلی کی ہے، انہوں نے اپنے بیٹنگ آرڈر میں بھی کوئی غیر معمولی تبدیلی نہیں کی۔ وہ بھارت سے ہی پلینگ الیون بنا کر نکلے تھے، وہ فیصلہ کر کے آئے تھے کہ روہت شرما اور ویرات کوہلی اننگز کا آغاز کریں گے، ریشاب پنٹ نمبر تین پر کھیلیں گے سیمی فائنل تک وہ اسی بیٹنگ آرڈر کے ساتھ میدان میں اترتے رہے۔ حالانکہ ویرات کوہلی رنز نہیں کر رہے لیکن انہوں نے کوئی تبدیلی نہیں کی۔ ریشاب پنٹ کو نہیں ہلایا، روہت شرما بیخوف کرکٹ کھیلتے ہوئے نظر آئے انہوں نے ہر میچ میں ابتدائی اوورز میں مخالف باؤلرز پر اٹیک کیا اور پورے عالمی کپ کے دوران اپنی ذاتی کارکردگی کو ترجیح نہیں دی۔ وہ انچاس رنز پر بھی بیٹنگ کر رہے ہیں تو بڑے شاٹ کی طرف جاتے ہیں وہ بانوے پر بیٹنگ کر رہے ہوں تو بھی سینچری مکمل کرنے پر توجہ دینے کے بجائے مومینٹم پرقرار رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ فائنل میں وہ اس کارکردگی کو برقرار رکھ پاتے ہیں یا نہیں اس کا فیصلہ تو کل ہو گا۔
ایک سیمی فائنل افغانستان اور جنوبی افریقہ کے مابین کھیلا گیا افغانستان کی ٹیم پہلی مرتبہ سیمی فائنل کھیلنے کا اعزاز حاصل کیا وہ اس کامیابی پر مبارکباد کے مستحق ہیں۔ اس کارکردگی میں کپتان راشد خان کا بحثیت کردار بہت نمایاں رہا لیکن ان حالات افغان حکومت کی طرف سے صرر بھارت کی تعریف تاریخ کے ساتھ ناانصافی اور حقائق کے منافی ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ افغانستان کرکٹرز کو سپورٹ کیا ہے، افغانستان کے کھلاڑی مشکل وقت میں یہاں کرکٹ کھیلتے تھے، بنیادی سہولیات سے فائدہ اٹھاتے تھے، پاکستان کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی کے دروازے ہر وقت افغان کرکٹرز کے لیے کھلے رہتے تھے۔ یہ تاریخی حقائق ہیں اور انہیں جھٹلانا ممکن نہیں ہے۔ اس کے باوجود افغان حکومت کے ذمہ داران کی طرف سھ پہلی مرتبہ ٹونٹی ٹونٹی عالمی کپ کرکٹ ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچنے پر صرف بھارت کے تعاون کا ذکر قطعا مناسب نہیں ہے۔ 
دوسری طرف پاکستان کے کھلاڑی عالمی کپ میں ناکامی کے بعد وطن واپس پہنچ چکے ہیں۔ کہیں محمد رضوان کی کلب کرکٹ میچ میں شرکت کی خبریں سامنے آ رہی ہیں تو کہیں بابر اعظم کی نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں ٹریننگ کی خریں سامنے آ رہی ہیں۔ قومی کرکٹ ٹیم کے سینئر مینجر وہاب ریاض کی ٹور رپورٹ بارے بھی سننے میں آ رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق وہاب ریاض نے رپورٹ میں ورلڈ کپ میں ٹیم کی ناقص کارکردگی کی وجوہات بتائیں۔ٹیم منیجر منصور رانا کی رپورٹ بھی ساتھ شامل  ہے۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ سینئر ٹیم مینجر کی رپورٹ ان کے خلاف ہی چارج شیٹ ہے۔ رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ قومی ٹیم نے اسکل فل کرکٹ نہیں کھیلی ، کھلاڑیوں کو اپنی صلاحیتوں  کے مطابق کھیلنا چاہیے تھا، ٹیم میں کوآرڈینیشن اور پلان پر عمل درآمد کا فقدان رہا۔جذبے کی کمی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ ٹی ٹوئنٹی ورلڈکپ میں پاکستان پہلے مرحلے میں ہی باہر ہوگیا تھا، ایونٹ میں اسے نا تجربہ کار امریکا اور پھر روایتی حریف بھارت سے بھی شکست کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ قومی کرکٹ کی حالت یہ ہو چکی ہے کہ میڈیا کے ذریعے بابر اعظم بنگلہ دیش کے خلاف کھیلی جانے والی ٹیسٹ سیریز کے ذریعے دستیابی ظاہر کر رہے ہیں۔ انہوں نے باقاعدہ طور پر میڈیا سے بات تو نہیں کی لیکن جس انداز سے خبریں شائع اور نشر ہو رہی ہیں اس کا مطلب یہی ہے کہ بابر اعظم میڈیا کے ذریعے بورڈ کے فیصلہ سازوں کو پیغام دے رہے ہیں۔
پاکستان مسلسل خراب کرکٹ کھیل رہا ہے اور ناکامیاں ہمارے سامنے ہیں لیکن بدقسمتی سے موجودہ حالات میں بہتری کے لیے کسی بھی سطح پر کوئی سنجیدہ گفتگو نظر نہیں آتی نہ ہی اس حوالے سے اقدامات ہو رہے ہیں، کیا ملک کے مقبول ترین کھیل میں خرابی پیدا کرنے اور ناکامی کے ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی ہو گی؟؟؟؟

ای پیپر دی نیشن