اس میں کچھ شک نہیں کہ نریندر مودی بھارت کے نمایاں رہنماؤں میں سے ایک ہیں۔ انہوں نے دو ہزار چودہ میں بھارت کے وزیر اعظم کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا۔ ان کا دور حکومت تنازعات سے بھرا ہوا ہے۔ انہوں نے جس اندازسے اندرونی اور خارجہ پالیسیوں کو تشکیل دیا اس وجہ سے خطے میں امن کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ اندرونی طور پر انہوں نے ایک خاص مذہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو بے پناہ آزادی دی اور دوسری طرف ہندوؤں کے علاوہ تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں پر زندگی تنگ کر دی۔ متعصب ہندوؤں نے اس انداز میں اپنے مذہبی خیالات کو پروان چڑھایا کہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے لیے سانس لینا دشوار ہوتا رہا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے۔ نریندر مودی کا انداز حکومت آمریت کی طرف مائل ہے۔ ان کی حکومت کو اختلاف رائے کو دبانے، آزادی صحافت کو روکنے اور جمہوری اداروں کو کمزور کرنے کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور یہ صرف الزامات ہی نہیں ہیں۔ گذشتہ دنوں بھی بھارتی حکومت نے ایک فرانسیسی صحافی کو ورک پرمٹ جاری نہیں کیا اور اسے بھارت چھوڑنے کا حکم جاری کیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ بھی بھارت میں غیر ملکی صحافیوں کو ہر وقت دھمکیوں کا سامنا رہتا ہے۔ نریندر مودی کے دور حکومت میں مذہبی اور فرقہ وارانہ کشیدگی بھی عروج پر رہی ہے ۔ مودی کے دور میں ہندوستان میں مذہبی پولرائزیشن میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات نے تشویش میں اضافہ کیا۔ پاکستان کی طرف مودی کا نقطہ نظر صرف اور صرف تصادم کے گرد گھوم رہا ہے۔ نریندر مودی نے 2015 میں لاہور کا اچانک دورہ کیا، 2019 میں پلوامہ حملے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی، جس کے نتیجے میں فوجی تصادم ہوا۔ 2019 میں جموں و کشمیر میں آرٹیکل 370 کی منسوخی نے دو طرفہ تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا۔ بھارتی حکومت کا یہ فیصلہ تھا جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے مابین کشیدگی میں اضافہ ہوا۔ اس سے پہلے اور بعد میں بھارت نے ہر جگہ پاکستان کے خلاف جھوٹا پراپیگنڈا کیا، پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت اور مختلف ذرائع سے امن عمل کو سبوتاژ کرنے کی کوششیں ہوتی رہیں۔ بھارت افغانستان کے راستے بھی پاکستان میں دہشت گردوں کی سرپرستی کرتا رہا ہے جب کہ بھارت کے جاسوس پاکستان میں گرفتار بھی ہوئے ہیں۔ بھارت نے ایک موقع پر فضائی حدود کی خلاف ورزی بھی کی جب ابھی نندن کے جہاز کو گرایا لیکن پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے آفیسر کو جلد ہی رہا کر کے امن عمل کی طرف قدم بڑھایا۔ نریندر
مودی کی حکومت ہر وقت پاکستان مخالف منصوبوں میں مصروف رہی ہے اور بالخصوص کشمیر کے معاملے میں نریندر مودی کی پالیسی دونوں ملکوں کے مابین سب سے بڑا اختلاف ہے۔ بھارت کشمیر کی خصوصی حیثیت کو بدل کر وہاں آبادی کے تناسب کو بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہے اور نریندرا مودی اس کام کی سربراہی کر رہے ہیں۔ پاکستان نے عالمی اداروں کے سامنے ہمیشہ بھارت کی تعصب بھری پالیسیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ آج بھی خطے میں امن قائم نہ ہونے کی بڑی وجہ بھارتی پالیسیاں ہیں۔ نریندر مودی اسلام دشمنی اور پاکستان مخالف انتخابی مہم کا سہارا لے کر ہندوؤں کی بڑی تعداد کے جذبات کو ابھارتے آئے ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ انتخابات میں کامیابی کے لیے مسلم دشمنی کے کارڈ کو استعمال کیا ہے۔ اب نریندر مودی تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ تعلقات معمول پر نہیں آتے دونوں ممالک کے مابین بنیادی مسائل حل نہیں ہوتے تو پھر خطے کا امن خطرے میں ہی رہے گا۔ یہ مسائل بات چیت کے بغیر حل نہیں ہو سکتے، جب تک دونوں ممالک کے مابین اعلی سطح پر بات چیت کا آغاز نہیں ہوتا اس وقت تک کسی پیشرفت کا امکان نہیں ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ دوستی کا ہاتھ بھی بڑھایا ہے اور عالمی امن کو قائم رکھنے کے لیے بے پناہ قربانیاں بھی دی ہیں۔ پاکستان کے وزیراعظم میاں شہباز شریف ہمسایہ ممالک سے بہتر تعلقات کے خواہاں ہیں لیکن اگر بھارت مثبت انداز میں آگے نہیں بڑھتا تو پاکستان بھی غیر ضروری نرمی نہیں دکھا سکتا۔ بنیادی مسائل پر بات چیت سے ہی راستے کھلتے ہیں۔ اب سننے میں آ رہا ہے کہ پاکستان میں قازقستان کے سفیر یارجان کستافن نے کہا ہے کہ "شنگھائی تعاون تنظیم اجلاس میں پاک بھارت وزرائے اعظم کی شرکت کی توقع ہے۔ تنظیم کا سربراہی اجلاس قازقستان کے دارالحکومت آستانہ میں تین اور چار جولائی کو ہو رہا ہے۔
قازقستان کے سفیر کہتے ہیں ہمیں دونوں اطراف سے سربراہ کانفرنس میں شرکت کی تصدیق ہو گئی ہے۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان اختلافات کے سفارتی حل کی حمایت کرتے ہیں اور دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات شروع کرانے میں معاونت پرخوشی ہو گی کیونکہ مذاکرات کے بغیر ہم خطے کو مستحکم نہیں کر سکتے۔" یاد رہے کہ اس کانفرنس کا مرکزی خیال خطے میں استحکام اور حالات کو معمول پر لانا ہے۔ جب تک خطے میں امن اور استحکام نہیں ہو گا سب مشکلات کا شکار رہیں گے۔ قازق سفیر نے مزید کہا کہ 2005 میں پاکستان اور بھارت آستانہ میں سربراہ کانفرنس کے دوران تنظیم کے آبزرور بنے تھے، 2017 میں آستانہ میں دونوں ممالک شنگھائی تعاون تنظیم کے باقائدہ رکن بنے تھے۔
دیکھنا یہ ہے کہ نریندر مودی تیسرے دور حکومت میں تعصب کی سوچ بدلتی ہے یا نہیں۔ ان کی متعصب پالیسیوں کی وجہ سے کروڑوں انسانوں کی جان اور مال کو ہر وقت خطرات لاحق رہتے ہیں۔
آخر میں سید مبارک شاہ کا کلام
اتنا گہرا سَناٹا ہے
جیسے کوئی بول رہا ہے
اے انکار کے لہجے والے!
میں نے تجھ سے کیا مانگا ہے
باہم موت کا وعدہ چھوڑو
کون کسی کے ساتھ جیا ہے
توڑنے والے کیا توڑے گا
تیرا میرا رشتہ کیا ہے
پیڑ تیمم کرنے کو ہیں
وقتِ نمازِ استسقا ہے
کِھلتے پْھول اور کھیلتے بچے
دیکھ کے کتنا ڈر لگتا ہے
سارے جگ کی خیر ہو یا رب
کتنے زور سے دِل دَھڑکا ہے
دردوں نے تو زندہ رکھا
بے دردوں نے مار دیا ہے
کیسا کمسِن درد ہے میرا
آدھی رات کو جاگ اْٹھا ہے
یاد آتا ہے کم کم لیکن
یاد آئے تو دل دْکھتا ہے
الف لام اور مِیم نے مل کر
کیسا اَلم تخلیق کیا ہے
اے مجھ سے نہ ملنے والے!
میں نے خود کو چھوڑ دیا ہے
اْس نے کیا توقیر کمائی
جو رْسوائی سے ڈرتا ہے
کون زیاں کا حاصل جانے
ساری عْمر کا سرمایہ ہے
آتش دان کو تاپ کے دیکھو
باہر کیسی سرد ہوا ہے
بْوندیں پاؤں پڑ سکتی ہیں
بادل کس کے ساتھ رپا ہے
دَرد کی کوئی انت نہیں تو
صبر کا کیسا پیمانہ ہے