انسانی حقوق کا عالمی اعلامیہ

انسانی حقوق کے قدیم اور جدید تصورات کا ارتقاء انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی صورت میں منتج ہوا۔گو کہ انسانی حقوق کی تحریک میں ارتقاء اس اعلامیہ کے بعد بھی آج کے دن تک جاری ہے لیکن اس اعلامیہ کو انسانی حقوق کی تاریخ کی اہم دستاویز ، سنگ میل اور مستقبل کے لئے اساس قرار دیا جاسکتا ہے۔اس دستاویز کو 8 ارکان پر مشتمل کمیٹی نے دو سال میں تیار کیا۔امریکہ، سوویت یونین، چین، فرانس، برطانیہ، آسٹریلیا ، کینیڈااور لبنان سے ایک ایک ممبر چنا گیا اور اس کمیٹی کی سربراہی سابق امریکی صدر روز ویلٹ کی بیوہ ایلینور روزویلٹ نے کی۔اعلامیہ کے پہلے مسودے کو جنیوا میں ستمبر 1948 ء کو کمیشن میں پیش کیا گیا۔پیرس میں10 دسمبر 1948ء کومنعقدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں مسودہ کو منظور کر لیا گیا۔ 58 ممالک میں سے 48 نے اعلامیہ کے حق میں ووٹ دیا، سعودی عرب، سوویت روس، جنوبی افریقہ سمیت 8 ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا جبکہ ہنڈیورس اور یمن نے مخالفت کی۔

منظور شدہ عالمی اعلامیہ30 دفعات پر مشتمل ہے۔(1)تمام انسان حقوق اور عزت کے اعتبار سے برابر اور آزاد پیدا ہوئے ہیں۔ انہیں ضمیر اور عقل عطا کیے گئے ہیں اس لیے انہیں ایک دوسرے سے بھائی چارہ قائم کرنا چاہیے۔(2)ہر انسان ان تمام آزادیوں اور حقوق کا مستحق ہے جو اس اعلامیہ میں بیان کئے گئے ہیں اور ان حقوق پر رنگ، نسل، زبان،جنس ،مذہب، سیاسی تفریق اور کسی قسم کے عقیدے، قوم، معاشرے، دولت یا خاندانی حیثیت کا کوئی فرق نہیں پڑے گا۔جس علاقے یا ملک سے جو انسان تعلق رکھتا ہے اس کے سیاسی حالات، دائرہ اختیار اور بین لاقوامی حیثیت کی بناء پر اس سے کوئی امتیازی سلوک نہیں کیا جائے گا، چاہے وہ ملک آزاد ہو، نیم خود مختار یا غیر خود مختار ہویا سیاسی اقتدار کے لحاظ سے کسی کا پابند ہو۔(3) ہر انسان کو اپنی جان، آزادی اور ذاتی تحفظ کا حق حاصل ہے۔(4) کسی انسان کو غلام یا لونڈی بنا کر نہیں رکھا جا سکے گا۔غلامی یا بردہ فروشی کی کوئی بھی شکل ممنوع قرار دی جائے گی۔(5)کسی انسان کو جسمانی اذیت، ظالمانہ اور انسانیت سوز اور رسوائی والا سلوک یا سزا نہیں دی جائے گی۔(6)ہر انسان کا حق ہے کہ ہر مقام پر قانون اس کی شخصیت کو تسلیم کرے۔(7)قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور بغیر کسی امتیازکے برابری کے حق دار ہیں،قانون کے تحفظ کے سب انسان یکساں طور پر حق دار ہیں۔اس اعلامیے کی خلاف ورزی یا جس خلاف ورزی کیلئے ترغیب دی جائے اس سے  بچائو کے سب برابر کے حقدار ہیں۔ (8)ہر شخص کو ایسے افعال کے خلاف جو آئین اور قانون میں دیئے گئے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوں،با اختیار قومی عدالتوں سے موثر چارہ جوئی کا حق حاصل ہے۔(9) کسی شخص کو محض حاکم کی مرضی پر گرفتار، نظر بندیا جلا وطن نہیں کیا جائے گا۔(10) ہر شخص کو یکساں طور پر حق حاصل ہے کہ اسکے حقوق و فرائض کے تعین یا اسکے خلاف عائد کردہ جرم کے مقدمے کی سماعت آزاداور غیرجانبدارانہ عدالت کے کھلے اجلاس میں منصفانہ طریقہ سے ہو۔(11.1)ایسے ہر شخص کو جس پر فوجداری کا الزام عائد کیا جائے اسے بیگناہ شمار کیے جانے کا حق ہے تا وقتیکہ اس پر کھلی عدالت میں قانون کے مطابق جرم ثابت نہ ہو جائے اور اسے اپنی صفائی پیش کرنے کا حق دیا گیا ہو۔11.2) کسی شخص کو ایسے فعل کی بنا پر جو ارتکاب کے وقت قومی یا بین لااقوامی قانون کے اندر تعزیری جرم شمار نہیں کیا جاتا تھا، کسی تعزیری جرم میں ماخوذ نہیں کیا جائے گا۔(12)کسی شخص کی نجی زندگی، خانگی زندگی،گھر بار،خط و کتابت میں من مانے طریقے سے مداخلت نہیں کی جائے گی اور نہ ہی اسکی نیک نامی پر حملے کیے جائیں گے۔ ہرشخص کو حق حاصل ہے کہ قانون ان حملوں اور مداخلتوں سے محفوظ رکھے۔(13)ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ اسے ریاست کی حدود میں نقل و حرکت اور سکونت اختیار کرنے کی آزادی ہو۔(14)ہر شخص کو حق ہے کہ وہ ملک سے چلا جائے خواہ یہ اس کا اپنا ملک ہی ہواور اسی طرح اسے اپنے ملک واپس آنے کا بھی حق حاصل ہے۔(14.1)ہرشخص کو دوسرے ممالک میں پناہ ڈھونڈنے اور پناہ مل جائے تو اس سے فائدہ اٹھانے کا حق حاصل ہے۔(14.2) یہ حق ان عدالتی کارروائیوں سے بچنے کیلئے استعمال نہیں ہو سکتاجو خالصتاًغیر سیاسی جرائم یا ایسے افعال کی وجہ سے عمل میں آتی ہیں جو اقوام متحدہ کے مقاصداور اصولوں کیخلاف ہیں۔(15.1)ہر شخص کو قومیت کا حق ہے۔(15.2)کوئی شخص حاکم کی مرضی سے قومیت سے محروم نہیں کیا جائے گااور اسے قومیت تبدیل کرنے کا حق دینے سے انکار نہیں کیا جائے گا۔(16.1)بالغ مردوں اور عورتوں کو بغیر کسی ایسی پابندی کے جو نسل،قومیت یا مذہب کی بنیاد پر لگائی جائے شادی کرنے اور گھر بسانے کا حق ہے۔مردوں اور عورتوں کو نکاح، ازدواجی زندگی اور نکاح کو فسخ کرنے میں برابر کے حقوق حاصل ہیں۔(16.2)نکاح فریقین کی پوری آزادی اور رضا مندی سے ہو گا۔(16.3)خاندان معاشرے کی بنیادی اور فطری اکائی ہے اور وہ معاشرے اور ریاست دونوں سے حفاظت کا حقدار ہے۔ (17.1) ہر انسان کو تنہا یا دوسروں سے مل کر جائیداد رکھنے کاحق ہے۔(17.2)کسی شخص کو زبر دستی اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جائے گا۔(18)ہر انسان کو آزادی فکر، آزادی ضمیر،اور آزادی مذہب کا پورا حق حاصل ہے۔اس حق میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ مذہب اور عقیدے کو تبدیل کرنے اور پبلک اور نجی طور پر، تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر عقیدے کی تبلیغ،عمل ،عبادت اور مذہبی رسمیں پوری کرنے کی آزادی شامل ہے۔(19)ہر شخص کو اپنی رائے رکھنے اوراس کا اظہار کرنے کی آزادی کا حق حاصل ہے۔اس حق میں یہ بھی شامل ہے کہ وہ آزادی کے ساتھ اپنی رائے قائم کرے اور جس ذریعے سے چاہے، بغیر ملکی سرحدوں کا خیال کئے، علم اور خیالات کی تلاش کرے، انہیں حاصل کرے اور ان کی تبلیغ کرے۔
(20.1)ہر شخص کو پر امن طریقے سے ملنے جلنے اور انجمنیں قائم کرنے کی آزادی ہے۔ (20.2)کسی شخص کو انجمن میں شامل ہونے کے لیے مجبور نہیں کیا جا سکتا۔(21.1)ہر شخص کو اپنے ملک کی حکومت میں براہ راست یا آزادانہ طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعے حصہ لینے کا حق حاصل ہے۔  (21.2)ہر شخص کو اپنے ملک میں سرکاری نوکری حاصل کرنے کا برابر کاحق ہے۔ (21.3) عوام کی مرضی حکومت کے ا قتدار کی بنیاد ہو گی۔یہ مرضی حقیقی انتخابات کے ذریعے ظاہر کی جائے گی جو عوام اور مساوی رائے دہندگی سے ہوں گے اور جو خفیہ ووٹ یا اس کے مساوی کسی دوسرے آزادانہ طریقہ رائے دہندگی کے مطابق عمل میں آئیں گے۔
…………………… (جاری) 

(22)معاشرے کے رکن کی حیثیت سے ہر شخص کو معاشرتی تحفظ کا حق حاصل ہے اور یہ بھی حق ہے کہ وہ ملک کے نظام اور وسائل کے مطابق قومی کوششوں اور بین لااقوامی تعاون سے ایسے اقتصادی اور ثقافتی حقوق حاصل کرے، جو اس کی عزت اور شخصیت کی آزادانہ نشو و نماکے لیے لازم ہیں۔(23.1) ہر شخص کو کام کاج، روزگار کے آزادانہ انتخاب،کام کاج کی مناسب و معقول شرائط اور بیروزگاری کے خلاف تحفظ حاصل ہے۔ (23.2)ہر شخص کو کسی تفریق کے بغیرمساوی کام کے لیے مساوی معاوضہ کا حق ہے۔

( 23.3)ہر شخص جو کام کرتا ہے وہ مناسب اور معقول معاوضہ کا حق رکھتا ہے جو خود اس کے لیے اور اس کے اہل خانہ کے لیے باعزت زندگی کا ضامن ہواور جس میں اگر ضروری ہوتومعاشرتی تحفظ کے دوسرے ذریعوں سے اضافہ کیا جا سکے۔(23.4)ہر شخص کو اپنے مفاد کے تحفظ کے لیے تجارتی انجمنیں قائم کرنے اور ان میں شریک ہونے کا حق حاصل ہے۔(24)ہرشخص کو آرام اور فرصت کا حق ہے جس میں کام کے اوقات کی حد بندی اور تنخواہ کے علاوہ مقررہ وقفوں کے ساتھ تعطیلات بھی شامل ہیں۔(25.1)ہر شخص کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی صحت اور فلاح و بہبود کے لیے مناسب معیار زندگی کا حق ہے جس میں خوراک، پوشاک، مکان اور علاج کی سہولتیں اور دوسری ضروری معاشرتی مراعات شامل ہیں۔بیروزگاری، معذوری، بیوگی، بڑھاپا یا ان حالات میں روزگار سے محرومی جو اس کے قبضہ قدرت سے باہر ہوں ،کے خلاف تحفظ کا حق حاصل ہے۔(25.2)زچہ و بچہ خاص توجہ اور امداد کے حقدار ہیں۔تمام بچے خواہ شادی سے پہلے پیدا ہوئے ہوں یا شادی کے بعد معاشرتی تحفظ سے یکساں طور پر مستفید ہوں گے۔(26.1)ہر شخص کو تعلیم حاصل کرنے کا حق ہے۔ کم سے کم ابتدائی اور بنیادی درجوں کی تعلیم مفت ہو گی۔ابتدائی تعلیم ضروری ہو گی۔فنی اور پیشہ ورانہ تعلیم حاصل کرنے کا عام انتظام کیا جائے گااور لیاقت کی بنا پر اعلیٰ تعلیم کا حصول سب کے لیے ممکن ہو گا۔(26.2)تعلیم کا مقصد انسانی شخصیت کی نشو و نما ہو گا اور وہ انسانی حقوق اور بنیادی آزادیوں کے احترام میں اضافہ کا سبب ہو گی۔وہ تمام قوموں ، نسلی اور مذہبی گروہوں کے درمیان باہمی مفاہمت، رواداری اور دوستی کو فروغ دے گی اور امن برقرار رکھنے کے لیے اقوام متحدہ کی سرگرمیوں کو آگے بڑھائے گی۔(26.3)والدین کو اس بات کے انتخاب کا اولین حق ہے کہ ان کے بچوں کو کس قسم کی تعلیم دی جائے۔(27)ہر شخص کو قوم کی ثقافتی زندگی میں آزادانہ حصہ لینے ، ادبیات سے مستفید ہونے اور سائنس کی ترقی اور اس سے مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔(27.2)ہر شخص کو حق حاصل ہے کہ ان کے اخلاقی اور مادی مفاد کا بچا? کیا جائے جو اس کی سائنسی، علمی یا ادبی تصنیف سے ، جس کا وہ مصنف ہے سے حاصل ہوتے ہیں (28)ہر شخص ایسے تمام معاشرتی اور بین لاقوامی نظام میں شامل ہونے کا حقدار ہے جس میں وہ تمام آزادیاں اور حقوق حاصل ہو سکیں جو اس اعلامیہ میں پیش کیے گئے ہیں۔(29.1)ہر شخص پر معاشرے کے حقوق ہیںکیونکہ معاشرہ میں رہ کر ہی اس کی شخصیت کی آزادانہ اور پوری نشو و نما ممکن ہے۔(29.2)اپنی آزادیوں اور حقوق سے فائدہ اٹھانے میں ہر شخص صرف ایسی حدود کا پابند ہو گا جو دوسروں کی آزادیوں اور حقوق کو تسلیم کروانے اور اور ان کا احترام کروانے کی غرض سے جمہوری نظام ، امن عامہ اور فلاح و بہبود کے مناسب لوازمات کو پورا کرنے کے قانون کی طرف سے عائد کئے گئے ہیں۔(29.3)یہ حقوق اور آزادیاں کسی حالت میں بھی اقوام متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے خلاف عمل میں نہیں لائی جا سکتیں۔(30) اس اعلامیہ کی کسی بات سے مراد نہیں لی جا سکتی جس سے کسی ملک، گروہ یا شخص کو کسی ایسی سرگرمی میں شامل ہونے یا کسی ایسے کام کو انجام دینے کا حق پیدا ہو جائے جس کا منشا ان کے حقوق اور آزادیوں کو سلب کرنا ہو جو یہاں پیش کی گئی ہیں۔
اس اعلامیہ کی سب سے خاص بات یہ ہے اس میں کسی قسم کے ابہام کی گنجائش نہیں ہے اور اس کی مزید تشریح کی بھی شاید ہی ضرورت ہو۔ ہم نے قارئین کی آگاہی کے لیے اعلامیہ کا من عن اردو ترجمہ پیش کرنے کی ادنیٰ کوشش کی ہے۔پاکستان چونکہ اس اعلامیہ کا غیر مشروط توثیق کنندہ ہے اور ہماری حکومتیں اور ریاست ملک میں انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی نگہبانی اور نفاذ کی پابندہیں اس لیے ہمارا ماننا ہے کہ ہر ذی شعور پاکستانی شہری کو اس اعلامیہ کے مندرجات زبانی یاد ہونے چاہیں تا کہ ملک میں آئے دن ہونے والی قانون سازی اور روز مرہ کے انتظامی معاملات میں انسانی حقوق کے حوالے سے نظر رکھی جا سکے اور برقت درستگی کے لیے نشان دہی اور ممکنہ اقدامات لیے جا سکیں۔ 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ای پیپر دی نیشن