پہلے کیا ہمارے کم مسائل ہیں کہ اب مذہبی انتہا پسندی بھی اپنی انتہا کو چُھو رہی ہے۔ اسلام مسلم سے ہے جس کے معنی سلامتی اور امن کے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام جہانوں کا ربّ اور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ بلاشبہ دین اسلام ہی اللہ تعالیٰ کا پسندیدہ دین ہے۔ بجائے یہ کہ حکم ربی کے مطابق ہم پورے کے پورے دین اسلام میں داخل ہو جائیں اور دوسروں کے لئے سلامتی اور امن کا باعث بنیں۔ اپنے اعمال کی طرف توجہ دیں خود کو ایک سچا اور پکا مسلمان اپنے اعمال سے ثابت کریں نہ کہ دوسروں کے اندر جھانکیں۔ پورے ملک میں مذہبی انتہا پسندی عروج پر ہے۔ ہر روز سننے کو ایسے واقعات ملتے ہیں کہ کسی کو جلا دیا گیا ہے۔ کسی کے گھر کو جلا دیا گیا ہے۔ اس کو لگام دینا ہو گی ورنہ کل کو گلی محلوں میں یہ کام شروع ہو جائے گا کہ فلاں نے نماز نہیں پڑھی، روزہ نہیں رکھا اس کو مار دو۔ نہیں دین اسلام میں یہ چیز نہیں ہے۔
حضرت عیسیٰ علیہ السلام گزر رہے تھے دیکھا کہ ایک شخص کو کئی لوگ مار رہے ہیں۔ پوچھا کہ آپ کیوں مار رہے ہیں بتایا گیا کہ اس نے فلاں گناہ کیا ہے تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا کہ اس شخص کو صرف وہ مارے گا جس نے خود یہ گناہ نہ کیا ہو تو سب کے سر شرم کے مارے جھک گئے۔ تو بات یہ ہے جو لوگ مذہبی انتہا پسندی کے ذمہ دار ہیں ان کو خود شاید اسلام کے مطلب کا علم نہ ہو۔ دوسروں کی جان لینا ان کے گھروں کو جلانا یہ کسی طور پر کسی کو بھی زیب نہیں دیتا۔ کسی نے بھی کوئی غلطی یا جرم کیا ہے تو ریاست موجود ہیں۔ قوانین موجود ہیں، اس کو قانون کے حوالے کیا جائے۔ پھر عدالت فیصلہ کرے کہ حقیقت کیا ہے؟ سوشل میڈیا پر جس قسم کا گند اُچھالا جاتا ہے کہ بس خدا کی پناہ۔ نہ خواتین کی حرمت کا خیال نہ بزرگوں کا لحاظ۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا جو ہمارے بڑوں کا احترام نہیں کرتا اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہیں کرتا وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ سوشل میڈیا والے کیا اللہ تعالیٰ کو جوابدہ نہیں ہیں؟ کیا ان کو موت نہیں آنی؟ ہم اخلاقی طور پر کس حد تک گر چکے ہیں۔ ویسے تو ماشاء اللہ ہم مسلمان ہونے کے بھی دعویدار ہیں۔
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم صحابہؓ کے ساتھ جا رہے تھے اور آہستہ آہستہ چل رہے ہیں۔ صحابہؓ نے پوچھا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آہستہ کیوں چل رہے ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ آپ نے دیکھا نہیں کہ ایک بزرگ ہمارے آگے چل رہے ہیں۔ صحابہؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ وہ تو یہودی ہیں۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ بے شک وہ یہودی ہیں مگر عمر میں تو ہم سے بڑے ہیں۔ بزرگ، خاتم النبیینؐ کی تو ہمیں یہ تعلیم اور حکم ہے۔
سوات میں سیالکوٹ کے ایک لڑکے کو جلا دیا گیا ہے۔ یہ کون لوگ ہیں جو خود کو صرف اسلام کا ٹھیکیدار سمجھ رہے ہیں۔ حضورؐ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ایک وصیت یہ بھی کی تھی کہ علی رضی اللہ عنہ کسی کو بھی آگ کا عذاب نہ دینا سمجھ میں نہیں آتا کہ ہماری ریاست کی رٹ کہاں ہے؟ ہماری اعلیٰ عدلیہ کہاں ہے؟ حکومت کیوں نوٹس نہیں لیتی؟ ہمارا ملک تو پہلے ہی مسائلستان کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ احترام انسانیت بھی مفقود ہو گیا ہے۔
آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا
دلوں کے بھید تو صرف اللہ پاک جانتا ہے۔ ارشاد فرمایا ’’مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں‘‘ بجائے دوسروں کو بلاوجہ تنقید کا نشانہ بنائیں۔ ان کے باطن میں جھانکنے کی کوشش کریں ساری توجہ اپنی ذات پر مرکوز رکھیں۔ اپنے اعمال سے دوسروں کے لئے راحت کے سامان پیدا کریں۔ دوسروں کے معاملات اللہ تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ ایک صحابی نے جب ایک شخص کو قتل کر دیا حالانکہ اس نے کلمہ پڑھ لیا تھا جب آپؐ کو علم ہوا تو بہت پریشان ہوئے۔ صحابیؓ نے عرض کیا اے اللہ کے رسولؐ اس نے خوف سے کلمہ پڑھا تھا۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا کیا تم نے اس کا دل چیر کر دیکھا تھا؟ اللہ اکبر۔
بلاتفریق رنگ و نسل، مذہب و ملت ہمیں سب کے احترام کا حکم دیا گیا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اگر کوئی بھی کسی قسم کی توہین کا مرتکب ہوتا ہے تو فوراً ریاست کے نوٹس میں لایا جائے۔ بجائے یہ کہ قانون ہاتھ میں لے کر خود ہی وکیل، خود ہی منصف بن جائیں۔ یہ کسی بھی طرح مناسب نہیں ہے۔ آج آپ دوسروں کے مذہب کا تہہ دل سے احترام کریں گے تو وہ بھی آپ کے مذہب کا احترام کریں گے۔
آدم کے کسی روپ کی تحقیر نہ کرنا
پھرتاہے بندوں میں خدا بھیس بدل کر
٭…٭…٭