فوج سے اکیلے بات کرنے کا فائدہ نہیں گرینڈ ڈائیلاگ ضروری ہیں، فواد چوہدری۔
پاکستان میں سب کچھ ہے اگر کچھ موجود نہیں ہے تووہ ہمارے سیاست دانوں کے مابین اتحاد و اتفاق اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے کا حوصلہ ہے۔حکومت اپوزیشن کو کہتی ہے آئیں بیٹھیں بات کریں، مل کر چلیں۔اپوزیشن کہتی ہے پہلے ہمارا مینڈیٹ ہمیں لوٹاؤ۔ ان کے دعوے کے مطابق آٹھ فروری کے انتخابات میں 180 نشستیں حاصل کی تھیں۔یہ ایسا مطالبہ ہے جو کسی دور میں رادھا نے کیا تھا کہ نو من تیل لایا جائے پھرمیں ناچوں گی۔یہ ان وقتوں کی بات ہے جب نومن تیل اکٹھا کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف یعنی ناممکن تھا۔ آج کی رادھا جس کا ناچنے کو من نہ چاہ رہا ہو وہ نومن تیل لانے کی شرط اس لیے نہیں رکھے گی کہ اسے یقین ہے کہ اگر وہ 20 من تیل لانے کا بھی کہے تو وہ چندکولہوؤں سے لایا جا سکتا ہے۔فواد چوہدری بڑے پتے کی بات کرتے ہیں مگر وہ خود لاپتہ لاپتہ سے رہتے ہیں۔گو وہ اس طرح سے لاپتہ نہیں ہوئے جس طرح سے کئی لوگ ہو گئے۔ ان کو اٹھانے کی ضرورت بھی پیش نہیں آتی کیونکہ جیسے ہی ان کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے وہ خود ہی اٹھ کے چل پڑتے ہیں۔ان سے سوال کیا جاتا ہے آپ تحریک انصاف میں کب جا رہے ہیں تو ان کا جواب ہوتا ہے تحریک انصاف تو میں نے کبھی چھوڑی ہی نہیں تھی۔ اب کے تازہ ترین انٹرویو میں انہوں نے کہا ہے ہم جو کچھ ہیں تحریک انصاف کی وجہ سے ہیں، ہماری تو پہچان ہی پی ٹی آئی ہے، اسی جماعت میں تھے، ہیں اور رہیں گے۔ آئی پی پی کا جنم ہوا تو تحریک انصاف کے بہت سے لیڈر پہلے اجتماع کے موقع پر موجود تھے ان میں ایک شخص چہرہ چھپانے کی کوشش کر رہا تھا۔ بالآخر کیمرہ مین ان کا چہرہ دکھانے میں کامیاب ہو گیا۔فواد چوہدری کہتے ہیں ان کی عمران خان کے ساتھ دو ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔وہ کہتے ہیں تحریک انصاف میں بڑے لیڈر نہیں رہے تو چھوٹے لیڈر سامنے آگئے چندایک کا نام لے کے انہوں نے چوہے بھی قرار دے دیا۔ان کے بیانات سے کبھی کبھی ابہام پیدا ہوتا ہے کہ وہ ہیں تو کس کے ساتھ ہیں، کس کے ساتھ نہیں ہیں۔ ان سے پوچھا جائے آپ کے کس کس کے ساتھ ہیں، ہو سکتا ہے سچ کہہ دیں کہ میں جْماں جنج دے نال آں۔
٭…٭…٭
انتخابات پاکستان کا اندرونی معاملہ امریکی قرارداد مسترد کرتے ہیں ،حافظ طاہر اشرفی۔
بس جی اب سمجھیں کہ اس قرارداد کی کوئی حیثیت نہیں رہی کیونکہ ایک تو اس کو مسترد کرنے کا اعلان حافظ طاہر اشرفی صاحب کی طرف سے کیا گیا ہے اور دوسرے اقبال اختر ڈار نے بھی اس قرارداد کو پاکستان کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا ہے۔ اقبال ڈار صاحب پاکستان تحریک انصاف نظریاتی کے چیئرمین ہیں۔چند مہینے پہلے ان کے دستخط ایک دن کے لیے تاریخ ساز اور ریکارڈ ساز بن گئے تھے جب تحریک انصاف کی طرف سے بلے باز کے نشان سے اپنے امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے گئے تھے۔یہ سردیوں کا موسم تھا اور سردی اتنی زیادہ تھی کہ اگلے روز ڈار صاحب اپنے پاسے سیکتے ہوئے نظر آئے۔حافظ طاہر اشرفی صاحب کا تخلص اشرفی بڑا زبردست ہے یہ تخلص لقب یا خطاب انہوں نے اشرافیہ سے لیا ہے یا کسی دور کے سکہ رائج الوقت ’’اشرفی‘‘ سے۔ مگر قوی امکان یہ ہے کہ یہ لفظ ان کی طرف سے اشرف المخلوقات سے اخذ کیا گیا ہے ان کا تعلق واقعی اشرف و اعلیٰ ایلیٹ سے ہے۔جس کا ادراک ماضی کی حکومتوں کو ہوتا رہا ہے لیکن آج کی حکومت کو حافظ صاحب نظر نہیں آتے۔وہ عمران خان کی حکومت میں وزیر رہے۔شہباز شریف حکومت آئی تو وزارت کا عہدہ مزید اجلا کرکے زیب تن کرایا گیا۔ نگران آئے تو انہوں نے بھی ان کو وزیر بنانا ناگزیر سمجھا۔شہباز شریف کی سربراہی میں آج پھر وہی جماعتیں اقتدار میں ہیں جو چند ماہ قبل اشرفی صاحب کی معیت میں حکومت میں تھی۔مگر آج حکومت میں اگر نہیں ہیں تو حافظ طاہر اشرفی صاحب نہیں ہیں۔یہ بیان دے کے انہوں نے حکومت کو بتا دیا ہے کہ ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔
٭…٭…٭
پیٹرول مہنگا ہونے کا امکان۔ آئل کمپنیوں نے پمپس کو سپلائی روک دی۔
جس روز کمپنیوں کی طرف سے سپلائی روکنے کی خبر آئی اس کے بعد قیمتوں کے رد بدل میں چار دن باقی تھے۔کمپنیوں نے وہ پیٹرول، پمپس کو فراہم کرنا ہے اور اسی ریٹ پر کرنا ہے جس ریٹ پر انہوں نے خریدا ہے۔لالچ کہیں ختم نہیں ہوتا جب پٹرول مہنگا ہوگا اس کی سپلائی ان کے پاس آئے گی تو اسی ریٹ پر انہوں نے پمپس کو فراہم کرنا ہے۔اب اگلے دنوں کے لیے ان کے پاس آج کے ریٹ پر پیٹرول آتا رہے گا اور تین چار دن ان کے پاس پڑا پڑا اتنا منافع بخش ہو جائے گا جتنا حکومت کی طرف سے پٹرولم کی قیمت میں اضافہ کیا جائے گا۔پمپ مالکان بھی اتنے ہی بڑے گرو ہیں۔ ان کی طرف سے بھی خسارے کا سودا نہیں کیا جاتا۔ان کو بھی جیسے ہی بھنک پڑتی ہے کہ پٹرول مہنگا ہونے جا رہا ہے تو ’’پٹرول ڈیزل کی سپلائی بند ہے‘‘کا بورڈ لگا دیتے ہیں۔بعض پمپ والے ایک بندہ انٹرنس پر کھڑا کر دیتے ہیں جس کی زبان بند ہاتھ کے اشارے سے بتاتا ہے کہ پٹرول دستیاب نہیں ہے۔ایسے عناصر کا بڑا آسان علاج ہے جو حکومت کو مہنگا پڑ سکتا ہے کہ 15 روپے فی لیٹر پیٹرولیم مصنوعات میں کمی کر دی جائے۔حکومت کو اس سے بھی خسارہ نہیں ہے کیونکہ پہلے ہی کافی منافع بٹورا جا رہا ہے۔کمپنیاں اور جان بوجھ کر پٹرول شارٹ کرنے والے پمپ مالکان کیا لاتوں کے بھوت ہیں جو باتوں سے نہیں مانتے۔
٭…٭…٭
مطالبات کی منظوری تک بھٹے بند کرنے کا اعلان۔
پنجاب کے بھٹہ مالکان نے 15 جولائی سے مطالبات کی منظوری تک بھٹے بند کرنے کا اعلان کیا ہے۔ویسے جتنا حبس 15 جولائی تک ہو چکا ہوتا ہے اس دوران بھٹوں کا بند رہنا ہی بہتر اور مناسب ہے۔ویسے گفتگو میں بھٹہ بیٹھ جانا محاورتاً استعمال ہوتا ہے۔یہ کاروبار کے شدید نقصان کے معنوں میں لیا جاتا ہے۔کسی وجہ بھٹے میں اینٹیں پک نہ سکیں تو اسے بھٹہ بیٹھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔مٹی کی اینٹیں نہ پکیں تو کاروبار مٹی و مٹی ہو جاتا ہے۔بھٹے والوں کو کیا سوجھی کہ یہ بھی ہڑتال پر جانے لگے ہیں۔بھٹے پر کام کرنا بڑی مشقت ہے۔اگر کسی کو اس کے خون پسینے کی کم سے کم اجرت دی جاتی ہے تو وہ بھٹے کے مزدور ہیں۔پورے کا پورا خاندان بچوں سمیت مٹی کی اینٹیں بناتا ہے لیکن ان کا چولہا جلتا بجھتا رہتا ہے۔حکومت کی طرف سے کچھ قوانین بنائے گئے ہیں جو بھٹہ مالکان کو پسند نہیں آئے۔اس میں جبری مشقت اور چائلڈ لیبر کے خاتمے سمیت مزدور کی کم از کم اجرت کا تعین بھی شامل ہے۔انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے بھٹوں پر جبری مشقت، چائلڈ لیبر اور انتہائی کم معاوضہ دیئے جانے پر اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں۔بھٹہ مالکان کہتے ہیں کہ پاکستان میں بھٹہ انڈسٹری بحران اور مشکلات کا شکار ہے، اس انڈسٹری کے لیے زمینی حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے لائحہ عمل اور خصوصی قوانین بنانے کی ضرورت ہے۔ان کی طرف سے مکھی پر مکھی ماری جاتی رہی ہے۔اس انڈسٹری میں کسی قسم کی جدت نہیں آئی۔یہ تو نہیں کہا جا سکتا کہ یہ اینٹوں کو ریفائن کریں یا ری سائیکل کر لیں لیکن اس کا کچھ نہ کچھ متبادل تو نکالیں۔اینٹ کا جو سائز باوا آدم سے چلا رہا ہے وہی اب تک موجود ہے۔وہی مٹی،وہی دھواں چھوڑتی اور آلودگی پھیلاتی چمنی۔ وہی ننگ دھڑنگ مزدور اور ان کے لسی مرچ کیساتھ شدید اور حبس میں ٹھنڈی روٹی کھاتیبچے، وہی پرانی اجرت اور ان کی عسرت ہے۔اپنے کام میں جدت لائیں مشینری کا استعمال کریں۔ اینٹوں کے ساتھ ساتھ سیمنٹ کے بلاک بنانے کی طرف آئیں۔کہیں فائبر اور دوسرا مٹیریل استعمال کریں۔