بجٹ میں ریلیف کے  حکومتی دعوے اور حقائق

 سینئر پارلیمنٹیرینز کے وفد سے ملاقات کے دوران وزیراعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ نئے مالی سال کے بجٹ میں عام آدمی کو ریلیف دینے کیلئے بھر پور اقدامات اٹھائے ہیں، بجٹ میں آئی ٹی کے شعبے کے فروغ کیلئے تقریبا 100 ارب، سکلز ڈویلپمنٹ اور کھیلوں کے شعبے کیلئے بھی تاریخی فنڈز مختص کئے گئے ہیں۔دوسری جانب ماہانہ فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کی مد سینٹرل پاور پرچیزنگ ایجنسی (سی پی پی اے) نے بجلی کی قیمتوں میں اضافے کی درخواست نیپرا میں جمع کرا دی جس کے تحت بجلی کی قیمتوں میں 3 روپے 41 پیسے فی یونٹ مزید اضافے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے۔ گندم کی قیمت میں اضافے کے ساتھ ہی آٹے کی قیمت دوبارہ بڑھنے لگی۔لاہور میں آٹے کے 20 کلو تھیلے کی قیمت 150 روپے تک بڑھ گئی ہے جبکہ 10 کلو آٹے کا تھیلا75 روپے اضافے کے بعد 975 روپے کا ہوگیا ہے۔
بجٹ میں بھرپور ریلیف دینے کے حکومتی دعوئوں کے باوجود عوام کو گھریلو استعمال کی عام اشیائسمیت کسی چیز پر بھی ایک دھیلے کا ریلیف ملتا دکھائی نہیں دے رہا۔ بجٹ کی منظوری کے بعد کھانے پینے کی چیزوں پر بھاری ٹیکس عائد کرکے انکی قیمتیں آسمان تک پہنچا دی گئی ہیں۔ گھی‘ کوکنگ آئل اور مشروبات پر 70 سے 80 روپے ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے جبکہ صابن‘ شیمپو اور ایک کلو سرف کے پیکٹ پر 18 سے 70 روپے‘ 200 ملی لیٹر (ایک پائوسے کم) ڈبہ پیک دودھ‘ کریم اور چھوٹے ڈبے والے جوسز پر 30 سے 35 روپے اضافی ٹیکس کے ساتھ عوام کو انکی خریداری پر بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے جبکہ دال‘ چاول‘ چینی اور مصالحہ جات پر بھی اسی تناسب سے بھاری ٹیکس عائد کرکے انہیں عام آدمی کی دسترس سے باہر کر دیا گیا ہے۔ گزشتہ روز آٹے کی قیمت میں 150 روپے تک اضافہ کر دیا گیا جو وفاق بالخصوص پنجاب حکومت کیلئے لمحہ فکریہ ہے جو عوام کو سستی روٹی اور سستا آٹا فراہم کرنے کیلئے حتیٰ الوسع اقدامات اٹھا رہی ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ریلیف دینے کے حکومتی دعوے محض دعوے ہی ثابت ہو رہے ہیں۔ دو روز قبل حکومت کی جانب سے قوم کو شدومد کے ساتھ انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ کئے گئے معاہدوں پر نظرثانی کا مژدہ سنایا گیا تھا جس پر قوم کو امید بندھی تھی کہ کم از کم بجلی کے بلوں میں عائد ناجائز رقوم میں کمی سے انہیں کچھ نہ کچھ ریلیف مل جائیگا لیکن گزشتہ روز سی پی پی اے نے بجلی کے نرخوں میں مزید 3 روپے 41 پیسے فی یونٹ اضافے کی درخواست دیکر نہ صرف حکومتی دعوئوں کی قلعی کھول دی بلکہ عوام کی امیدوں پر بھی پانی پھیر دیا۔ اگر بجلی کے نرخوں میں مزید اضافہ کی منظوری دی گئی اور بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کی تجاویز کو درخوراعتناء نہیں سمجھا گیا تو اس سے عوامی اضطراب میں اضافہ ہوگا جو حکومت کیلئے مشکلات پیدا کر سکتا ہے۔ بہتر ہے کہ زبانی جمع خرچ کے بجائے حکومت عوام کو حقیقی ریلیف دینے کے اقدامات اٹھائے۔
جواب دیا جانا چاہیے۔

ای پیپر دی نیشن