دہرے معیار کو اجاگر کرتی امریکی دفتر خارجہ کی رپورٹ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیوملر نے کہا ہے کہ پاکستان میں اظہار رائے کی آزادی اور پرامن اجتماع کے حقوق کا احترام کیا جائے۔ حکومت پاکستان اس معاملہ میں آئینی‘ بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے۔ گزشتہ روز وائٹ ہائوس میں پریس بریفنگ کے دوران امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ پاکستان اس معاملہ میں آئینی اور بین الاقوامی ذمہ داریاں پوری کرے۔ انہوں نے پاکستان کے حالیہ انتخابات کے حوالے سے امریکی کانگرس میں منظور ہونیوالی قرارداد پر تبصرے سے گریز کیا۔ 

میتھیو ملر کے مطابق امریکی محکمہ خارجہ نے بین الاقوامی مذہبی آزادی پر سالانہ رپورٹ جاری کر دی ہے جس میں بھارت اور پاکستان میں مذہبی آزادی کے معاملات کا تذکرہ کیا گیا ہے جبکہ اس رپورٹ میں بھارت میں مذہبی آزادی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں مسلم اور مسیحی برادری کے ساتھ ناروا سلوک کیا جارہا ہے۔ بھارت میں مسیحیوں اور مسلمانوں کو زبردستی مذہب تبدیل کرنے پر پابندی کے قوانین کے تحت گرفتار کیا جاتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارت میں اقلیتی گروہوں کے ارکان کو جھوٹے اور من گھڑت الزامات پر ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری ہے جبکہ مسیحی برادری کیخلاف پرتشدد واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔ رپورٹ کے مطابق بی جے پی کے ارکان کے اقدامات اور بیانات حکومتی عہدیداروں کے مثبت بیانات سے متصادم رہے ہیں۔ بھارتی حکومت کو اقلیتی گروپوں کیخلاف تشدد کے ذمہ داروں کے خلاف تحقیقات اور قانونی کارروائی کرنی چاہیے۔ 
رپورٹ میں مذہبی آزادیوں کے معاملہ میں زیادہ تر پاکستان کو ہی فوکس کیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ سال 16 افراد کو انکے عقیدے کی وجہ سے قتل کیا گیا جبکہ مسلح فرقہ پرست گروہ مذہبی اجتماعات اور عمارتوں کیخلاف پرتشدد کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ امریکی دفتر خارجہ کی اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں گزشتہ برس 329 افراد پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا اور سوشل میڈیا پر توہین مذہب کے الزام میں 40 افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ گیارہ افراد کو سزائے موت سنائی گئی۔ امریکی حکام کے مطابق نیشنل کرائمز ریکارڈ بیوو نے پاکستان میں سال 2022ء میں فرقہ ورانہ تشدد کے 272 واقعات رپورٹ کئے تھے۔ 
بے شک اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے چارٹر میں بھی اقوام متحدہ کے رکن ممالک کی آزادی و خودمختاری کے احترام و تحفظ کے ساتھ ساتھ ان ممالک کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق اور سماجی و مذہبی آزادیوں کی پاسداری کا بھی کہا گیا ہے۔ اگر سلامتی کونسل کے ویٹوپاور رکھنے والے رکن ممالک سمیت اقوام متحدہ کے تمام رکن ممالک اپنے شہریوں کے بنیادی حقوق اور پرامن بقائے باہمی کے آفاقی اصول کو ملحوظ خاطر رکھیں تو ریاستوں کی سطح پر کسی پیچیدہ اور بڑے تنازعہ کی نوبت ہی نہ آئے اور یہ کرہ ارض امن و سلامتی کا گہوارہ بن جائے۔ بدقسمتی سے اقوام متحدہ کے رکن بڑے ممالک بالخصوص امریکہ نے انسانی حقوق اور بین المملکتی تعلقات کے معاملہ میں دہرے معیار اپنا رکھے ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے رکن ممالک امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل نے بالخصوص مذہبی امتیاز کے تناظر میں مسلم امہ اور مسلم ممالک کیخلاف باہم گٹھ جوڑ کر رکھا ہے جو مسلم ممالک کیخلاف دہشت گردی کا پراپیگنڈا بھی کرتے ہیں اور خود مسلم ممالک میں دہشت گردی کے مرتکب بھی ہوتے ہیں۔ 
اقوام متحدہ کے چارٹر میں تو اقوام متحدہ کے رکن ممالک میں چھوٹا یا بڑا ہونے کے تناظر میں کسی قسم کا امتیاز روا نہیں رکھا گیا اور ریاستوں کی آزادی و خودمختاری اور انسانی حقوق کا احترام سب پر لازم ہے مگر امریکہ‘ بھارت اور اسرائیل نے اپنے باہمی گٹھ جوڑ کے تحت خود کو یواین چارٹر سے مبرا سمجھ لیا ہے جو صہیونیت اور ہندوتوا کے تحت دوسرے مذاہب کے لوگوں بالخصوص مسلمانوں کے انسانی حقوق اور انکی مذہبی آزادیاں سلب کرنا اپنا حق گردانتے ہیں۔ کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل کے جاری ننگ انسانیت مظالم اس کا بین ثبوت ہیں اور بھارت میں تو ہندو انتہاء پسند بی جے پی کے اقتدار کے تسلسل کے نتیجہ میں مسلمانوں‘ سکھوں‘ مسیحیوں حتیٰ کہ نچلی ذات والے دلت ہندوئوں کا بھی عرصہ حیات تنگ رکھنا بی جے پی کی مودی سرکار نے اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہوا ہے۔ وہاں مسلمان اقلیتوں کو تو تقسیم ہند کے بعد سے اب تک بطور بھارتی شہری تسلیم ہی نہیں کیا گیا جن کی مذہبی آزادی بھی سلب ہے اور مقبوضہ کشمیر کے شہریوں کو تو مسلمان ہونے کے ناتے کسی قسم کے بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں۔ جن پر گزشتہ 75 سال کے دوران ڈھائے گئے مظالم ایمنسٹی انٹرنیشنل کی سالانہ رپورٹوں میں اجاگر کئے جاتے رہتے ہیں جو انسانی حقوق کی پامالی کی بدترین مثال ہے اور انسانی حقوق کے علمبردار عالمی اداروں اور عالمی قیادتوں کیلئے چشم کشا ہونے چاہئیں۔ مگر انسانی حقوق کے حوالے سے ان اداروں کی رپورٹوں میں اور عالمی قیادتوں کی جانب سے مقبوضہ کشمیر کی صورتحال کو یکسر نظراندز کیا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکی دفتر خارجہ کی حالیہ رپورٹ میں بھی کشمیر اور فلسطین میں بھارت اور اسرائیل کے ہاتھوں انسانی حقوق کی پامالی کو یکسر نظرانداز کیا گیا ہے۔ اس رپورٹ میں بھارتی اقلیتوں کے حقوق کی پامالی کا تذکرہ بھی انتہائی نرم اور معذرت خواہانہ الفاظ میں کیا گیا ہے جبکہ وہاں سکھ کمیونٹی کیخلاف جاری حکومتی مظالم کا اس رپورٹ میں تذکرہ تک نہیں کیا گیا حالانکہ کینیڈا‘ امریکہ سمیت مختلف ممالک میں سکھ رہنمائوں کے قتل کے واقعات اور سکھوں کے قتل کی جاری بھارتی سازشوں کا امریکی انتظامیہ نوٹس بھی لے چکی ہے اور امریکہ میں ایک سکھ شہری کے قتل کی سازش پر بھارت سے جواب بھی طلب کرچکی ہے مگر امریکی دفتر خارجہ کی رپورٹ میں بھارتی سکھ اقلیت کیخلاف مودی سرکار کے مظالم پر دانستاً آنکھ بند رکھی گئی ہے جو یقیناً بھارت کی سرپرستی کرنیوالی واشنگٹن انتظامیہ کے دہرے معیار کی عکاسی ہے۔ 
طرفہ تماشا یہ ہے کہ انسانی‘ مذہبی حقوق کی پامالیوں کے حوالے سے اس رپورٹ میں تنقیدی نگاہوں کا رخ بالخصوص پاکستان پر مرکوز کیا گیا ہے۔ ایسے ہی جانبدارانہ رویے کا مظاہرہ امریکی کانگرس میں پاکستان کے نظامِ انتخاب کیخلاف قرارداد کی منظوری کی صورت میں کیا گیا جس کا دفتر خارجہ پاکستان اور قومی سیاسی قیادتوں کی جانب سے سخت نوٹس لیا گیا اور اس قرارداد کی مذمت کیلئے پاکستان کی پارلیمنٹ میں بھی قرارداد لانے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ 
جہاں تک پاکستان میں مذہبی آزادیوں کا معاملہ ہے‘ اس پر پاکستان کی ہندو‘ سکھ اور مسیحی کمیونٹی کی جانب سے ہمیشہ اطمینان کا اظہار کیا جاتا ہے اور اگر کچھ شدت پسند لوگ توہین مذہب کے نام پر کسی مسیحی باشندے یا دوسرے پاکستانی شہری کی جان لیتے یا حملہ آور ہوتے ہیں تو ایسے اقدامات پر پاکستان کے عوام ہی نہیں‘ حکومت کی جانب سے بھی سخت نوٹس لیا جاتا ہے۔ اس تناظر میں امریکی دفتر خارجہ کی رپورٹ کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف اسکے دشمنوں کے ایجنڈے کو فروغ دینے کے اقدام سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن