بہت سے افریقی معاشروں میں بیوہ کے وراثت میں منتقل ہونے کی اب بھی روایت موجود ہے۔ خاص طور پر خاندان اور قبیلے کے مفادات کے تحفظ سے متعلق اقدار اور رسم و رواج کے زیر انتظام علاقوں میں ایسا ہوتا ہے۔ ان علاقوں میں نوجوانوں کو خاندان کے لیے قربانی دینا ہوتی ہے اور میت کے بچوں کو پالنے، اس کے مال و مرتبہ کو سنبھالنے کی ذمہ داری اٹھانا ہوتی ہے۔سب صحارا افریقی معاشروں میں پیش رفت ہوئی اور بہت سے پرانے رسم و رواج سے چھٹکارا پانے میں ان میں سے کچھ نے کامیابی حاصل کرلی ہے تاہم اس کے باوجود مرنے والے کی بیویوں کو وراثت میں لینے کے رواج پر قابو پانا اب بھی مشکل ہے۔ یہاں تک کہ دیہی معاشروں میں یہ رواج تیزی سے مسلط ہو رہا اور اس پر فخر کا اظہار کیا جارہا ہے۔ان رسموں کے تحت مرد کا ، خواہ وہ جوان ہو یا شادی شدہ، اپنے متوفی رشتہ دار کی بیوہ کے ساتھ تعلق قائم کیا جاتا ہے۔ اس نے خاندان میں میت کی وراثت کو محفوظ رکھنا ہوتا ہے پھر چاہے یہ میراث زمین، اولاد، پیسہ، یا وقار، یا قبیلہ ہو یا ایک سماجی مقام ہو وہ سب اس کو منتقل ہوجاتا ہے۔وہ شخص جو اکثر متوفی کا بڑا بھائی یا اس کا کزن ہوتا ہے اگر اس رسم کا احترام کرتا اور اس پر عمل کرنے کی خواہش کا اظہار کرتا ہے تو اس کے خاندانی ماحول میں اس کی بے حد تعریف اور عزت ہوتی ہے کیونکہ اس نے عوامی مفاد کو ترجیح دی ہے۔ بہت سے معاملات میں یہ رواج نوجوانوں کی خوشی اور زندگی میں ان کے انتخاب کو متاثر کرتا ہے۔دوسری طرف جب بھی کوئی آدمی اپنے رشتہ دار کی وراثت میں ملنے والی بیوی کو مسترد کرتا ہے تو وہ بہت سی ایسی مثبت چیزوں سے محروم ہوجاتا ہے جس سے اس کی سماجی حیثیت مضبوط ہونا تھی۔وراثت میں ملنے والی عادتاس حوالے سے سینیگال کے محقق مامادو تراوی نے بتایا کہ بہت سے معاشروں میں بیویوں کی وراثت ایک ایسا رواج ہے جو خاندان اور قبیلے کی ضروریات کے مطابق ہے۔ اس لیے اسے ایک سماجی رواج کے طور پر نافذ کیا جاتا ہے لیکن اکثر اوقات میں یہ فرد کو موافق نہیں آتا۔ چاہے وہ مرد ہو جسے کسی دوسرے مرد کی وراثت کو قبول کرنا ہو یا وہ بیوہ ہو جو اپنے مرحوم شوہر کے بعد اپنی پسند کے تحت آزاد رہنا چاہتی ہو لیکن اسے شوہر کے رشتہ دار کے ساتھ رہنا ہوتا ہو۔ انہوں نے کہا سب صحارا کے علاقے کے قبائل کا ماننا ہے کہ اس شادی کو قبول کرنا خاندان اور قبیلے کے لیے احترام اور شکر گزاری کا مظاہرہ ہے۔العربیہ ڈاٹ نیٹ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کچھ قبائل کے لیے اس رواج کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اثاثے اور وراثت کو کسی مردہ شخص سے کسی زندہ شخص کو منتقل کیا جائے۔ بلکہ اس وراثت میں سب سے بڑھ کرحیثیت، کام اور سماجی کردار کی منتقلی ہے۔انہوں نے بتایا کہ خاندان کی جانشینی اور ذمہ داری قبول کرنے کے لیے سماجی اور فعال کاموں کو انجام دینے کے ساتھ ساتھ وراثت کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ وہ متوفی کی بیوی اور بچوں کی وراثت کا انتظام بھی سنبھالے گا۔ بہت سے معاملات میں اس وراثت کو قبول کرنے والے مرد کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ وہ میت کے خاندان کی ذمہ داری سنبھالے اور اس کے بچوں اور بیوی کی تمام ضروریات کو پورا کرے یعنی اس کے لیے متوفی کی بیوہ سے شادی کرنا ضروری نہیں ہوتا۔