دنیا کے سب ممالک کو عموماً مسلمان ممالک اور روس سے آزاد ہونیوالے درجنوں ممالک سے خصوصاً ایک سوال ہے‘ کیا وجہ ہے کہ آپ نے 1995 میں قائم شدہ حکومت افغانستان کو تسلیم نہیں کیا تھا؟ کیا آپ اس سرد مہری کی وجہ سے افغان قوم کوکالے ادوار میں دھکیلنے کے مرتکب نہیں ہوئے تھے اس غریب ترین ملک کی تعمیر نو کیلئے آپ نے کتنا پیسہ وقف کیا؟ ایک بربادشدہ سٹیٹ کو گلوبل دھارے میں لانے کیلئے آپ نے کتنی کوشش کی؟ ظاہر ہے کہ ان سب کا جواب نفی میں ہے۔ایک بات ضرور کہی جائیگی‘ خصوصاً اہل مغرب اور ہمارے سکیولرذہن رکھنے والے لوگوں کی طرف سے کہ وہاں دین اسلام extremism نافذ کرکے ملاعمر نے غلطی کی تھی۔ یہ دلیل بہت عرصہ سے دی جارہی ہے جس کا ہدف دین اسلام کو کمزور کرنا اور مسلمانوں کی آزادی کی تحریکوں کو ختم کرنا ہے اس کی مثالیں بے شمار ہیں یعنی الجزائر میں جمہوریت پر حملہ ترکی میں سیکولزم کو سہارا، یوگوسلاویہ کو مسلمانوں کی نسل کشی چیچنیا میں قتل عام جنوبی سوڈان میں بغاوت کوسہارا فلسطین میں حماس اور لبنان میں حزب اللہ کی مخالفت وغیرہ شامل ہیں۔ ان سب زیادتیوں کا جائزہ لیاجائے تو روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گا کہ یہ اسلام دشمنی تھی کہ ملا عمر کو تنہا چھوڑ دیا گیا تھا۔
افغانستان میں ملاعمرکے رفقاء نے ایک جگہ بت شکنی ضرور کی تھی جس کو اسلامی لحاظ سے بھی سراہا نہیں گیا تھا لیکن یہ گناہ ایسا بھی نہیں تھا کہ پوری دنیا ان سے روٹھ جائے اور انہیں ریاست کے طور پر تسلیم ہی نہ کریں۔ ہندوستان کے ہندوؤں نے بابری مسجد کو مسمار کیا۔ گجرات میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہلاک کیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ کرکے مسلمان زائرین کو ہلاک کیا۔ فلسطین میں، لبنان میں ، اسرائیل کی جارحیت لگاتار جاری ہے یوگو سلاویہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ چیچنیا میں قتل وغارت کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کہیں بھی diplomatic non recognition تک سوچا بھی نہ گیا۔ صرف افغانستان ہی بے چارہ ملک ہے جہاں ازحد بے رخی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان درندوں نے تو طالبان حکومت مخالف شمالی اتحاد کے لوگوں کو تیار کرنا شروع کردیا تاکہ طالبان حکومت کو شکست دے دی جائے۔ اس گھناؤنی سازش میں ہندوستان اور امریکہ شامل تھے۔ ابھی انکشاف ہوا ہے کہ ببرک کارمل اور نجیب اللہ اور یہودی تھے ظاہر ہے اس انکشاف سے مغربی دنیا کی بہت ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔
ان حالات میں نیویارک کا 9/11 کا حادثہ درپیش ہوا اورامریکہ نے اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چونکہ اسامہ اس وقت افغانستان میں مقیم تھا جسے امریکہ نے بطور مجرم طلب کیا۔ ملا عمر نے ایک اصولی موقف اختیار کیا کہ اسامہ کسی اسلامی ملک کو دے دیا جائے جہاں اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اگر وہ قصور وار ٹھہرا تو سزا دی جائے لیکن امریکہ نے یہ شرط نہ مانی اور افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ وقتی طور پر ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ ایک سپر پاور کیساتھ جو کچھ 9/11 کو ہوا اس پر امریکہ کا شدید ردعمل جائز قرار دیا جاسکتا ہے چلو اسامہ کے پیروکاروں اور ملا عمر کے ہمنواؤں کو مارنا بھگانا وغیرہ بھی صحیح سمجھا جا سکتا ہے لیکن جو سوال پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اب جبکہ اسامہ بھی روپوش ملاعمر بھی غائب نہ ان کی فوج نہ جہاز نہ ٹینک نہ پیسہ نہ انتظامیہ ان کا تو صرف نام ہی باقی ہے۔ اب اس افغان قوم واسامہ بن لادن کے نام پر ملا عمر کی ماضی کی حکومت کے نام پر ان بیس ملین آبادی کو کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ اگر اسامہ کا قصور تھا تو وہ سزاوار سہی لیکن تیس سال سے گھروں سے نکلے ہوئے بچوں عورتوں بوڑھوں اور نوجوانوں کا کیا قصور کہ انہیں دشمن قرار دیکر ذلیل وخوار کیا جارہا ہے جب ملا عمر کو شکست فاش ہوگئی اور اسکے پیروکاروں کو اذیتیں دیکر مار ڈالا گیا ہے اور وہ ہلاک یا تتربتر ہوچکے ہیں تو یہ جملہ لڑائی جارحیت ختم کیوں نہیں کی جاتی امریکہ اور نیٹو افغانستان پر قبضہ جمانے کیلئے کیوں مصر ہیں۔
افغانستان کے بیس ملین لوگ پتھروں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ انکے جوان لوگ مرچکے ہیں بیوائیں اور بچے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ملک کھنڈرات بن چکا ہے درخت گرچکے ہیں۔ زمین بنجر ہوچکی ہے اب دنیا کو بس کرنی چاہئے رحم اور فراخدلی دکھانی چاہیے۔ امریکہ اور نیٹو کو چاہیے کہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں اور ان غریبوں کو اپنے حال پر چھوڑیں اگر اقتصادی امداد دینا چاہیں تو افغانستان کے لوگوں کو حق ہے لیکن اگر نہ بھی دیں تو وہ اس سرد مہری کو برداشت کرلیں گے۔
امریکہ کے صدر باراک اوبامہ کو مزید افواج بھیجنے کی بجائے وہاں سے مکمل واپسی اختیار کرنی چاہیے ریاست ہائے امریکہ اور یورپی عوام کو سوچنا چاہیے کہ انکے حکمران افغانستان کے عوام پر سراسر زیادتی اب ختم کر دیں اور موجودہ پالیسی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ازحد افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان بجائے اسکے کہ افغانستان کے معاملے کی دنیا میں وکالت اور تشہیر کریں۔ ہم خود امریکہ ویٹو کی مدد کرکے افغانستان پر ظلم وبربریت کے حصے دار بن چکے ہیں اس حالت میں پاکستان کی سول سوسائٹی سیاسی پارٹیوں journalists میڈیا تھنک ٹینکس intellectuals کو افغانستان کا حق وانصاف پر مبنی معاملہ دنیا میں پھیلانا چاہئے جو ہمارا فرض بنتا ہے اس دینی ثقافتی پڑوس اور انسانی حقوق کی بنا پر اٹھایا گیا مسئلہ ہماری زندگی اور آخرت کیلئے مفید ثابت ہوگا۔
افغانستان میں ملاعمرکے رفقاء نے ایک جگہ بت شکنی ضرور کی تھی جس کو اسلامی لحاظ سے بھی سراہا نہیں گیا تھا لیکن یہ گناہ ایسا بھی نہیں تھا کہ پوری دنیا ان سے روٹھ جائے اور انہیں ریاست کے طور پر تسلیم ہی نہ کریں۔ ہندوستان کے ہندوؤں نے بابری مسجد کو مسمار کیا۔ گجرات میں مسلمانوں کو سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ہلاک کیا۔ سمجھوتہ ایکسپریس پر حملہ کرکے مسلمان زائرین کو ہلاک کیا۔ فلسطین میں، لبنان میں ، اسرائیل کی جارحیت لگاتار جاری ہے یوگو سلاویہ میں مسلمانوں کی نسل کشی کی گئی۔ چیچنیا میں قتل وغارت کی گئی وغیرہ وغیرہ۔ لیکن کہیں بھی diplomatic non recognition تک سوچا بھی نہ گیا۔ صرف افغانستان ہی بے چارہ ملک ہے جہاں ازحد بے رخی اور لاتعلقی کا مظاہرہ کیا گیا تھا۔ یہی نہیں بلکہ ان درندوں نے تو طالبان حکومت مخالف شمالی اتحاد کے لوگوں کو تیار کرنا شروع کردیا تاکہ طالبان حکومت کو شکست دے دی جائے۔ اس گھناؤنی سازش میں ہندوستان اور امریکہ شامل تھے۔ ابھی انکشاف ہوا ہے کہ ببرک کارمل اور نجیب اللہ اور یہودی تھے ظاہر ہے اس انکشاف سے مغربی دنیا کی بہت ساری گرہیں کھل جاتی ہیں۔
ان حالات میں نیویارک کا 9/11 کا حادثہ درپیش ہوا اورامریکہ نے اسامہ بن لادن کو اس کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ چونکہ اسامہ اس وقت افغانستان میں مقیم تھا جسے امریکہ نے بطور مجرم طلب کیا۔ ملا عمر نے ایک اصولی موقف اختیار کیا کہ اسامہ کسی اسلامی ملک کو دے دیا جائے جہاں اس پر مقدمہ چلایا جائے اور اگر وہ قصور وار ٹھہرا تو سزا دی جائے لیکن امریکہ نے یہ شرط نہ مانی اور افغانستان پر حملہ کرکے قبضہ کرلیا۔ وقتی طور پر ہم یہ بات مان لیتے ہیں کہ امریکہ افغانستان پر حملہ کرنے میں حق بجانب تھا کیونکہ ایک سپر پاور کیساتھ جو کچھ 9/11 کو ہوا اس پر امریکہ کا شدید ردعمل جائز قرار دیا جاسکتا ہے چلو اسامہ کے پیروکاروں اور ملا عمر کے ہمنواؤں کو مارنا بھگانا وغیرہ بھی صحیح سمجھا جا سکتا ہے لیکن جو سوال پوچھنے کی جسارت کی جا سکتی ہے وہ یہ ہے کہ اب جبکہ اسامہ بھی روپوش ملاعمر بھی غائب نہ ان کی فوج نہ جہاز نہ ٹینک نہ پیسہ نہ انتظامیہ ان کا تو صرف نام ہی باقی ہے۔ اب اس افغان قوم واسامہ بن لادن کے نام پر ملا عمر کی ماضی کی حکومت کے نام پر ان بیس ملین آبادی کو کیوں سزا دی جا رہی ہے۔ اگر اسامہ کا قصور تھا تو وہ سزاوار سہی لیکن تیس سال سے گھروں سے نکلے ہوئے بچوں عورتوں بوڑھوں اور نوجوانوں کا کیا قصور کہ انہیں دشمن قرار دیکر ذلیل وخوار کیا جارہا ہے جب ملا عمر کو شکست فاش ہوگئی اور اسکے پیروکاروں کو اذیتیں دیکر مار ڈالا گیا ہے اور وہ ہلاک یا تتربتر ہوچکے ہیں تو یہ جملہ لڑائی جارحیت ختم کیوں نہیں کی جاتی امریکہ اور نیٹو افغانستان پر قبضہ جمانے کیلئے کیوں مصر ہیں۔
افغانستان کے بیس ملین لوگ پتھروں کے دور میں داخل ہو چکے ہیں۔ انکے جوان لوگ مرچکے ہیں بیوائیں اور بچے دربدر کی ٹھوکریں کھاتے پھرتے ہیں۔ ملک کھنڈرات بن چکا ہے درخت گرچکے ہیں۔ زمین بنجر ہوچکی ہے اب دنیا کو بس کرنی چاہئے رحم اور فراخدلی دکھانی چاہیے۔ امریکہ اور نیٹو کو چاہیے کہ افغانستان سے اپنی فوجیں واپس بلالیں اور ان غریبوں کو اپنے حال پر چھوڑیں اگر اقتصادی امداد دینا چاہیں تو افغانستان کے لوگوں کو حق ہے لیکن اگر نہ بھی دیں تو وہ اس سرد مہری کو برداشت کرلیں گے۔
امریکہ کے صدر باراک اوبامہ کو مزید افواج بھیجنے کی بجائے وہاں سے مکمل واپسی اختیار کرنی چاہیے ریاست ہائے امریکہ اور یورپی عوام کو سوچنا چاہیے کہ انکے حکمران افغانستان کے عوام پر سراسر زیادتی اب ختم کر دیں اور موجودہ پالیسی کا کوئی جواز نہیں ہے۔ازحد افسوس کی بات ہے کہ افغانستان کے پڑوسی ممالک خصوصاً پاکستان بجائے اسکے کہ افغانستان کے معاملے کی دنیا میں وکالت اور تشہیر کریں۔ ہم خود امریکہ ویٹو کی مدد کرکے افغانستان پر ظلم وبربریت کے حصے دار بن چکے ہیں اس حالت میں پاکستان کی سول سوسائٹی سیاسی پارٹیوں journalists میڈیا تھنک ٹینکس intellectuals کو افغانستان کا حق وانصاف پر مبنی معاملہ دنیا میں پھیلانا چاہئے جو ہمارا فرض بنتا ہے اس دینی ثقافتی پڑوس اور انسانی حقوق کی بنا پر اٹھایا گیا مسئلہ ہماری زندگی اور آخرت کیلئے مفید ثابت ہوگا۔