پاکستان اور بھارت میں اگر جنگ ہوگی تو وہ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔ پانی کے مسئلے پر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہوگی۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم آج کل اکثر و بیشتر اخباروں میں پڑھ رہے ہیں۔ پانی زندگی ہے انسان کھانے کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر نہیں تو پھر اگر پاکستان میں کسی دن پانی بالکل ختم ہو جائے تو ہماری قوم زندہ رہ پائے گی؟ ہم سب کو اس مسئلے کی اصل وجہ تلاش کرنا ہے۔آج پاکستان کو پانی کی قلت کا جو سامنا ہے اس میں زیادہ قصور پاکستانی مینجمنٹ کا ہی ہے۔پاکستان میں پانی کی قلت کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو قدرتی طور پر پیدا ہونے والی مسلسل قحط سالی ہے جو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے کہ اسے کنٹرول کر سکے اور دوسری بڑی وجہ پانی کے معاملے میں غیر منظم طریقے سے کی گئی منصوبہ بندی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں موجود دریاوں کے ذریعے سے میسر آنے والے پانی کا 64 فیصد حصہ گھریلو و صنعتی کاموں اور زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ 36 فیصد حصہ سمندر کی نذر ہو جاتا ہے پاکستان میں پانی کو محفوظ اور ذخیرہ کرنے کے لئے مناسب طریقہ کار استعمال ہی نہیں کئے گئے۔ حال ہی میں بھارت کی جانب سے ایک ٹیم نے پاکستانی دریاوں کا وزٹ کیا۔ وہ پاکستان میں موجود پانی کی صورتحال کا جائزہ لینے یہاں آئی تھی انہوں نے پانی کی قلت کا اعتراف بھی کیا مگر ان کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب کوئی پیش رفت نہیںکی گئی۔ ارسا کے مطابق بارشوں اور برف کے پگھلنے سے ذخیرہ کئے گئے پانی سے کوٹہ پورا کیا جاتا ہے جبکہ گذشتہ چند برسوں میں گلوبل وارمنگ اور بارشوں کے نہ ہونے کے سبب پانی کی قلت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس کا اثر نہ صرف معاشی بلکہ معاشرتی زندگی پر بھی ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ دنیا میں جتنا ہجوم زیادہ ہوگا اتنا ہی اشیاءکا استعمال بھی بڑھے گا۔ 1994ءسے شروع ہونے والی پانی کی قلت لوڈ شیڈنگ کے روپ میں موت بن کر ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر پانی کی قلت مسلسل جاری رہی تو ایک دن پاکستان ایتھوپیا صومالیہ کی صورت اختیار کر جائے گا پاکستان میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ہمارے ڈیمز ہیں لیکن اگر ان ڈیمز میں بروقت پانی پہنچے گا ہی نہیں تو یہ ڈیمز کام کیسے کریں گے۔ بلاشبہ پاکستان میں موجودہ حالات میں ہاتھ ہمارے دشمنوں کا ہی ہے لیکن غلطی اپنی بھی ہے۔ ہمیں ہر بار ایسی حکومت میسر آتی ہے جو کبھی بھی کسی مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کرپاتی جبکہ نئی حکومت ان مسائل میں دوچار اور مسائل شامل کر دیتی ہے۔ اب اگر ہمارے ڈیمز میں پانی کی سطح طول و عرض پہ رہے گی تو بجلی کہاں سے آئے گی۔ ہمیں معاش اور معاشرت کے چکر میں پھنسا کر ہمارے دشمن آسانی سے اپنے ہدف مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی مسئلہ کھڑا ہو جائے بجائے اسے مل کر حل کرنے کے ہر صوبہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ بجائے الزام تراشیاں کرنے کے ہمیں اپنے ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی تدابیر کرنی ہونگی۔ اس سے پہلے کہ پانی کی قلت لوڈ شیڈنگ بیروزگاری اور مہنگائی کے جن ہم پر پوری طرح حاوی ہو جائیں ہمیں اپنی سوئی ہوئی حکومت کو جھنجھوڑنا ہوگا تاکہ مستقبل میں پاکستان کو ریگستان میں بدلنے سے بچایا جا سکے۔آب کے بغیر بھلا حیات کا کیا تصور ہے اس لئے ہمیں اپنی حیات بچانے کے لئے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے لئے فی الواقع آب حیات ہے۔
”آبِ حیات“
Mar 29, 2010
پاکستان اور بھارت میں اگر جنگ ہوگی تو وہ پانی کے مسئلے پر ہوگی۔ پانی کے مسئلے پر بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنا ہوگی۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ہم آج کل اکثر و بیشتر اخباروں میں پڑھ رہے ہیں۔ پانی زندگی ہے انسان کھانے کے بغیر تو زندہ رہ سکتا ہے مگر پانی کے بغیر نہیں تو پھر اگر پاکستان میں کسی دن پانی بالکل ختم ہو جائے تو ہماری قوم زندہ رہ پائے گی؟ ہم سب کو اس مسئلے کی اصل وجہ تلاش کرنا ہے۔آج پاکستان کو پانی کی قلت کا جو سامنا ہے اس میں زیادہ قصور پاکستانی مینجمنٹ کا ہی ہے۔پاکستان میں پانی کی قلت کی دو بڑی وجوہات ہیں ایک تو قدرتی طور پر پیدا ہونے والی مسلسل قحط سالی ہے جو کہ انسان کے بس میں نہیں ہے کہ اسے کنٹرول کر سکے اور دوسری بڑی وجہ پانی کے معاملے میں غیر منظم طریقے سے کی گئی منصوبہ بندی ہے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ پاکستان میں موجود دریاوں کے ذریعے سے میسر آنے والے پانی کا 64 فیصد حصہ گھریلو و صنعتی کاموں اور زراعت کے لئے استعمال ہوتا ہے جبکہ 36 فیصد حصہ سمندر کی نذر ہو جاتا ہے پاکستان میں پانی کو محفوظ اور ذخیرہ کرنے کے لئے مناسب طریقہ کار استعمال ہی نہیں کئے گئے۔ حال ہی میں بھارت کی جانب سے ایک ٹیم نے پاکستانی دریاوں کا وزٹ کیا۔ وہ پاکستان میں موجود پانی کی صورتحال کا جائزہ لینے یہاں آئی تھی انہوں نے پانی کی قلت کا اعتراف بھی کیا مگر ان کی جانب سے اس مسئلے کو حل کرنے کی جانب کوئی پیش رفت نہیںکی گئی۔ ارسا کے مطابق بارشوں اور برف کے پگھلنے سے ذخیرہ کئے گئے پانی سے کوٹہ پورا کیا جاتا ہے جبکہ گذشتہ چند برسوں میں گلوبل وارمنگ اور بارشوں کے نہ ہونے کے سبب پانی کی قلت میں روز بروز اضافہ ہی ہوتا چلا جا رہا ہے۔ جس کا اثر نہ صرف معاشی بلکہ معاشرتی زندگی پر بھی ہو رہا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی بھی ہے۔ دنیا میں جتنا ہجوم زیادہ ہوگا اتنا ہی اشیاءکا استعمال بھی بڑھے گا۔ 1994ءسے شروع ہونے والی پانی کی قلت لوڈ شیڈنگ کے روپ میں موت بن کر ہمارے سروں پر منڈلا رہی ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اگر پانی کی قلت مسلسل جاری رہی تو ایک دن پاکستان ایتھوپیا صومالیہ کی صورت اختیار کر جائے گا پاکستان میں پانی کے حصول کا واحد ذریعہ ہمارے ڈیمز ہیں لیکن اگر ان ڈیمز میں بروقت پانی پہنچے گا ہی نہیں تو یہ ڈیمز کام کیسے کریں گے۔ بلاشبہ پاکستان میں موجودہ حالات میں ہاتھ ہمارے دشمنوں کا ہی ہے لیکن غلطی اپنی بھی ہے۔ ہمیں ہر بار ایسی حکومت میسر آتی ہے جو کبھی بھی کسی مسئلے کو مکمل طور پر حل نہیں کرپاتی جبکہ نئی حکومت ان مسائل میں دوچار اور مسائل شامل کر دیتی ہے۔ اب اگر ہمارے ڈیمز میں پانی کی سطح طول و عرض پہ رہے گی تو بجلی کہاں سے آئے گی۔ ہمیں معاش اور معاشرت کے چکر میں پھنسا کر ہمارے دشمن آسانی سے اپنے ہدف مکمل کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ہمارے ملک میں کوئی بھی مسئلہ کھڑا ہو جائے بجائے اسے مل کر حل کرنے کے ہر صوبہ ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے بیٹھ جاتا ہے۔ بجائے الزام تراشیاں کرنے کے ہمیں اپنے ان سنگین مسائل کو حل کرنے کی تدابیر کرنی ہونگی۔ اس سے پہلے کہ پانی کی قلت لوڈ شیڈنگ بیروزگاری اور مہنگائی کے جن ہم پر پوری طرح حاوی ہو جائیں ہمیں اپنی سوئی ہوئی حکومت کو جھنجھوڑنا ہوگا تاکہ مستقبل میں پاکستان کو ریگستان میں بدلنے سے بچایا جا سکے۔آب کے بغیر بھلا حیات کا کیا تصور ہے اس لئے ہمیں اپنی حیات بچانے کے لئے پانی کو محفوظ کرنا ہوگا۔ یہ ہمارے لئے فی الواقع آب حیات ہے۔