لاہور (نیوز رپورٹر + نیٹ نیوز + ایجنسیاں) پاکستان نے دریائی پانی کی مانیٹرنگ کے لئے ٹیلی میٹری نظام لگانے کی باضابطہ تجویز دی ہے جس پر بھارت نے اتفاق کیا ہے تاہم مشاورت کے لئے وقت مانگ لیا ہے۔ بھارت نے نیموبازگو ڈیم کا ڈیزائن تبدیلی کرنے پر آمادگی ظاہر کی ہے جبکہ دیگر پاکستانی تجاویز پر غور کا یقین دلایا ہے۔ لاہور میں پاکستان اور بھارت کے سندھ طاس کمشنروں کے 104 ویں سہ روزہ اجلاس کے پہلے روز دریائے سندھ پر پاکستان نے بھارت کے مجوزہ منصوبوں پر اپنے اعتراضات سے آگاہ کیا۔ اجلاس میں پاکستان نے سندھ طاس معاہدہ کی تاریخ کے سب سے بڑے متنازعہ منصوبے پر 8 اعتراضات اٹھائے جس میں سے بھارتی وفد نے 6 اعتراضات مسترد کر دئیے۔ مقبوضہ کشمیر کے ضلع کارگل میں اس منصوبے میں بھارت نے 8 ہزار ایکڑ فٹ پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش رکھی ہے یہاں سے 45 میگاواٹ بجلی پیدا ہو گی۔ سندھ طاس کے پاکستانی کمشنر سید جماعت علی شاہ نے نیموبازگو ڈیم کے ڈیزائن پر جو اعتراضات لگائے ان میں کہا گیا ہے کہ ڈیم کے آبی ذخیرہ کو 2500 ایکڑ فٹ سے زائد نہیں ہونا چاہئے۔ اس کی سپل وے گیٹ درمیانی اونچائی پر لگانا معاہدہ کی خلاف ورزی ہے بھارتی ہائی کمشنر نے کہا کہ ان اعتراضات پر غور کرینگے تاہم انہوں نے ان اعتراضات کو فوری طور پر دور کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ بھارتی وفد نے پاکستان کا یہ اعتراض بھی مسترد کر دیا کہ اس نے دریائے چناب پر ڈیم کے تعمیر کے دوران پانی روکا تھا بھارتی وفد کا کہنا ہے کہ پاکستان نے پانی کا جو ڈیٹا مانگا وہ دے دیا اور جس ڈیٹا کی بنیاد پر وہ دعویٰ کر رہا ہے وہ درست نہیں۔ بھارتی وفد نے ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب کی تجویز سے اتفاق کیا تاہم یہ مﺅقف اختیار کیا کہ چونکہ سندھ طاس معاہدے میں ٹیلی میٹری نظام کا ذکر ہے اور نہ اسکی گنجائش ‘ اس نظام کی گنجائش پیدا کرنے کے لئے ازسرنو جائزہ لینا ہو گا۔ موجودہ معاہدہ میں صرف مینوئل پیمائش کا ذکر ہے جدید ترین ٹیلی میٹری سسٹم اب آیا ہے اسے معاہدے میں شامل کرنے کے لئے ضروری ہے کہ اس کا جائزہ لیا جائے۔ دوسرا بڑا منصوبہ دریائے سندھ پر ضلع لیہ میں چوٹک کے مقام پر بنایا جا رہا ہے۔ پاکستان اس پر آج اعتراضات اٹھائے گا بعض دیگر اطلاعات کے مطابق بھارت نے نیموبازگو ڈیم کا ڈیزائن بدلنے پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ اجلاس میں دونوں ممالک کے نو، نو ماہرین شریک ہیں۔ پاکستان کے وفد کی قیادت سندھ طاس کمشنر جماعت علی شاہ اور بھارتی وفد کی قیادت اورنگاناتھن نے کی۔ پاکستانی کمشنر نے واضح کیا کہ صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم کی مانیٹرنگ کے لئے ٹیلی میٹری سسٹم نصب ہے۔ پاکستان نے بھارت پر یہ بھی واضح کیا کہ اس کے منصوبوں کے باعث پیدا ہونے والی پانی کی قلت پر عوام اورخصوصاً کسانوں میں شدید اضطراب پایا جاتا ہے۔ سندھ طاس معاہدے کے مطابق پاکستان کے حصے کے پانی کے استعمال کی جزوی سہولت کے باوجود بھار ت کا فرض ہے کہ وہ پاکستان کو اس کے حصے کا پورا پانی دے۔ بھارتی کمشنر اورنگا ناتھن نے ٹیلی میٹری نظام کی تنصیب کی تجویز کو سراہا اور کہا کہ ٹیلی میٹری سسٹم سے دونوں ممالک کے درمیان شکوک وشبہات کم ہوں گے تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ اجلاس میں اگر اتفاق رائے نہ ہوسکا تو جلد کمشن کا دوسرا اجلاس طلب کیا جائے گا۔ نجی ٹی وی کے مطابق پاکستان نے بگلیہار ڈیم مےں دریائے چناب کا پانی روکنے کا معاملہ اٹھایا جسے بھارت نے پھر مسترد کر دیا اس شدید تنازعہ کے بعد پاکستان نے تجویز پیش کی کہ دریائی پانی کا بہاﺅ ناپنے کے لئے ٹیلی میٹری کا جدید نظام نصب کر دیا جائے۔ جماعت علی شاہ نے ڈیم پر چھ فنی اعتراضات کئے جن مےں جھیل کے اندر پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نو ملین کیوبک میٹر سے کم کر کے چھ ملین کیوبک میٹر کرنے کا مطالبہ شامل ہے۔ پاکستان نے کہا کہ ڈیم کے سپل وے اور گیٹس ڈیم کی بلند ترین سطح پر لگائے جائیں۔ بھارتی وفد نے پاکستانی اعتراضات پر بات چیت جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی۔ فریقین نے ڈیزائن مےں ڈیم کی فری بورڈ کی اونچائی ایک میٹر رکھنے پر اتفاق کیا۔ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے جماعت علی شاہ نے کہا کہ پانی پر مذاکرات سیاسی بات چیت نہیں، اس پر فوری بریک تھرو کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ متنازعہ امور طے نہ ہوئے تو ایک اور اجلاس بلایا جاسکتا ہے۔ مذاکرات مےں فی الحال بریک تھرو کی توقع نہیں۔ مذاکرات کے دوران بھارت سے پانی کے اعداد و شمار طلب کئے جائیں گے۔ مذاکرات کے دوران صحافیوں کو شرکت کی اجازت نہیں دی گئی، دورے کے آخری روز مذاکرات کے حوالے سے میڈیا کو بریفنگ دی جائے گی۔ اجلاس مےں دریائے سندھ پر 44میگا واٹ کے بھارت کے ایک اور نئے بجلی گھر چوٹک کا معاملہ بھی زیر بحث آئے گا، بھارتی کمشنر نے پاکستان آمد پر معاہدہ سندھ طاس پر مکمل عمل درآمد کی یقین دہانی کرائی تھی لیکن مبصرین اس بات کے انتظار مےں ہےں کہ وہ متنازعہ منصوبوں کے بارے مےں پاکستانی اعتراضات کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہےں یا ماضی کی طرح پاکستانی مﺅقف پھر نظرانداز کر دیں گے۔