علمی ادبی تقریبات اسلامیہ کالج کی خاص پہچان ہیں۔ یہاں ہونے والی تقریبات طلبہ اور اساتذہ کیلئے ایک فکری غذا ہوتی ہیں۔بانی¿ پاکستان حضرت قائداعظمؒ کا اسلامیہ کالج میں متعدد بار تشریف لانا ایک روشن تاریخی حوالہ ہے اور علامہ اقبالؒ کا اس ادارے کے ساتھ تعلق بھی ہماری تاریخ کا ایک خوشگوار باب ہے۔ ریواز ہوسٹل ہو یا کالج کا سرسبز گراﺅنڈ،یہاں اقبالؒ کی نظموں کی بازگشت آج بھی سماعتوں سے ٹکراتی ہے۔
انہی یادوں کی بازیافت کیلئے اس سال عبداللہ یوسف علی میموریل سوسائٹی کے زیر اہتمام پروفیسر ڈاکٹر ثاقف نفیس نے فرزندِ اقبال ڈاکٹر جاوید اقبال(جسٹس۔ر) کو کالج میں خطاب کی دعوت دی۔یاد رہے کہ ڈاکٹر ثاقف نفیس کے داد محترم چودھری محمد حسین علامہ اقبالؒ کے معتمد ساتھی اور دیرینہ دوست تھے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اسلامیہ کالج ریلوے روڈ،لاہور میں آمد کی خبر جب گرم ہوئی تو طلبہ اور اساتذہ کی کثیر تعداد انہیں دیکھنے،ملنے اور سننے کی مشتاق نظر آئی۔ 19مارچ2013ءکا روشن دن کالج کے تاریخی حبیبیہ ہال کی آرائش و زیبائش کی گواہی دے رہا تھا۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب اپنی خاندانی روایت اور درویشی روش کو اپناتے ہوئے بغیر کسی پروٹوکول کے کالج ہال کی طرف خراماں خراماں تشریف لا رہے تھے کہ ہمارے ساتھ کھڑے پروفیسر خالد رفیع نے ہمیں بتایا کہ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کالج پہنچ چکے ہیں۔ ہم دونوں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی طرف لپکے انہیں خوش آمدید کہا اور انہیں پرنسپل صاحب کے دفتر کی طرف لے گئے۔ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے امجد علی شاکر صاحب کے ساتھ اپنی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے بتایا کہ وہ سب سے پہلے 1940ءمیں یہاں قائداعظمؒ کی تقریر سننے کیلئے آئے تھے اس کے بعد ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب رئیس دانش گاہ کے ساتھ ہال میں پہنچے تو طلبہ اور اساتذہ کرام کی کثیر تعداد نے بھرپور تالیوں سے استقبال کیا۔نقیب محفل پروفیسر محمد زاہد اعوان نے فرزند اقبال کا کوثر و تسنیم سے دھلی ہوئی زبان میں خیر مقدم کیا اور شاعرِ مشرق کو پُر شکوہ اشعار سے محفل کو تڑپا دیا۔تقریب کا آغاز تلاوتِ کلام پاک سے ہوا پھر بارگاہ رسالت میں نعت کا گل دستہ قاری غلام رسول نے پیش کیا اس کے بعد کالج کے پرنسپل امجد علی شاکر صاحب نے ڈاکٹر جاوید اقبال کو خوش آمدیدکہا اور ڈاکٹر صاحب کی ملی خدمات کا تذکرہ کرتے ہوئے انہیں بھرپور خراج تحسین پیش کیا انہوں نے فرمایا کہ فکری آمریت کے اس دور میں مکالمے کی روایت کو زندہ رکھنا ڈاکٹر صاحب کا اہم کارنامہ ہے۔فرزند اقبال دوسروں کی بات غور سے سنتے ہیں اور اپنی بات نہایت سلیقے اور موثر طریقے سے سمجھاتے ہیں،اسی وقت پرنسپل صاحب نے انہیں ”اقبال کے تصور اسلامی ریاست“ کے حوالے سے لیکچر دینے کی درخواست کی۔ڈاکٹر جاوید اقبال نے اس موضوع پر سیر حاصل گفتگو کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اقبال کے نزدیک اسلام کا مقصد روحانی جمہوریت کا قیام ہے۔ ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے اس نکتے پر تفصیل سے روشنی ڈالی کہ علامہ اقبالؒ کے شعری کلام کے حوالے سے تو بہت کچھ سامنے آیا ہے لیکن ان کی نثری تخلیقات کے حوالے سے کوئی قابل ذکر کام نہیں ہوا۔ان کے احیائے اسلام کے حوالے سے دئیے گئے چھ خطبات جن میں سے ایک خطبہ اس ہال میں دیا تھا،نہایت فکر انگیز خطبات ہیں جن کا تجزیہ کیاجائے تو ہمیں عصر سماجی مسائل کو سلجھانے کیلئے خاطر خواہ راہنمائی حاصل ہوسکتی ہے اسی طرح علامہ صاحب کے خطوط جنہیں اکٹھا کرکے میں نے طبع کروا دیا تھا لیکن ان خطوط کے حوالے سے تحقیق و تجزیہ ہونا باقی ہے اگران خطوط کا تجزیہ کیاجائے تو برصغیر کے مسلمانوں کی آزادی کی تحریک کی ایک مستند تاریخ کی جاسکتی ہے جس سے علامہ صاحب کی فکر کے بہت سے نئے پہلوں عیاں ہوں گے۔
ڈاکٹر جاوید اقبال نے علامہ اقبال کے چھٹے خطبے کے آخری فقرے میں جس روحانی جمہوریت کا تذکرہ کیا ہے اس کا تعلق میثاق مدینہ کے تحریر دستور سے ہے جس میں 23دفعات مسلمان شہریوں کے متعلق اور باقی 24دفعات غیر مسلم شہریوں کے بارے میں تھیں۔علامہ اقبالؒ میثاق مدینہ کو روحانی جمہوریت کا اعلیٰ ترین ماڈل تصور کرتے تھے منطق میں کسی بھی قضیہ کے حتمی نتائج تک رسائی حاصل کرنے کیلئے دو اصول بالعمول لاگو کیے جاتے ہیں جن کا تعلق عقل سے ہے جن میں ایک کا تعلق عقل اسقرائی اور دوسرے کا عقلِ استخراجی سے ہے۔رسول کریمﷺ جس دور میں تشریف لائے اس دور تک عقل استقرائی اتنی پختہ اور بالغ ہوچکی تھی کہ انسان کو اپنے عہدِ طفلی کے اصولوں کے سہاروںکی ضرورت نہ تھی یہی وجہ ہے کہ حضرت محمدمصطفی ﷺ خاتم النبین تھے۔ عقل استخراجی کا استعمال اقوام کو ملوکیت کی طرف دھکیلتا ہے جس کا تعلق عہد پارینہ سے تھا اسی لئے اسلام میں ملوکیت نہیں،روحانی جمہوریت ہے یہی وجہ ہے کہ علامہ اقبالؒ سلطانی¿ جمہور کی بات کرتے ہیں یعنی انسان کو اب خود جمہوری نظام کو چلانے کی ذمہ داری قبول کرنی ہے اور قانون سازی کیلئے وہ خود وحی کی تعبیر کرسکتا ہے ۔ریاست کے متعلق دوسرا اصول علامہ صاحب نے جو پیش کیا ہے وہ قبل از اسلام ہے اور زمانہ ¿ جدید کے درمیان ایک پل کی مانندہے۔