عہدِ حاضر کے ملک الشعراءخالد احمد چلے گئے

 خالد احمد ادبی حوالے سے ایک ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے وہ ایک شاعر، ادیب، دانشور،ڈرامہ نگار،کالم نویس اور سب سے بڑھ کر رسالت مآبﷺ کی محبت و عقیدت میں ڈوبے ہوئے نعت گو شاعر کی حیثیت سے پہچانے جاتے تھے، انکے نعتیہ قصاید کی بازگشت ادب کے ایوانوں میں تا ابد گونجتی رہے گی انکے نعتیہ قصاید کا مجموعہ” تشبیب“ دنیا میں ان کیلئے باعثِ عزت و احترام اور آخرت میں ذریعہ بخش و نجات بھی ہوگا۔میں نے خالد احمد کو بہت طویل عرصہ بہت قریب سے دیکھا ہے۔وہ اپنی دُھن میں رہنے والا شاعر تھا اور ہمہ وقت شاعری کرتا رہتا تھا نو آموز شعرا کے جھرمٹ میں رات دو،تین بجے تک لکشمی چوک کے ”فضل ہوٹل“ میں خالد احمد سگریٹ پہ سگریٹ سلگائے چلے جاتے،چائے پہ چائے کی پیالیاں پئے چلے جاتے اور نوجوان نسل کی ادبی پرورش میں مشغول رہتے یہ ان کا معمول تھا کہ مجھ ایسے نوواردانِ ادب کے شعروں کی اصلاح اپنا فرض جان کر کرتے،باہر سے یعنی دوسرے شہروں اور قصبوں سے آنے والے تمام سینئر اور جونیئر شعراءکا مستقل ٹھکانہ،خالد احمد کی چھتر چھاﺅں میں ہوتا تھا۔انہوں نے ساری زندگی بغیر کسی لالچ اور غرض کے ادب کی یوں خدمت کی ہے جسکی مثال نہیں ملتی۔ انہیں نہ شہرت و مقبولیت کی ہوس تھی اور نہ مال و دولت کی طمع۔اُن کے حلقہ¿ تلمذ میں راقم سمیت بہت سے نئی نسل کے نمائندہ اور معروف شعراءشامل ہیں جن میں عباس تابش،ایوب خاور، سلیم طاہر،اعجاز رضوی، اشرف جاوید، ارشد شاہین،حامد یزدانی، واجد امیر، منظر حسین جعفری،احمد فرید اور دیگر بے شمار نو آموز شعراءشامل ہیں جو خالد احمد کے بعد خود کو یتیم تصور کرنے لگے ہیں کہ اب ایسا استاد اور دلدار شاعر کہاں ملے گا جو نئے لکھنے والوں کی نہ صرف اصلاح کرے بلکہ شہر سخن میں انہیں متعارف بھی کروائے....ع
 حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا
 گذشتہ تقریباً سات آٹھ برس سے وہ ادبی بیٹھک(الحمرا) کی زینت بنے رہے۔اُن کی موجودگی میں بیٹھک ان کے قہقہوں اور بلند آہنگ گفتگو سے گونجتی رہی۔ چائے کا دور،سگریٹوں کی نوک سے اٹھتے دھویں کے پیچ و خم اور اسیرانِ خالد احمد مجھے یاد ہے۔1993ءمیں میرے والدِ گرامی حضرتِ اعظم چشتیؒ نے وصال سے پہلے مجھے یہ وصیت کی کہ اگر تم چاہتے ہوکہ شاعری میں تمہاری کوئی پہچان،کوئی مقام اور کوئی اسلوب بنے.... تو خالد احمد کے پاس بیٹھا کرو۔ وہ دن اور خالد احمد کی زندگی کا آخری دن‘ میں خالد احمد کے حلقہ¿ ادارت سے نکل نہیں پایا۔میں نے اٹھارہ،انیس برس ان کی صحبت میں گزارے۔ وہ حقیقتاً ایک درویش منش انسان تھے،انہیں اپنا غم چھپانے اور دوسروں کا غم گھٹانے میں کمال قدرت حاصل تھی ،خالد احمد شاعر ہفت زبان تھے انہیں سات زبانوں پہ عبور حاصل تھا اور اپنی یہ خوبی بھی انہوں نے کبھی کسی کو نہ بتائی۔
 وہ مشاعرے پڑھنے ملک سے باہر بھی یوں جاتے جیسے کوئی بندہ لاہور سے گوجرانوالہ یا فیصل آباد جاتا ہے۔ دوستوں کو خالد احمد کے غیر ملکی دوروں کا علم اُنکے ہمراہ گئے ہوئے شعراءکی زبانی ہوا کرتا تھا۔اُنہوں نے کبھی یہ چرچا نہیں کیا کہ .... میں امریکہ، جرمنی، انگلینڈ، چین یا کہیں اور مشاعرہ پڑھنے جارہا ہوں۔جب انہیں حکومت پاکستان کی طرف سے ادب کا ”صدارتی تمغہ“(پرایڈ آف پرفارمنس) ملا.... تو انہوں نے کسی سے اس کا ذکر تک نہیں کیا۔اگر یہ خبر اخبارات کی زینت نہ بنتی تو شاید کسی کو اتنی بڑی خبر کی خبر ہی نہ ملتی۔انکے وصال سے دس ،بارہ روز قبل اُنکے آخری مجموعہ¿ کلام” نم گرفتہ“ کی افتتاحی تقریب منعقد ہوئی۔ جو ” بیاض گروپ آف پبلی کیشنز“ کے زیراہتمام منائی گئی۔بیاض پبلی کیشنز کی روحِ رواں جناب عمران منظور احمد اور نعمان منظور اور اسد رحمان مہمانوںکو خوش آمدید کہنے کیساتھ ساتھ اس بے مثال شاعر کا آخری مجموعہ کلام بھی نہایت احترام کیساتھ پیش کررہے تھے۔یہ آخری تقریب تھی جس میں خالد احمد نے(آواز بند ہونے کے باوجود) اپنا کلام سنایا اور تمام مہمانوں اور مقالہ نگاروں کا شکریہ بھی ادا کیا۔وہ سخن سرا تھے اور حاضرین ”نم گرفتہ“....
خالد احمد گزشتہ تقریباً آٹھ نو سال سے روزنامہ نوائے وقت میں ”لمحہ لمحہ“ کے عنوان سے کالم لکھ رہے تھے انہوں نے لمحہ لمحہ اپنی ادبی خدمات وقت کے سپرد کردی ہیںاور وقت خالد احمد کے نام اور کام کو لیکر مستقبل کی طرف چل پڑا ہے۔خالد احمد کا نام ہمیشہ زندہ رہے گا ان کا کام ہمیشہ موضوعِ سخن رہے گا کیونکہ ایک تو ان کا کلام اس قدر توانا اور جاندار ہے کہ ہر عہد میں سانس لینے کا دم خم رکھتا ہے۔دوسرے خالد احمد نے نوجوان شعراءکی ایک ایسی پنیری لگائی ہے جو مستقبل قریب میں تناور درختوں کی صورت اختیار کرلیں گے اور ادب دوستوں اور ادب پروروں کو نہ صرف چھاﺅں مہیا کریں گے بلکہ اپنے پھلوں اور پھولوں سے خوشبوئیں بکھیرتے رہیں گے اور تشنہ لبوں کی پیاس ہی بجھاتے رہیں گے۔حضرت اقبالؒ نے فرمایا تھا....ع
 کہ جاں مرتی نہیں مرگِ بدن سے
 یعنی موت کا مطلب ” فنا“ نہیں ۔روح زندہ رہتی ہے اورخالد احمد کے کلام میں اس کی روح تا ابد زندہ رہے گی۔اگرچہ....
 موت نے چھین لیا رنگ بھی، نم بھی خالد
 آنکھ بھی سوکھ گئی،ہونٹ بھی نیلے نہ رہے

ای پیپر دی نیشن