کالم نگاری مےں اےسے گنتی کے چند نام پڑھنے کو ملتے ہےں جن کی تحرےر شائستہ زبانی کی علامت سمجھی جاتی ہے اور ان کے ہاں ادب کا قرےنہ بھی پاےا جاتا ہے۔ ان مےں سے اےک نام ڈاکٹراجمل نےازی کا بھی ہے۔ نےازی صاحب سنےارٹی کے حساب مےں عبدالقادرحسن کے ہمعصر تو شاےد نہ ہوں البتہ عطاالحق قاسمی کے ہم پلہ ضرور ہوسکتے ہےں۔ نےازی صاحب نے اپنے کالم مےں قاسمی صاحب کے والدِ گرامی کا ذکر خےر بڑے ادب سے کےا ہے کہ ادبی لوگ اپنے مخالف کے رشتوں کو بھی بڑے ادب سے ےاد کرتے ہےں۔
حال ہی مےں شائع ہونے والے اپنے اےک کالم مےں نےازی صاحب نے نوازشرےف صاحب کے اےک پسندےدہ اور نوازے گئے سےنئر ترےن کالم نگار کی تحرےر کے حوالے سے بات کی ہے۔ ےہاں پر سب سے پہلے تو ہم نےازی صاحب کی خدمت مےں عرض کرنا چاہتے ہےں کہ نواز لےگ کی تارےخ سب سے بڑی ہے اور پرانی بھی بہت ہے۔
سب سے پہلے تو تمام جہانوں کامالک جو بڑا مہربان اور نہاےت رحم کرنے والا ہے وہ ہم سب کو اپنی رحمت سے اور اپنی بے شمار نعمتوں سے نواز تا ہے اس لےے ہم سب اس کی نواز لےگ کا حصہ ہےں۔ ےہ نوازلےگ اپنی وسعت کے اعتبار سے اتنی بڑی ہے کہ پوری کائنات مےں پھےلی ہوئی ہے۔ جےسا کہ ہم سب جانتے ہےں کہ رب کائنات اپنی نواز لےگ کو رنگ ونسل کے خانوں مےں نہےں بانٹتا وہ بغےر کسی امتےاز سب کو نوازتا رہتا ہے۔
برصغےر کی تارےخ مےں تمام بزرگانِ دےن اور اولےاکرام سب غرےب نواز تھے مگر ان مےں سے اےک بزرگ تو اسی نام سے مشہور بھی ہوئے ان کا نام نامی خواجہ غرےب نواز تھا۔ کےونکہ صوفےا کرام کا چلن باری تعالیٰ کی صفات کے مطابق ہوتا ہے اس لےے خواجہ غرےب نواز سرکار بھی سب کو نوازتے ہےں غرےبوں کو بھی اور امےروں کو بھی۔ ان کی درگاہ پر ہندو، سکھ، عےسائی، مسلم سب بلاتفرےق اپنے من کی مرادےںپاتے ہےں۔
مےرے والدِ گرامی (اشفاق احمد) کا تعلق بھی ساری زندگی نواز لےگ سے ہی رہا ۔ وہ اس طرح کہ اللہ پاک نے ان کو بے پناہ تخلےقی صلاحےتوں سے نوازا۔ پھر اشفاق صاحب نے شاہکار افسانے اور بے شمار ڈرامے تخلےق کےے ۔ جس کی بدولت انھےں بے حدو بے حساب عوامی پذےرانی سے نوازا گےا ۔ اور ےہ سلسلہ اب تک جاری ہے اور اسی طرح ہمےشہ جاری و ساری رہے گا۔
اسی طرح ہمارے خےال مےں اجمل نےازی صاحب کا تعلق بھی نواز لےگ سے جڑا ہوا ہے۔ کےونکہ وہ بہت ادب نواز ہےں ۔ ہمارے لےے وہ پہلے اےک ادےب ہےں اور بعد مےں کالم نگار،اسی لحاظ سے ادب نے بھی نےازی صاحب کو نوازا ہے۔ عزت، شہرت اور ادب کی اس دولت سے جس سے وہ دوسروں کو نوازتے رہتے ہےں۔
نےازی صاحب اپنے کالم بھی اس قدر ادبی پےرائے مےں لکھتے ہےں کہ پتہ ہی نہےں چلنے دےتے کہ کہ وہ کسی کے خلاف لکھ رہے ہےں ےا اس کے حق مےں بےان دے رہے ہےں۔ اپنے اسی کالم مےں عطاالحق قاسمی کی اتنی ساری خوبےاں انھوں نے بےان کردی ہےں جتنی ان کے قرےبی دوستوں کو بھی معلوم نہ ہوں گی۔ اتنی صلاحےتوں کے انکشاف پر عطاصاحب کا ردِ عمل تو معلوم نہےں البتہ اگر کسی منکسرالمزاج بندے کو اس کی اتنی بہت ساری خوبےوں سے آگاہ کےا جائے تو اسے ان ساری خوبےوں پر کسی حسےن خواب کا گمان گزرے گا۔
نےازی صاحب نے جس تفصےل سے مشاہدحسےن کی سےاسی ہسٹری بےان کی ہے۔ اس مےں بھی ہمےں نےازی صاحب کی طبےعت کی نرمی اور ان کے مزاج کا دھےما پن صاف دکھائی دےتا ہے ورنہ ہمارے صحافی بھائی جس کسی کی کےس ہسٹری بےان کرتے ہےں تو ان کی ہر تان پلاٹوں اور لفافوں پر آکر ٹوٹتی ہے۔
اس کالم مےں کےونکہ موضوعِ سخن عطاالحق قاسمی کی ذاتِ بابرکت تھی شاےد اسی لےے نےازی صاحب نے محترم قبلہ عبدالقادر حسن کی ذاتِ گرمی اور صحافت مےں ان کی طوےل ترےن خدمات کو خراجِ تحسےن پےش کرنے کی بجائے ان کا ذکرِ خےر ان کے صرف اےک جملے تک رکھنا مناسب سمجھا۔ ان کا وہ جملہ ےہ تھا کہ ”اب ہر سےاسی جماعت کو اپنا اپنا عطاالحق قاسمی تلاش کر لےنا چاہےے“۔
ہمارے خےال مےں نوجوان نسل کی راہنمائی اور ےادداشت کے لےے عبدالقادرحسن کی تارےخی خدمات کو سراہاجانا ضروری ہے۔ کےونکہ تلخ سے تلخ بات کو بھی کمال سادگی سے عبدالقادرحسن بےان کر جاتے ہےں ۔
ہمارا آج کا موضوعِ سخن کےونکہ نرم گفتاری ہے اس لےے ہم ےہ کہتے چلےں کہ ہمےں اپنا اپنا عبدالقادر حسن تلاش کرنے کی ضرورت نہےں کےونکہ اےک بنابناےا عبدالقادر حسن ہمارے پاس نےازی صاحب کی صورت مےں پہلے ہی سے موجود ہے۔
آخر مےں ہم نوائے وقت کے سےنئرکالم نگار، شاعر اور ادبی پرچے بےاض کے مدےر جناب خالد احمد کو ےاد کرےں گے جن کا گزشتہ دنوں انتقال ہوگےا ۔ پہلے اظہرجاوےداوراب خالد صاحب بھی چلے گئے۔ خالد احمد کی جدائی سے ہم محترم احمد ندےم قاسمی صاحب کے اےک دےرنےہ رفےق کار اور پرستار سے محروم ہوگئے ہےں۔ اگرچہ خالد صاحب وقت حاضر کے نمائندہ شاعر تھے۔ اس کے ساتھ ساتھ کالم نگاری مےں بھی ان کا اےک جداگانہ اسلوب تھا۔ حال ہی مےں ان کا خوبصورت شعری مجموعہ”نم گرفتہ“ زےورِ طبع سے آراستہ ہوکر آےا تھا۔ جس کو ادبی حلقوں سے بہت پذےرائی مل رہی تھی۔ خالد احمد کی ذات کے ساتھ اےک بہت بڑا حوالہ ےہ بھی تھا کہ انہوںنے محترم احمد ندےم قاسمی کی سرپرستی مےں تربےت کی منازل تہہ کی تھےں۔ ان کے کالم شگفتہ مزاجی اور ملی شعور سے بھرپور تھے۔ اور خاص طورپر ان کا شمار اُن ادےبوں مےں ہوتاتھا جو اپنے وطن سے مثالی محبت کرنے والے تھے۔ ان کی ادبی خدمات کو تادےر ےاد رکھا جائے گا۔اُنھوں نے اےک کامےاب ادبی پرچے کی داغ بےل بھی ڈالی۔ بےاض کا شمار ان ادبی پرچوں مےں ہوتا ہے جو بڑی باقاعدگی سے شائع ہوتے رہے ہےں۔ بےاض مےں خالد احمد صاحب نے نوجوان نسل کے لکھنے والوں کوجس طرح پذےرائی سے نوازا اسے بھی اےک مثال کے طور پر پےش کےا جا سکتاہے۔ اس لحاظ سے خالد صاحب کی جدائی کو ہم ادب کا بڑا نقصان تصور کرتے ہےں۔ اُمےد کی جاتی ہے کہ بےاض اسی آب وتاب سے نکلتارہے گا جےسے کہ ان کی زندگی مےں شائع ہوا کرتا تھا۔ بلا شبہ ان کا شمار نوجوان نسل کے لےے راہنما مدےروں مےں ہوتا تھا ۔ ہم پسِ ماندگان کے غم مےں شرےک ہےں۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کو درجہ کی بلندی عطا فرمائے ۔ آخرمےں ان کے چنداشعار
تونے ہر شخص کی تقدےر مےں عزت لکھی
آخری خطبے کی صورت مےں وصےت لکھی
خالداحمد تری نسبت سے ہے خالد احمد
تونے پاتال کی قسمت مےں بھی رفعت لکھی