اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت+نوائے وقت رپورٹ+ایجنسیاں) سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری سے متعلق مقدمات نمٹانے کیلئے چار اپریل کی ڈیڈ لائن دے دی ہے اور ماتحت عدالت میں جمشید دستی کےخلاف کارروائی روکے جانے کی استدعا مستردکردی ہے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے جعلی ڈگری والوں کے خلاف کارروائی میں الیکشن کمیشن کی کار کر دگی پر عدم اطمینان کااظہار کرتے ہوئے کہا کہ ڈگری سے متعلق غلط بیانی دھوکہ دہی کے زمرے میں آتا ہے، ایک دفعہ کا جرم ساری عمر کا داغ ہے ¾ الیکشن کمیشن بادشاہ نہیں جو دل میں آئے کرتا پھرے، تحقیقات میں سستی برتنے والے افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے ¾2008 کے الیکشن میں غلط بیانی کرنے والے آرٹیکل 62 اور63کی زد میں آتے ہیں، آرٹیکل 118کے تحت شفاف انتخابات کرانا الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے۔جعلی ڈگری کیس کی سماعت چیف جسٹس کی سربراہی میں عدالتی بینچ نے کی۔ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالتوں اور پولیس کو جعلی ڈگری والوں کیخلاف چاراپریل تک کارروائی مکمل کرکے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے غفلت کے مرتکب افسروں کے خلاف محکمانہ کارروائی کے علاوہ مقدمے چلانے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے ماتحت عدالت میں جمشید دستی کے خلاف کارروائی روکے جانے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے حکم دیا کہ سیشن جج مظفر گڑھ جمشید دستی کے مقدمے کا فیصلہ چار اپریل تک کردیں۔جعلی ڈگری والوں کے خلاف کارروائی میں تاخیر پرچیف جسٹس نے الیکشن کمیشن کی کارکردگی پرعدم اطمینان کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ ووٹرکے علم میں ہونا چاہئے اس کا امیدوار اہلیت کے معیار پر پورا اترتا ہے یا نہیں، عدالت کا مقصد انتخابات کو شفاف بنانا ہے، آئین کا منشا ہے کہ ایسے امیدوار سامنے آئیں جو آئین کے آرٹیکل 62 63/ پر پورے اترتے ہوں۔ نا اہلی پانچ سال کی ہے۔ الیکشن کمشن کے وکیل منیرپراچہ نے عدالت کو بتایا کہ جعلی ڈگری کے بعض کیسزبند کردیئے گئے ہیں۔ چیف جسٹس افتخارمحمد چودھری نے کہا کہ جن ارکان اسمبلی نے اپنی ڈگریوں سے متعلق غلط بیانی کی ان کے خلاف کارروائی نہیں روکی جا سکتی۔ الیکشن کمیشن آئندہ سماعت پرواضح کرے، کس بنیاد پر کیسز بند کیے گئے، الیکشن کمشن وہی کرے جس کی ہدایت کی گئی ہے۔ جمشید دستی نے کہا کہ میرا کیس اڑھائی سال سے زیرالتوارکھا گیا، الیکشن کمیشن نے کیس سننے کی بجائے سیشن عدالت کو بھجوا دیا۔ چیف جسٹس نے کہاکہ قانون نافذ کرنے والےتحقیقاتی ادارے ناکام ہو چکے ہیں۔ سپریم کورٹ نے چاراپریل تک جعلی ڈگری کیسز نمٹانے کی ڈیڈ لائن دیتے ہوئے حکم دیا کہ مقامی عدالتیں روزانہ کی بنیادی پر کیسز کو نمٹائیں حکم میں کہا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے اور مقامی عدالتیں چار اپریل سے قبل مقدمات نمٹا کر الیکشن کمیشن اورسپریم کورٹ کو آگاہ کریں، امیدواروں کا خود کو اہل ثابت کرنا ضروری ہے۔ سپریم کورٹ نے جعلی ڈگری عملدرآمد کیس میں تمام متعلقہ عدالتوں کو مقدمات کی روزانہ سماعت کرکے معاملہ نمٹانے کی ہدایت کی اور جعلی ڈگری والے ارکان کے خلاف تفتیش مکمل نہ کرنے والے پولیس افسروں کے خلاف کارروائی کا بھی حکم دیا۔ عدالت میں الیکشن کمشن کی جانب سے جعلی ڈگری والے ارکان کے خلاف کارروائی کی رپورٹ پیش کی گئی جس کے مطابق 34کیسز متعلقہ ڈی پی اوز کو بھیجے گئے تاکہ ایف آئی آر درج کرکے سیشن جج کی عدالت میں مقدمہ چلایا جائے۔ الیکشن کمشن کے مطابق پنجاب میں 19مقدمات رجسٹرڈ کئے گئے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ مقدمات کافی عرصے سے زیرالتواءہیں، پیش رفت کیوں نہیں ہو رہی، عدالت نے تیزی سے معاملات نمٹانے کی ہدایت کی تھی۔ الیکشن کمشن کے حکام نے عدالت کو بتایا کہ بعض مقدمات میں ہائی کورٹس نے عمل درآمد روک دیا ہے۔ جمشید دستی نے بتایا کہ الیکشن کمشن ان کے مخالفین کے ساتھ مل گیا ہے تین برس بعد نوٹس بھیجا ہے۔ عدالت نے ہدایت کی کہ زیرالتواءمقدمات کی تفصیل متعلقہ ہائی کورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کے سامنے رکھی جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ رجسٹرار ہائیکورٹ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں جعلی ڈگری کے 8 کیس زیرسماعت ہیں، باقی کیسز کہاں ہیں؟ کیا قصور، لاہور، مظفر گڑھ، پاکپتن میں کیس زیرسماعت ہیں۔ وکیل الیکشن کمشن نے کہا کہ جعلی ڈگری کے عدالتوں میں نہ آنیوالے کیسز پولیس کے پاس ہیں۔ کچھ کیسز ڈیڈ ہیں، وہ ختم ہوگئے۔ جسٹس گلزار نے کہا کہ الیکشن کمشن نے کچھ کیسز اس بنیاد پر بند کئے کہ اب ڈگری کی شرط نہیں رہی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ڈگری کی اب بیشک ضرورت نہیں، 2008ءمیں غلط بیانی کرنیوالا آرٹیکل 62 اور 63 کی زد میں آتا ہے۔ جعلی ڈگری والے کیخلاف کارروائی غلط بیانی پر ہی ہونا تھی۔ الیکشن کمشن کو وہ کرنا چاہئے جس کی اسے ہدایت کی گئی۔ الیکشن کمشن عام انتخابات میں فریق نہیں۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے الیکشن کمشن اپنی مرضی سے مقدمات واپس نہیں لے سکتا۔ الیکشن کمشن قانون سے باہر کیسے جاسکتا ہے۔ عدالتی حکم میں کہا گیا ہے کہ ارکان پارلیمنٹ ملک کیلئے قانون سازی اور پالیسی سازی کرتے ہیں۔ امیدواروں کو خود کو اہل ثابت کرنا ضروری ہے۔ پارلیمنٹ کی عظمت اور وقار یقینی بنانے کیلئے عدالت رائے دے چکی ہے۔ جمشید دستی نے عدالت میں موقف اختیار کیا کہ حنا ربانی کھر کے مقابلے میں الیکشن لڑنا ہے، میں کچے گھر سے ہوں جبکہ میرے مقابلے میں جاگیردار، بڑے اور بااثر ہیں۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے میرے خلاف کارروائی انتقام پر مبنی ہے۔ الیکشن کمیشن نے 2010ءمیں الیکشن لڑنے سے نہیں روکا۔ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے کہا کہ اگر آپ نااہل ہیں تو اہل قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ ہدایت جاری کرسکتے ہیں کہ متعلقہ عدالت اس کیس کو جلد نمٹائے۔