لاہور (شعیب الدین سے) پیپلز پارٹی کے چیئرمین اور بینظیر بھٹو کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کی بیرون ملک رخصتی کو 72گھنٹے گزر گئے مگر ان کی ”پراسرار روانگی“ کا راز فاش نہ ہو سکا۔ والد اور پھوپھی سے اختلافات کی تردید کے حوالے سے بلاول بھٹو زرداری کا اپنا یا ان کے کسی ترجمان کا کوئی بیان بھی اس دوران سامنے نہیں آیا۔ بلاول بھٹو زرداری کی اپنی بہن بھی ایک دفعہ ان کی ”صفائی“ پیش کرنے کے بعد ”خاموش“ ہیں۔ پارٹی کے ترجمان قمرالزمان کائرہ کو ق لیگ کے رہنماﺅں سے ملاقات کے موقع پر سب سے زیادہ سوال ق لیگ اور پیپلز پارٹی میں اختلافات کے معاملے کی بجائے بلاول زرداری کی ”پراسرار روانگی“ کے حوالے سے پوچھے گئے۔ کس بات پر ناراض ہوئے اس کا کوئی رہنما جواب دینے کو تیار نہیں ہے۔ پارٹی کے بیشتر رہنما اس بارے سوال پر خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں۔ بلاول بھٹو زرداری کی پراسرار روانگی پر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پی پی پی کا ٹرمپ کارڈ گم ہو گیا ہے۔ بلاول بھٹو کے کیا واقعی اپنی پھوپھی فریال تالپور سے واقعی اختلافات اتنے بڑھے کہ انہیں سب کو چھوڑ کر بلکہ پارٹی کو بیچ منجدھار چھوڑ کر ملک سے روانہ ہونا پڑا کا جواب بھی کسی کے پاس نہیں۔ 5 سال اقتدار میں گزارنے کے بعد پی پی پی کو اپنے کردہ ناکردہ گناہوں کا جواب عوام کو دینا ہے۔ بے نظیر بھٹو کی کرشماتی شخصیت اب نہیں رہی کہ سٹیج پر آ کر جلسے کا رخ بدل دیں۔ بلاول کو پی پی پی کی انتخابی مہم چلانا تھی۔ نوازشریف، شہباز شریف، مریم نواز، حمزہ شہباز جب ملک بھر میں جلسوں سے خطاب کریں گے تو سابق وزرائے اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے خطابات سننے کون جائے گا۔ بلاول کی عدم موجودگی میں پی پی پی بغیر سر کے دھڑ کی طرح ہے۔ اندرون سندھ صرف بلاول بھٹو زرداری ہی ”اپنی ماں کے نام“ پر ووٹ مانگ کر پی پی پی کا سندھ کارڈ زندہ رکھ سکتا ہے۔ بلاول پاکستان واپس نہ آئے تو پی پی پی کو جن مشکلات کا سامنا ہو گا اس کا علم پی پی پی کی قیادت کو بخوبی ہے۔ بے نظیر بھٹو کی صاحبزادیاں آصفہ اور بختاور ابھی اپنی ماں کا ”متبادل“ بننے کی نہ اہل ہیں نہ انہیں بنایا جا سکتا ہے۔ واپسی ممکن نہ ہوئی تو پی پی پی کی قیادت کا خلا پورا کرنا مشکل ہو گا۔