ڈھاکہ سے واپسی پر کہے ہوئے فیض صاحب کے اشعار مجھے یوں یاد آئے کہ آج تینتالیس سال بعد بھی ہمیں آشنا نہیں بننے دیا جا رہا ہے۔ ٹی ٹوئینٹی ورلڈ کپ میں بنگلہ دیش کے کرکٹ اسٹیڈیمز میں پاکستانی پرچموں کی بہار آئی تو ایک بار پھر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد گھبرا گئیں، پاکستان کے پرچم بنگال کی سرزمین پر لہرائیں یہ شیخ مجیب الر حمان کی صاحبزادی کو کس طرح گوارہ ہو ، اس لیے بنگلہ دیشی شائقین کرکٹ پرایک انوکھی پابندی لگا دی کہ وہ اسٹیڈیم میںدوسرے ممالک کے پرچم نہیں لہرا سکتے۔ اس انوکھے فیصلے کا آئی سی سی نے بھی نوٹس لے لیا جس کے بعد بنگلہ دیش حکومت نے یو ٹرن لیا اور آئی سی سی کو وضاحت جاری کی کہ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ نے کسی بھی موقع پر شائقین پر سٹیڈیم میں پرچم لانے پر پابندی عائد نہیں کی ۔
بنگلہ دیش کی وزیراعظم حسینہ واجد جب سے اقتدار میں آئی ہیں ان کے تمام اقدامات میں نفرت اور انتقام کی آگ کی تپش صاف محسوس ہوتی ہے۔ دو ہزار سات میں مجھے لندن میں شیخ حسینہ واجد کا ایک تفصیلی انٹرویو کرنے کا اتفاق ہوا ،تمام جلاوطن لیڈروں کی طرح ان کے پاس بھی وقت ہی وقت تھا جو کسی طرح کاٹے نہیں کٹتا اسی لیے لندن میں جلا وطن لیڈر صحافیوں سے دور بھاگنے کے بجائے ان پر بہت مہربان رہتے ہیں۔ حسینہ واجد چاہتی تھیں کہ ان کا انٹرویو کیا جائے اور انہوں نے کسی کے ذریعے مجھ سے رابطہ کیا میں انٹرویو کے لیے ان کی رہائش گاہ پہنچی وہ مجھ سے بہت ہی اچھے طریقے سے ملیں ، ان سے انٹرویو کے بعد بھی بہت دیر تک گفتگو ہوتی رہی انہوں نے وہیں ایک کونے میں جاء نماز بچھا کر نماز بھی پڑھی ، انہوں نے مجھے بہت تفصیل سے بتایا کہ کس طرح ان کے والد شیخ مجیب رحمان کو 15 اگست 1975 کو تمام گھر والوں کے ساتھ قتل کر دیا گیا۔ ایک بات جو میں نے محسوس کی کہ جب بھی پاکستان کا ذکر آتا شیخ حسینہ واجد کی سبز آنکھوں میں ایک عجیب سے سفاکانہ چمک آ جاتی جس سے پاکستان سے متعلق ان کی شدید نفرت عیاں ہو جاتی ۔ شیخ حسینہ واجد لیڈر بننے کے باوجود ابھی تک سترکی دہائی کی تلخ یادوں سے باہر نکل نہیں سکیں اور ماضی کی اسیر ہیں۔ بڑالیڈر بننے کے لیے ضروری ہوتا ہے کہ انسان ذاتی جذبات کے دائرے سے باہر نکل کر دیکھ سکے اس کی نگاہ ماضی کے بجائے مستقبل پر ہو۔اگر ذاتی رنجشوں کو بھلایا نہ جائے اور سب کو معاف نہ کیا جائے تو شیخ حسینہ واجد کی طرح ایسا لیڈر قوم کو صحیح راستے کے بجائے تصادم کی جانب لے جاتا ہے جیسا کہ حسینہ واجد کر رہی ہیں اور اپنے مسائل سے گھرے ملک کو ترقی کی راہ پر ڈالنے کے بجائے اس کی راہ میں مزید کانٹے بکھیر رہی ہیں۔ ہمارے سامنے نیلسن منڈیلا کی مثال ہے جنہوں نے اپنی زندگی کے بہترین ستائیس سال سفید فام اقلیت کی قید میں گزار دیئے مگر جب وہ اقتدار میں آئے تو سب کو معاف کر دیا اور اپنے اوپر ہونے والی زیادتی کا انتقام لینے کے بجائے اپنی سیاہ فام قوم کو سب کچھ بھول کر آگے بڑھ جانے کو کہا۔ مجھے اس عظیم شخصیت کا بھی انٹرویو کرنے کا موقع ملا ۔میں نے نیلسن منڈیلا سے یہی سوال کیا کہ آخر کس طرح انہوں نے اتنے بڑی زیادتی کے بعد سب کو معاف کر دیا تو انہوں نے کہا کہ وہ اپنی ذات کے لیے کسی سے انتقام نہیں لینا چاہتے اور سارے جنوبی افریقہ کو اپنی ذات کے لیے نفرت کی آگ میں جلانا نہیں چاہتے۔ ایک طرف اتنا بڑا ظرف رکھنے والے نیلسن منڈیلا جیسا لیڈر ہے اور دوسری جانب نفرت اور انتقام کے شعلوں میں لپٹی ہوئی شیخ حسینہ واجد ہیں۔ ایک سب کچھ بھلا کر اپنی قوم کو آگے لے جانا چاہتا تھا اور دوسری اپنی ذات سے باہر ہی نہیں نکل پا رہی ہیں۔ مگر کیا کیجیے کہ بنگلادیشی عوام کے دلوں میں پاکستان کی محبت کم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی، اس ٹی ٹوئنٹی ورلڈ کپ کے دوران ساری قوم نے دیکھا کہ بنگلہ دیش کے اسٹیڈیم پاکستان کے اسٹیڈیم لگ رہے ہیں۔ بنگلہ دیش کے عوام پاکستانی ٹیم کو اپنی ٹیم سمجھ کر سپورٹ کر رہے ہیں ، ایسا لگا جیسے پاکستانی ٹیم اپنے ہی وطن میں کھیل رہی ہے۔ یہ سب دیکھ کر وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی نفرت بے قابو ہو گئی اپنی عوام پر اور کچھ بس نہ چلا تو اسٹیڈیمز میں بنگلہ دیش کے علاوہ کسی بھی ملک کا پرچم لگانے کی پابندی عائد کر ڈالی جس پر ساری دنیا نے حیرت اور افسوس کا اظہار کیا تو گھبرا کر اسے واپس لے لیا۔ پاکستان دشمنی میں اس سے پہلے بھی حسینہ واجد نے بچگانہ حرکت کی تھی، جب دو ہزار بارہ میں ایشیاء کپ کے فائنل میں بنگلہ دیش کو پاکستان کے ہاتھوں شکست ہوئی ، وزیراعظم حسینہ واجد مہمان خصوصی تھیں ، مگر وہ صدمے کے مارے پاکستان کو ٹرافی دیئے بغیر ہی اسٹیڈیم سے رخصت ہو گیئں۔ انہوں نے اسی پر بس نہیں کیا بلکہ اس ہار کا الزام بھی آئی ایس آئی اور پاکستان پر ڈال دیا۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ بنگلہ دیش ایشیاء کپ میں شکست نہ کھاتا اگر آئی ایس آئی اور پاکستان کے چاہنے والے سپورٹر اسٹیڈیم میں موجود نہ ہوتے۔ وزیراعظم حسینہ واجد کا یہ رویہ کسی بھی ملک کے سربراہ کے شایان شان نہیں ہے۔ مگر عوامی لیگ کی حکومت تمام حدیں پار کرتی جا رہی ہے ، عوامی لیگ کی حکومت نے بنگلہ دیش میں پاکستانی ٹی وی چینلز دکھانے پر بھی پابندی عائد کر دی ہے۔ دو ماہ قبل بنگلا دیش کی حکومت نے انیس سو اکہتر میں پاکستان کی حمایت کرنے کے جرم میں ، جماعت اسلامی بنگلا دیش کے رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دے دی تھی ، اس پھانسی کے خلاف پاکستان کی قومی اسمبلی میں قرارداد منظور کی گئی، اس قرارداد کا منظور ہونا تھا کہ وزیر اعظم شیخ حسینہ واجد آپے سے ہی باہر ہوگئیں اور پاکستان کے خلاف زہر اگلنا شروع کر دیا ، ڈھاکا میں پاکستانی ہائی کمیشن کے سامنے عوامی لیگ کے کارکنوں نے پاکستان کا پرچم نذر آتش کیا اور پاکستان کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم کرنے کا بھی مطالبہ کیا۔ عوامی لیگ کی سربراہ کا یہ رویہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تلخیوں کا باعث بن سکتا ہے۔ شیخ حسینہ واجد اپنے اقتدار کو صرف اپنے ذاتی انتقام کے لیے استعمال کر رہی ہیں اور پاکستان دشمنی کے اظہار کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں مگر ان اوچھے ہتھکنڈوں سے بنگلہ دیش اور پاکستان کی عوام کے درمیان محبت کو ختم نہیں کیا جا سکتا ، شیخ حسینہ واجد بھلے ماضی کی اسیر بنی رہیں مگر پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام تلخ ماضی کو بھلا کر بہت آگے نکل چکے ہیں اور ان کے درمیان مذہب اور تاریخ کا مضبوط رشتہ انہیں مزید قریب لا رہا ہے اور اس رشتے کو کوئی توڑ نہیں سکتا۔