ضرورت ہے ایک خواب کی

Mar 29, 2014

غلام اکبر

یہ کہنا بادی النظر میں عجیب سا لگتا ہے کہ تاریخ ایک ایسی عمارت ہے جو بڑے بڑے خوابوں اور ان کی عہد ساز تعبیروں پر کھڑی ہوتی ہے، مگر جب ایچ جی ویلز نے اپنی تصنیف ’’ دنیا کی مختصر تاریخ ‘‘ کے دیباچے میں یہ بات لکھی تھی شاہراہِ وقت پر انسانی تہذیبوں کا احاطہ کرنے کے بعد ہی لکھی تھی ۔
ایچ جی ویلز کے اس نظریے کے ساتھ ٹائن بی سمیت تقریباً تمام بڑے مورّخوں نے اتفاق کیا ہے ۔بڑے بڑے خواب تہذیبیں یا قومیں نہیں دیکھا کرتیں ، تہذیبوں کے معمار اور قوموں کے رہنما دیکھا کرتے ہیں ۔ماضی میں جانے سے پہلے میں دورِ حاضر کی دو تین عظیم مثالیں دینا چاہتا ہوں ۔ایسے رجالِ عظیم کی مثالیں جنہوں نے بڑے بڑے خواب دیکھے اور جن کے خوابوں نے عہد ساز تعبیریں پائیں۔گزشتہ صدی کے آغاز میں لینن نے روس میں ایک ایسے انقلاب کا خواب دیکھا جو دنیا بھر کے غریبوں اور محروم طبقوں کے لئے ایک قابلِ تقلید مثال بن گیا ۔یہ بات کون نہیں جانتا کہ سوویت یونین کا قیام عمل میں آنا اور دنیا کی ایک بڑی سپر پاور بننا اسی خواب کی تعبیر تھا۔کون یہ بات نہیں جانتا کہ جدید چین کے بانی اور معمار مائوزے تنگ نے بھی ایسا ہی ایک خواب دیکھا جو مشہورِ عالم لانگ مارچ اور چینی انقلاب کا باعث بنا۔۔؟
تاریخ کے کم و بیش اِسی عہد میں ویانا کے ایک گم نام شہری ایڈولف نے بھی ایک خواب دیکھا کہ وہ پہلی جنگ عظیم میں راکھ کا ڈھیر بن جانے والی جرمن قوم کی رگ و پے میں ایسی بجلیاں دوڑا دے گا کہ اس کی قیادت میں جرمنی کو ایسا عروج حاصل ہوگا کہ جرمن قوم کے دشمنوں کی نیندیں حرام ہوجائیں گی۔ کون نہیں جانتا کہ 1933ء اور1939ء کے درمیانی عرصے میں نازی جرمنی کے معمار ہٹلر نے کیا کچھ کردکھایا!
عہد ساز شخصیتوں کے اسی دور میں علامہ اقبالؒ نے کیا خواب دیکھا اور محمد علی جناح ؒ  نے اس خواب کو کس طرح اپنایا اور کس تعبیر کی طرف بڑھایا یہ کوئی بڑا راز نہیں۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ پاکستان کی عمارت ایک خواب کی بنیاد پر ہی کھڑی کی گئی تھی اور آج بھی کھڑی ہے۔ 23مارچ1940ء کو اسی خواب کے لئے قرارداد پاکستان کا نام منتخب کیا گیا۔بیسویں صدی میں آپ کو کرہِ ارض پر جگہ جگہ خواب بکھرے نظر آئیں گے۔ ایسے خواب بھی جنہیں عہد ساز تعبیر یں ملیں اور ایسے خواب بھی جو شرمندہ ء تعبیر نہ ہوسکے۔
’’ اگر فرانس عظیم نہیں تو اسے فرانس کہنا فرانسیسی خون کی توہین ہوگی۔‘‘ یہ الفاظ جنرل چارلس ڈیگال کے تھے۔ اِن الفاظ میں وہ خواب پنہاں تھا جوڈیگال نے 1956ء میں دیکھا اور جس نے دس برس کے اندر فرانس کو ایک سپر پاور بنادیا۔
کیوبا فیڈل کا سترو  اور  شی گویرا نے بھی ایک خواب کے دوش پر ہی انقلاب کا سفر طے کیا تھا۔
انڈونیشیا کی آزادی بھی احمد سوئکارنو کے خواب کی ہی تعبیر تھی۔ وہ بھی احمد بن بیلا اور یوسف بن خذہ جیسے جنونیوں کا ایک خواب ہی تھا جس کے ایندھن نے الجزائر کی جنگِ آزادی کو آگے بڑھایا۔ ہوچی مونھ کے خواب کی تعبیر کو دنیا ویت نام کے نام سے جانتی ہے۔ جدید سنگاپور اور جدید ملائیشیا کو ہم یوکوانگ لی اور مہاتیر محمد کے خوابوں کی تعبیر یں قرار دے سکتے ہیں۔
غرضیکہ کہ عہد ساز افراد کے دیکھے ہوئے خواب ہی تاریخ کے پہیوں کو آگے دھکیلتے رہے ہیں اور دھکیلتے رہیںگے۔
یہ سلسلہ بقول ایچ جی ویلز کے ٗ قدیم زمانوں سے چلا آرہا ہے۔
اس ضمن میں سب سے بڑی مثال مقدونیہ کے سکندر اعظم کی دی جاسکتی ہے۔ میں یہاں ایچ جی ویلز کے ہی الفاظ دہرائوں گا۔ اگر سکندر اعظم پیدا نہ ہوا ہوتا تو تاریخ میں مقدونیہ کا نام تک کوئی نہ جانتا۔ اُس دور کا یونان ایک بڑی طاقت ضرور تھا لیکن یونان میں بھی کوئی شخص دائرہ ء تصور میں بھی یہ بات نہیں لاسکتا تھا کہ بہت جلد دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں مقدونیہ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان کے سامنے گھٹنے ٹیکنے والی ہیں۔
سکندر اپنے خوابوں پر سوار ہو کرہی ایک بپھری ہوئی موج کی طرح اٹھاتھا اور کرہ ء ارض کی وسعتیں اس کے گھوڑے کی ٹاپوں کے سامنے سمٹتی چلی گئی تھیں۔
یہی بات سائرس دی گریٹ کے بارے میں کہی جاسکتی ہے۔ اس عظیم فاتح کو ہم کیخسرو کے نام سے بھی جانتے ہیں اور اسی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے دیوار چین بنوائی تھی مولانا ابو الکلام آزاد کی تحریر کردہ تفسیرکے مطابق اسی عظیم فاتح کا ذکر قرآن حکیم میں ذوالقرنین کے نام سے ہوا ہے۔ سیزر اٹیلا اور ہنی بال بھی عظیم فاتحین کی اسی کلب کے ممبر قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ ان سب کے درمیان مشترک خصوصیات شاید بہت کم ہوں لیکن ایک قدر یقینی طور پر مشترک تھی۔ ان سب نے اپنے اپنے انداز میں خواب دیکھے اور اپنے اپنے انداز میں اُن کی تعبیریں تلاش کیں۔
اسلامی دنیا کے فاتحین کا ذکر میں الگ طور پر کروں گا۔ اگر یہاں بلادِمشرق کے دو فاتحین کا ذکر ضرور ہونا چاہئے۔ایک تو تیمور لنگ اور دوسرا اس کا غیر مسلم تاتاری پیش رو چنگیز خان ۔ یہ دونوں خاندانی بادشاہ نہیں تھے۔ انہوں نے زندگی کا سفر عام اور معمولی حیثیت کے آدمیوں کے طور پر شروع کیا۔ تموجن نام کا ایک چرواہا چنگیز خان کیسے بنا؟ اور تیمور نام کا ایک لنگڑا سپاہی اپنے دور کا اقلیم شکن کیسے بن گیا ؟ ان سوالات کے جواب میں بہت لمبی داستانیںلکھی جاسکتی ہیں لیکن یہاں یہی کہہ دینا کافی ہے کہ دونوں نے اپنی ’’ قوتِ تسخیر‘‘ اپنے خوابوں سے حاصل کی۔ دونوں نے اپنی زندگیاں گھوڑوں کی پیٹھ پر گزاریں اور ان کے خوابوں کی اڑان انہیں کرہء ارض کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لے جاتی رہی۔ اسی صف میں محمود غزنوی اور محمد غوری کو بھی کھڑا کیا جاسکتاہے۔ان کی اسلامی شناخت سے ہٹ کر بھی ان کی شخصیت کو جانچا او ر پرکھا جائے تو وہ ہر لحاظ سے سکندر اور سیزر کے پائے کے فاتحین نظر آتے ہیں۔ دونوں نے برصغیر ہند کی تاریخ تبدیل کرنے میں مرکزی کردار ادا کیا۔ محمود غزنوی سے تو یہ جملہ منسوب ہے کہ ’’ سومناتھ تک پہنچنا میرا ایک خواب تھا جو حقیقت میں ڈھل گیا۔ دنیا میں جہاں بھی کوئی سومنات ہوگا ٗ میں وہاں تک پہنچوں گا۔‘‘
خوابوں کے حوالے سے تین بہت بڑے نام سلطان صلاح الدین ایوبیؒ  ٗ سلطان بیبرس ؒ  اور جلال الدین خوارزم ؒ کے ہیں۔ لیکن ان کا تفصیلی ذکر میں اپنی اگلی تحریر میں کروں گا۔
یہاں سرسری ذکر ارطغرل ٗ الپ ارسلان اور ملک شاہ سلجوقی کے ساتھ ساتھ سلطنت عثمانیہ کے بانی عثمان کا ضروری ہے۔ یہ سب وہ فاتحین تھے جنہوں نے اپنے اپنے انداز میں اپنے اپنے خواب کی قوت کے ساتھ دنیا کی تاریخ کا رخ موڑا۔ اسی فہرست میں یوسف بن تاشفین کا نام بھی شامل کیا جانا چاہئے۔ اس عظیم فاتح کو بھی ہسپانیہ پر دوبارہ نصرانی قبضے کو روکنے کا خواب جبل الطارق کے اُس پارلے گیا تھا۔
یہاں تاثر یہ ملتا ہے کہ دنیا کی تاریخ واقعی کچھ اور نہیں ٗ عظیم خوابوں عظیم فاتحین اور عظیم جنگوں کی ’’ داستانِ مسلسل ‘‘ ہے۔ جنگیں صرف تلواروں اور توپوں سے نہیں خوابوں اور سوچوں سے بھی لڑی اور جیتی جاتی ہیں۔ جنگیں صرف دو مملکتوں کے درمیان نہیں ہوا کرتیں ٗ دونظاموں کے درمیان بھی ہوتی ہیں ۔اس ضمن میں میںلینن مائو اور محمد علی جناح ؒ  کا نام لوں گا۔چند برس قبل جمین میگریگر بزنس نے اس موضو ع پر ایک بڑی دلچسپ کتاب لکھی تھی۔
"Leaders Who Changed The World"
)لیڈر جنہوں نے دنیا کو تبدیل کیا(
اگرچہ شخصیات کے انتخاب میں جمین میگریگر کی سوچ جانبدارانہ بلکہ متعصبانہ تھی لیکن اس نے بھی ایچ جی ویلز کی اس تھیوری سے اتفاق کیا کہ تاریخ بڑے آدمیوں کے بڑے خوابوں کی کوکھ سے جنم لیا کرتی ہے۔
آج کے پاکستان کو بھی ضرورت ایک بڑے خواب کی ہے۔ ایسا خواب جو کوئی بڑا آدمی دیکھے۔
چھوٹے آدمیوں کے خواب ہمیشہ چھوٹے ہوا کرتے ہیں ۔)جاری (

مزیدخبریں