پشاور (نوائے وقت رپورٹ) حکومتی کمیٹی کے رکن رستم شاہ مہمند نے کہا ہے کہ پہلی ملاقات سے دونوں طرف کا اعتماد بڑھا ہے۔ میڈیا سے گفتگو میں ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملا۔ آئندہ ملاقات میں مزید فاصلے کم ہونگے۔ ملاقاتوں سے معاملات آگے بڑھیں گے۔ ڈاکٹر اجمل کی رہائی کی بات ہوئی ہے، تمام قیدیوں کی رہائی پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ حکومت اور طالبان کے درمیان جنگ بندی ابھی جاری ہے، آئندہ مذاکرات میں بھی جنگ بندی پر بات ہوگی، طالبان راضی ہونگے۔ طالبان نے غیر عسکری قیدیوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ طالبان نے نہیں کہا کہ اجمل خٹک، شہباز تاثیر اور علی حیدر گیلانی انکے پاس ہیں۔ اس سے لگتا ہے تینوں افراد انکے زیراثر لوگوں کے پاس ہیں۔ طالبان چاہیں تو تینوں افراد کی رہائی میں مدد کرسکتے ہیں۔ وزیرستان سے فوج کے انخلا پر ابھی کوئی بات نہیں ہوئی۔ وزیرستان میں جب امن ہوگا ادارے فعال ہوجائیں گے تو انخلا کی بات ہوگی۔ وزیرستان میں بہت زیادہ فوج تعینات ہے، یہ معاملہ آہستہ آہستہ حل ہوگا۔ نفاذ شریعت پر کوئی بات نہیں کی گئی۔ قیدیوں سے متعلق طالبان کی فہرست پر چھان بین جاری ہے۔دو تین دن میں طالبان رہنمائوں کے ساتھ ایک اور ملاقات ضروری ہے۔ طالبان رہنمائوں سے ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی۔ ان پر حکومت کا موقف واضح کیا گیا۔ طالبان پروفیسر اجمل کی رہائی کے بدلے اپنے کچھ قیدیوں کی رہائی چاہتے ہیں۔ انکی دی ہوئی فہرست کی چھان بین کی جا رہی ہے۔ رستم شاہ مہند نے ایک بار پھر واضح کیا کہ حکومت کے پاس طالبان کی عورتیں اور بچے قید نہیں۔ انکا کہنا تھا کہ یکم اپریل سے پہلے طالبان کے ساتھ ایک اور ملاقات ضروری ہے۔ رحیم اللہ یوسفزئی نے کہا ہے کہ پروفیسر اجمل طالبان کی قید میں ہیں جس کے متعدد ویڈیوز آچکے ہیں۔ شہباز تاثیر ازبک عسکریت پسندوں کی قید میں ہیں۔ انکی رہائی کیلئے 4 ارب روپے اور 25 قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا تھا۔ ان میں سے 3 رہا کر دیئے گئے، باقی 22 رہ گئے ہیں۔ شہباز تاثیر کی رہائی کیلئے ممتاز قادری کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے۔