یونہی جنت ماں کے قدموں تلے نہیں آئی اور نہ ہی ازراہ اخلاق ماں کا حق باپ سے تین درجے زیادہ رکھا گیا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ کی ماں کیلئے یہ عنایت ماں کی کوکھ سے جنم لینے والے بچے کیلئے اٹھائی ہوئی تکلیف کا انعام ہے ماں اپنے بچے کو جنم دیتے وقت جو تکلیف جھیلتی ہے اس کی قسم کھا کر اللہ رب العزت نے ماں کو عزت بخشی قدرت کی کرشمہ سازی نہیں تو یہ اور کیا ہے کہ گوشت کے ایک چھوٹے اور ننھے منے لوتھڑے (نومولود بچے) کو وہ اپنی (ماں) گود میں لیتے ہی اپنی ساری تکلیفیں بھول جاتی ہے۔ اسی ننھی منی جان کا ماتھا چومتے ہی ماں دنیا کی سب سے زیادہ مسرت محسوس کرتی ہے۔ حقیقت میںنومولود بچے سے ماں کی محبت کا آغاز اس وقت ہی سے ہو چکا تھا جب وہ نوماہ تک اسے اپنے رحم میں پروان چڑھا رہی تھی.... اس کا لمس ماں کا دل لبھاتا رہتا تھا۔ ماں باپ کا ساتھ چھوڑ کر گھر بار اور شوہر کی دیکھ بھال کی ذمہ داری نبھاتے نبھاتے اپنی ہستی کو بھول جانیوالی کو جب اولاد مل گئی تو اس عورت نے پھر تو دنیا ہی کو بھلا دیا۔ جینے کا مقصد اولاد کی بہترین تربیت و پرورش بن گیا گویا کہ زندگی کو خوبصورت مقصد مل گیا۔ پیاری انا کے چہرے کی معصومیت دیکھ کر تھکاوٹ تراوٹ میں بدل جاتی جب توتلی زبان بولنا شروع کی من ہی من میں گد گداتی۔ ہاں جب پہلی بار انا نے ”ماما“ کہا تھا تو میں پھولے نہ سماتی اور ہر کسی کو بتاتی رہتی دیکھو میری بیٹی اب ”ماما“ کہتی کتنی پیاری لگتی ہے۔ اسکی زبان سے ”ماما“ کا لفظ میں بار بار سنتی.... پھر ماما کی انگلی پکڑ کر اس نے آہستہ آہستہ چلنا سیکھا۔ یہ شاید میری محبت تھی کہ دیوانگی میں انا بیٹی کو پیٹ بھر کے کھلاتی مگر لگتا کہ اسے اور کھانا چاہئیے.... اسے بہترین لباس پہناتی، سجا سجا کے رکھتی مگر محسوس ہوتا کہ اسے اس سے بھی اچھا لباس پہننا چاہئیے۔ سب مجھے مذاق کرتے کہ بیٹی کے اتنے بال نہیں جتنے تم نے کلپز، پنیں اور پونیاں جمع کر رکھی ہیں۔ پھر جب میری انا بیٹی سکول جانے کے قابل ہوئی تو اسکے شایان شان مجھے کوئی سکول ہی سجھائی نہ دے رہا تھا۔
کانونٹ آف جیسزز اینڈ میری میں انا بیٹی کا ایڈمیشن مجھے اپنی بہت بڑی اچیومنٹ لگ رہی تھی پھر دینی و قرآنی تعلیم کیلئے میں نے انا پر خصوصی توجہ دی۔ قاری صاحب کا انتظام کیا۔ میں قرآن تلاوت کیلئے بیٹھتی تو انا اپنا یسرنا القرآن لیکر آ جاتی۔ میرے ساتھ دعا کیلئے اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اٹھا کر پاپا کی خیر مانگتی۔ میں کالج اسے اپنے ساتھ لیکر جاتی تھی.... جلد ہی میرے کالج میں ہر دلعزیز ہو گئی۔ ہاں انا بیٹی اپنے چھوٹے چھوٹے پاﺅں میں میری بڑی ہیل والی جوتیاں پہن کر اپنے جیسی محلے کی پیاری پیاری بچیوں کے ساتھ کھیلنے چلی جاتی۔ میرے دوپٹے، میری چادریں سر پر لیکر سارے گھر میں گھومتی رہتی، ڈریسنگ ٹیبل پر اوپر والی شیلفز پر رکھی چیزوں تک پہنچنے کیلئے سٹولز، کرسیاں کھینچ کھینچ کر لاتی اور یہاں پڑا سارا میک اپ چوپٹ کر دیتی۔ اپنی سہیلیوں کی بھی اپنی ماما کی چیزوں سے دعوت کرتی۔ اپنے منہ کو بھی میک اپ سے بھرتی اور سہیلیوں کا بھی۔ ماما کے بڑے بڑے پرس پکڑ کر، ہیلز والی جوتیاں پہن کر اپنی ہمجولیوں سے کھیلتی رہتی۔ انا اپنی گڑیوں اور کھلونوں کا بہت خیال رکھتی۔ باربی ڈالز کا ہر ماڈل سٹائل اور ڈھیر سارے کھلونوں کی الماری انا بیٹی کیلئے مخصوص تھی۔ اپنی برتھ ڈے پر بہت پرجوش ہوتی۔ انا شروع ہی سے تحفے لینا اور دینا بہت پسند کرتی ہے کچن میں میں اسے اپنے ساتھ رکھتی اور وہ چیزیں پکڑانے میں میری ہیلپ کرتی رہتی۔ آہستہ آہستہ کوکنگ میں دلچسپی پیدا ہو گئی۔ رائس و مکسڈ ویجیٹیبل اچھا بنانے لگی۔ چکن و مٹن کی ڈشز بھی اچھی بنانے لگی۔ انا بیٹی دوستوں، رشتوں داروں، محلے داروں سب سے دل سے ملتی ہے۔ میری بیٹی ملنسار و وسیع القلب ہے۔ فیملی میں تمام کزنز کو ہمیشہ رابطے میں رکھتی ہے۔خالاﺅں، پھوپھو، چاچے، ماموں سب کا خیال رکھنے والی ہے۔ اسے ہر کزن کا برتھ ڈے یاد ہے۔ کسی کی مشکل میں مدد کرنے اور ضرورت پوری کرنے کیلئے بیتاب ہو جاتی ہے۔ ایک منٹ میں سب سہیلیوں و کزنز کو جمع کر لیتی ہے۔ لوگوں میں رہنا اپنے اردگرد ہجوم لگانا اسے پسند ہے۔ بڑی گرمجوش فرینڈ ہے۔ بیسیوں سہیلیاں بنا رکھی ہیں لیکن اپنے سکول کی سہیلیوں سے زیادہ اٹیچڈ ہے۔ جن سے ہر وقت باتیں کرتی رہتی ہے۔ امتحانوں میں پڑھتی کم ہے لیکن نمبر اچھے لیجاتی ہے۔ کنیرڈ کالج میں جب ایف ایس سی کر رہی تھی تو مجھے سے نہ پڑھنے پر اکثر ڈانت کھاتی‘ میں اسے احساس دلاتی کہ تم نے ڈاکٹر بننا ہے اور میڈیکل سٹڈیز کے لئے محنت کرنا پڑتی ہے وہ جھٹ کہتی آپ بھی تو ڈاکٹر نہیں ہیں پھر اس نے میرے پی ایچ ڈی کو بہت سراہا۔ صرف ماں اولاد کا حوصلہ نہیں الحمدللہ میرا تجربہ یہ ہوا کہ اولاد بھی ماں کی چھت بن جاتی ہے۔ انا میری بیٹی نے زندگی کی تپتی ریت پر پڑنے والے میرے ننگے پاﺅں کو بھی بارہا جلنے سے بچایا۔ انا بیٹی بے حد سمجھدار ہے۔ اسے ہر ماحول میں اپنے وقار کے ساتھ گزارا کرنا آتا ہے۔ صرف پیاری بیٹیوں کو اورینج، ایپل اور کیرٹ کا جوس ملتا ہے، جو کا آٹا اور پودینا اسے بہت عزیز ہے۔ فیشن ڈیزائننگ میں اسکی قدرتی دلچسپی ہے۔ اپنے بھائی اور بہن کے ڈریسز خود تیار کرتی ہے۔ خصوصاً اپنی بہن کے ڈریسز اپنے ہاتھ سے تیار کرتی ہے۔ بہن کے کپڑوں کی تیاری کیلئے اپنا سائز ٹیلر کو دیتی ہے لیکن بہن کو پوری تسلی دیتی ہے کہ یہ کپڑے تم بھی پہن لینا۔ ماما کے کپڑوں پر تو اس کا ازلی حق رہا ہے بلکہ ماما کی ہر چیز کو مال غنیمت سمجھتی ہے۔ برانڈز میچنگ جیولری، لباس، جوتیوں و پرس کی کلیکشن انا بیٹی کا مشغلہ ہے۔ بس یہ بچے ہی میرے زندگی کا انمول سرمایہ ہیں۔ یہ بچے میری کل کائنات و میری خوشیوں کا محور ہیں۔ میں نے ان بچوں کی خوشیوں کیلئے ناقابل بیاں غم اٹھائے، سختیاں جھیلیں۔انا بیٹی تو آج بھی مجھے اپنی سہیلیوں کے ساتھ جی او آر تھری کی گراﺅنڈ میں لک چھپ کھیلتی نظر آ رہی ہے تیری میٹھی آواز ”جی ماما جی“ میرے کانوں میں رس گھول رہی ہے مجھے لگ رہا ہے کہ صبح سویرے تو پھر میرے کچن سے نکل کر میرے لئے جوس کا گلاس لا رہی ہے تو مجھے سے فش ایگ کے ناشتے کی فرمائش کر رہی ہے بھائی کا موبائل چیک کر رہی ہے بہن سے جھگڑ رہی ہے۔ کہیں تو مجھے اپنے نئے کپڑے اور لیسیں دکھا رہی ہے سہیلیوں کے ساتھ گپیں لگا کے ہنسی مذاق کر رہی ہے تیری آواز سے میرے گھر کا صحن گونج رہا ہے‘ میں کل رات بھی تجھے لحاف دینے کیلئے اٹھی تھی‘ اب بھی تیرا سر میں اپنی گود میں رکھ کر تیرے بالوں میں انگلیاں پھیر رہی ہوں۔ کیا عجب ہے کہ جنم تجھے میں نے دیا اور جنم نبھانے تو کسی اور کے ساتھ چل دی ہاں سچ کہا ہے.... بیٹی تو ہے دھن ہی پرایا پاس اپنے کوئی کب رکھ پایا تجھے دلہا بھی کمال کا ملا ہے سب سے بڑا کمال تو اس نے یہ کیا کہ میری پوری کائنات مجھے سے لے گیا.... پیاری بیٹی تجھے رخصت کرنے کی کٹھن گھڑی نے مجھے جنم دینے والی تکلیف کو بھلا دیا لیکن مجھے یقین ہے اور دعا بھی کہ رانی بیٹی راج کرے گی۔